حکیم سعیدصاحب مرحوم کی زندگی میں بڑی جہتیں اور بڑی وسعتیں تھیں مگر ان کی سرگرمیوں کا محور اللہ کا دین، اسلام اور اس کی عطا کی ہوئی سب سے بڑی نعمت پاکستان تھے۔ وہ جہاں بھی ہوتے اور جہاں بھی جاتے انہی کے بارے میں سوچتے اور انہی کے حوالے سے انسانیت کو امن و سلامتی کا پیغام دیتے۔ ان کی اولین ترجیح یہ تھی کہ اسلام نے انسانی تہذیب کی تشکیل اور علوم و فنون کی ترقی میں جو گراں بہا اضافہ کیا ہے، اسے عالمی سطح پر پورے اعتماد کے ساتھ اجاگر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے اندر اپنے ماضی پر فخر کرنے اور ا پنے مستقبل کو سنوارنے کا ایک طاقتور داعیہ پیدا ہو۔ بے پناہ مصروفیات اور مشاغل کے سمندر میں وہ بڑی پابندی اور انہاک سے اپنے رب کی عبادت کرتے اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا رہتے۔ حافظ قرآن تھے، اکثر روزے سے ہوتے اور آخر شب اپنے خالق سے مغفرت کی دعائیں مانگتے رہتے۔ وہ زمین پر سوتے اور اپنے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھوتے۔ عمر بھر کرائے کے مکان میں رہے، ان کی اہلیہ نے اپنے زیورات بیچ کر ایک مکان بنوایا تھا جو حکیم صاحب نے انہی کے نام کر دیا تھا۔ ان کی وفات پر اوسط درجے کی یہ رہائش گاہ ان کی بیٹی سعدیہ راشد کو منتقل ہوگئی۔ تزکیہ نفس کی اتنی بڑی مثال ہمارے اکابرین میں کم ہی نظر آتی ہے۔ پاکستان بنا تو بھارت سے ہجرت کر کے اسلامی ریاست کی تعمیر کے لیے کراچی آگئے۔ اپنے بڑے بھائی سے زاد راہ بھی نہ لیا۔ کراچی آئے تو جیب خالی تھی، کئی برس ایک اسکول میں پڑھاتے رہے۔ اسی بے سروسامانی میں اپنے خسر صاحب سے کچھ قرضہ لے کر ہمدرد دواخانہ کا سلسلہ شروع کیا۔ حضرت قائداعظم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے وہ کام، کام اور صرف کام سرانجام دیتے رہے۔ انتھک محنت اور بے مثال نظم و ضبط کے ذریعے انہوں نے عقل کو حیرت میں ڈال دینے والی کامیابیاں حاصل کیں۔ دولت نے اپنے آپ کو ان کے قدموں میں ڈھیر کر دیا تھا۔ ہمدرد دواخانے کی مصنوعات پوری دنیا میں پھیل چکی تھیں اور جناب حکیم محمد سعید کا نام اونچے اونچے ایوانوں اور علمی اور سائنسی مراکز میں سنا جا رہا تھا۔ انہیں دولت بھی ملی، عزت بھی اور شہرت بھی لیکن ان کی وضع داری اور حسن اخلاق میں ذرہ برابر فرق نہ آیا بلکہ ملنساری میں اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے جو کچھ کمایا اسے ایک ٹرسٹ کی صورت میں اپنے اہل وطن کے حوالے کر دیا۔ وہ مایاپر سانپ بن کر نہیں بیٹھے بلکہ اسے انسانی خدمت کے لیے بڑے سلیقے اور کمال بالغ نظری سے استعمال کیا۔ مدینتہ الحکمہ کے نام سے کراچی سے ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر ایک پورا شہر آباد کر دیا جس میں ایک بہت بڑے کتب خانے کے علاوہ ہزاروں یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت کا نہایت اچھا اہتمام ہے۔ ہمدرد یونیورسٹی تعمیرکی، میڈیکل کالج بنایا اور ہر چھوٹے اور بڑے شہر میں مریضوں کے لیے شفاخانے کھول دیئے۔ علمی اور فکری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ’’شام ہمدرد‘‘ اور ’’ہمدرد شوریٰ‘‘ کا ایک جال بچھا دیا۔ ان کی سرپرستی میں عوامی فلاح و بہبود کے متعدد ادارے کام کر رہے تھے۔ خون پسینے کی کمائی میں دوسروں کو خود آگے بڑھ کر شامل کرنا ایک نہایت بے لوث اور بڑے وسیع النظر انسان کا شیوہ ہو سکتا ہے۔ جس معاشرے میں اوپر سے نیچے تک زرپرستی کا سرطان پھیل چکا ہو، اس میں جناب حکیم سعید کا مثالی کردار دور سے نظر آنے والے روشنی کے مینار کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ تحریک پاکستان میں حکیم صاحب نے جس انہماک اور جانفشانی سے حصہ لیا اس کی بدولت وہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے معتمد خاص بن گئے تھے۔ ان پر تحریک پاکستان کے قائد کا اعتماد اس درجہ راسخ تھا کہ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں کے نام تحریر کیے ہوئے اپنے 1200 خطوط بڑی خاموشی سے ان کے حوالے کر دیئے۔ حکیم صاحب نے وہ خطوط اسی لیے شائع نہیں کیے کہ وہ بعض قائدین کے لیے دلآزاری کا باعث بن سکتے تھے۔ اس بیش قیمت ذخیرے کو وہ اب ایک کتابی شکل میں شائع کرنے والے تھے کہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا۔ وہ غالباً ایک ایک منٹ کا حساب رکھتے تھے۔ فجر کی نماز سے لے کر عام طور پر رات کے گیارہ بجے تک مسلسل کام کرتے۔ دن کے وقت آرام کرنے کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ہوائی جہاز میں ہوتے تو اپنے دورے اور ملاقاتوں کے تاثرات لکھتے رہتے۔ اہم شخصیات سے ملاقاتوں اور بین الاقوامی مذاکروں میں طے پانے والے بنیادی نکات خود ضبط تحریر میں لاتے اور ان کے فرض شناس اور قابل رفقائے کار انہیں کتابوں اور تحقیقی مقالات میں ڈھالتے رہتے۔ گھڑی کی سوئیوں کے مانند حرکت میں رہنے کے باوجود وہ کتابوں، جریدوں اور اخبارات کا مطالعہ بڑی باقاعدگی سے کرتے تھے۔ ان کی طرف سے خطوط کے جواب نہایت اہتمام سے دیئے جاتے اور وہ اپنے نام آئے ہوئے چھوٹے چھوٹے پرزے بھی محفوظ رکھتے تھے۔ وہ اپنے وقت کے بے حد منضبط اور نہایت اعلیٰ منتظم انسان تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کا انتخاب کامل احتیاط سے کیا تھا اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور عمدہ برتائو کا یہ عالم تھا کہ جو ایک بار ان سے وابستہ ہوا ، انہی کا ہو کے رہ گیا۔ وقت کی نظام کاری وہ کچھ اسی طرح کرتے کہ مریض بھی دیکھتے، دوستوں سے ملاقاتیں بھی کرتے، علمی اور تحقیقی مجالس کا دور بھی چلتا رہتا، بین الاقوامی کانفرنسوں میں پوری تیاری کے ساتھ شریک ہوتے اور قومی امور پر مشاورت کا عمل بھی مستحکم رہتا۔ ان کے مجلسی اور علمی تعلقات کا دائرہ نہایت وسیع ہونے کے باوجود ان کے ہر شناسا کو یہی گمان رہتا کہ حکیم صاحب اسی کے سب سے قریب ہیں۔ انہوں نے وقت اور انسان کی قدروقیمت کا صحیح احساس کیا اور یہی ان کی حیرت انگیز کامیابیوں کا قیمتی راز تھا۔ حفظان صحت کا شعور بیدار کرنے میں ان کے ماہنامے ’’ہمدرد صحت‘‘ نے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ اس میں جسمانی، ذہنی، روحانی اور نفسیاتی امراض کے اسباب، سدباب اور اچھی صحت کے اصولوں پر نہایت مستند اور معلومات افزا مضامین شائع ہوتے رہے۔ مغربی اور مشرقی ممالک کی تجربہ گاہوں میں انسانی صحت کے حوالے سے جو نئے نئے تجربات ہوتے، ہمدرد صحت کے قارئین ان سے آگاہ رہتے۔ اس طرح پاکستان میں ایک سائنسی نقطہ نظر پروان چڑھا اور فرسودہ تصورات اپنی معنویت کھو بیٹھے۔ حکیم صاحب نے اپنے لیے پیشہ حکمت کو کاروبار کی سطح سے بلند کر کے ایک مشن کا درجہ عطا کیا۔ کاروبار سے جو کچھ میسر آتا وہ قوم کا علمی، اخلاقی اور ذہنی معیار بلند کرنے پر صرف کر دیتے۔ ان کے ہاں طب اور علم و تحقیق کے چشمے ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے۔