سابق وزیر خارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے ازرہ کرم اپنے وقت کے ممتاز صحافی اور بائیں بازو کے دانشور کارکن عبداللہ ملک مرحوم کی کتاب ’’داستان خانوادہ میاں محمود علی قصوری‘‘ ارسال کی جس میں خورشید قصوری صاحب کے خاندان کی سیاسی و علمی خدمات‘جدوجہد اور برصغیر پاک و ہند کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے‘ عبداللہ ملک مرحوم سے ان کی وفات تک نیاز مندی رہی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود مرحوم نے ہمیشہ شفقت سے نوازا‘ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب مختلف الخیال نظریاتی لوگ چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے سے عزت‘ محبت اور شفقت سے پیش آتے اور مکالمے کی عالمانہ روایت کوخوش اسلوبی سے آگے بڑھاتے۔ لاہور آمد کے بعد بائیں بازو کے جن بزرگوں نے طالب علم کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ان میں سید سبط الحسن ضیغم اور عبداللہ ملک مرحوم سرفہرست ہیں۔ شفیق ‘فراخدل‘ مہربان۔ کتاب کی ورق گردانی کے دوران ایوب دور میں مولانا عبدالحمید بھاشانی اور ذوالفقار علی بھٹو کے دوہرے کردار اور مشرقی پاکستان کے حوالے سے فوجی جرنیلوں کی سوچ کے بارے میں میاں محمود علی قصوری کے تاثرات دلچسپ بلکہ چشم کشا لگے سوچا قارئین کو بھی شریک مطالعہ کروں عبداللہ ملک لکھتے ہیں‘ ’’میاں محمود علی قصوری سے ایک روز سیاسی سکینڈلز کا تذکرہ ہو رہا تھا کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی مرحوم‘ جو پاکستان عوامی نیشنل پارٹی کے ایک زمانے میں صدر تھے کا ذکر چل نکلا۔ میں نے میاں محمود علی سے دریافت کیا کہ یہ افواہ عام رہی ہے کہ مولانا عبدالحمید بھاشانی کے کچھ رفقاء نے محترمہ فاطمہ جناح اور صدر ایوب خان کے درمیان صدارتی مقابلے کے دوران درپردہ صدر ایوب کی حمایت کی تھی اور کہا جاتا ہے کہ اس میں چینی قائدین کی ایماء اور مالی منفعت دونوں شامل تھے کیا۔ آپ کو اس ضمن میں کچھ معلوم ہے؟‘‘ ’’میاں محمود علی نے بتایا کہ 1967ء میں جب وہ مغربی پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کے صدر تھے تو انہوں نے بھی ایسی افواہیں سنی تھیں اور ان افواہوں نے خاصا پریشان کر دیا تھا۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ڈھاکہ جا کر مولانا سے بالمشافہ گفتگو کریںگے۔ مولانا بھاشانی کو میں نے تار دیا کہ ہم فلاں تاریخ کو وہاں پہنچ رہے ہیں تاکہ ان سے ملاقات کر سکیں۔مغربی پاکستان سے خان عبدالولی خان‘ ارباب سکند اور میں اس غرض سے ڈھاکہ گئے۔ غالباً ہم احمد الکبیر کے ہاں یا کسی ہوٹل میں ٹھہرے۔ وہاں احباب کو ہمارے آنے کی اطلاع مل چکی تھی‘ کافی دوست جمع تھے۔ مگر جب مولانا کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ مولانا بھاشانی ہمارے پہنچنے سے دو دن پہلے ہی چلے گئے تھے۔ چونکہ ہم صرف مولانا کو ملنے گئے تھے اور مولانا کی وہاں واپسی کا کوئی یقینی پروگرام نہیں تھا۔ دو تین دن کی جستجو کے بعد طے کیا کہ ہم مولانا کے گائوں پنج بی بی جائیں گے‘ اگر وہ وہاں بھی نہ ملے تو پھر وہ جہاں بھی ہوں گے ان سے مل کر ہی واپس جائیں گے۔‘‘ ’’ہم مولانا کی تلاش میں موٹر پر ڈھاکہ سے روانہ ہوئے اور دریائوں کو بحری جہازوں کے ذریعے پارکرتے بوگرہ جا پہنچے۔ بوگرہ سے آگے موڑر کا جانا مشکل تھا‘ اس لئے ہم نے وہاں سے آخری 22میل کے لئے الگ انتظام کیا اور کسی جیپ میں مولانا کے گائوں پنج بی بی جا پہنچے۔ حسن اتفاق کہ مولانا کو یا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم آ رہے ہیں یا ہماری صعوبت کے پیش نظر وہ ہمیں پنج بی بی میں مل گئے۔ اسی رات مولانا سے تفصیلی گفتگو ہوئی اور مولانا ٹال مٹول کے بعد مان گئے کہ انہوں نے چواین لائی کی درخواست پر ایوب خان کی الیکشن میں مدد کی تھی۔ ہمارے لئے یہ عذر کسی طرح قابل قبول نہیں تھا۔ اس رات نیشنل عوامی پارٹی کے اندر اختلافات نے بھی واضح پوزیشن اختیار کر لی اور ہم نے مولانا کو بتا دیا کہ اب ہم ان کے ساتھ نہیں چل سکیں گے کیونکہ انہوں نے ہمارا اعتماد مجروح کر دیا ہے اور جماعت پر ایسا الزام لگوایا ہے جس کی ذمہ داری صرف ان کی ذاتی ہے کیونکہ کسی جماعتی ادارے سے اس تبدیلی کی اجازت نہیں لی تھی۔‘‘ ’’ڈھاکہ میں روس نواز دوستوں نے ہم لوگوں کے ساتھ پروگرام بنایا کہ پارٹی کی دو سالہ کنونشن کی جائے اور یہ پشاور میں منعقد ہو اور اس میں مشرقی پاکستان کے رفقاء پوری طرح شرکت کریں گے۔ چنانچہ یہ کانفرنس پشاور میں 1968ء میں منعقد کی گئی۔پشاور والوں نے اس کانفرنس کے لئے بہت انتظامات کئے اور یہ بات بہت تعجب انگیز تھی کہ مشرقی پاکستان سے اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے ایک سو کے قریب افراد کا ڈیلی گیشن آیا تھا اور پہلی دفعہ آنے والے لوگوں نے اپنے آنے کے کرائے کا مطالبہ مغربی پاکستان والوں سے نہیں کیا تھا۔‘‘ ’’بنگالی دوستوں کی رائے تھی کہ نیا صدر ہو گا تو مغربی پاکستان سے مگر پنجابی نہیں ہو گا۔ پنجابیوں کے متعلق ان کی رائے تھی کہ یہ فوج سے تعلق کی وجہ سے امپریلسٹ بن گئے ہیں اور ان کی قیادت میں دوسرے صوبوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکے گا۔خان عبدالولی خان کو متفقہ طور پر صدر چنا گیا اور مولانا بھاشانی سے قطع تعلق ہو گیا اور اس کو رسمی صورت دے دی گئی۔ اخبارات نے ہمارے دھڑے کو نیشنل عوامی پارٹی ماسکو نواز لکھنا شروع کر دیا حالانکہ ہم مغربی پاکستان والے اپنے آپ کو روس یا چین کسی کے ساتھ متعلق نہیں کرتے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی سے میرا تعلق جون‘ جولائی 1970ء تک رہا لیکن آخری ڈیڑھ سال ہماری نیشنل عوامی پارٹی کا ہمارا گروپ یکجان ہو کر نہیں چل سکا۔بنگالی دوست بہت حد تک علیحدگی پسند ہو چکے تھے اور اپنے ساتھ کئی دفعہ دوسرے دوستوں کو صوبائی حقوق کا نام لے کر متاثر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘ ’’ 1967ء کا واقعہ ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو وزارت سے الگ ہونے کے بعد لاہور آئے اور مجھے ملنے کے لئے میرے مکان پر آئے‘ مجھے انہوں نے کہا کہ وہ نئی سیاسی پارٹی بنانے کا سوچ رہے ہیں لیکن اگر ہم ان کو اپنی جماعت میں شامل کر لیں اور ان کی حیثیت کے مطابق ان کو جماعت میں مقام دیا جائے تو وہ نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔‘‘ ’’آٹھ سال کی وزارت کے دوران بھٹو صاحب اپنے آپ کو ہمارے ملک سے آشنا کرا چکے تھے۔میں یہ سمجھتا تھا کہ اگر وہ ہماری جماعت میں آ جائیں تو اچھا ہو گا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ پھر ملیں گے۔ جب وہ اگلی بار آئے تو مجھے پہلے سے اطلاع مل چکی تھی اور میں نے اپنی پارٹی کے کافی لوگوں کو اپنے گھر بلا رکھا تھا‘ جن میں چودھری اسلم‘ چودھری انورٔ سردار شوکت علی کے نام مجھے یاد ہیں۔ بھٹو صاحب نے میرے ساتھ اپنی پہلی گفتگو کا اعادہ کیا اور یہ کہا کہ بھاشانی صاحب کے صدر ایوب سے گہرے تعلقات ہیں اور صدر صاحب ان کی خدمت بھی کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہ بھاشانی صاحب کو علیحدہ کر کے بھٹو صاحب کو صدر بنانے پر آمادہ ہوں تو وہ ہماری جماعت میں اس وقت شامل ہو سکتے ہیں۔ حاضرین نے بھٹو صاحب کے خیالات سے اتفاق نہ کیا اور مولانا بھاشانی پر ان کے اعتراضات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا اصل میں وہ نیشنل عوامی پارٹی میں نفاق ڈالنے کے لئے یہ باتیں کر رہے ہیں۔ یہ میٹنگ تلخی تک پہنچ گئی۔ میں نے اپنے مہمان کو رخصت کیا اس کے بعد پھر ان سے اس مسئلے پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی۔‘‘ (جاری ہے)