براہوی بہت قدیم زبان ہے مگر اس زبان کا پہلا تعارف پہلی افغان جنگ کے موقع پر میجر لیچ نے 1838ء میں اپنے سلسلہ مضامین سے کیا جو ’’جنرل آف ایشیا ٹک سوسائٹی‘‘ میں شائع ہوئے، ان مضامین نے علمی حلقوں میں ہلچل پیدا کر دی ، ان مضامین سے متاثر ہو کر جرمن ، اطالوی اور فرانسیسی ماہرین لسانیات، براہوی اور بلوچی زبانوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ آخر 1880ء میں جرمنی کے ماہر لسانیات ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ نے براہوی کی گریمر اور فرہنگ کے تقابلی مطالعے کے بعد اسے شمالی ہند میں بولی جانے والی ایک منفرد قدیم دراوڑی زبان قرار دیا۔ عہد حاضر کے محققین نے بھی اس کی تائید کی ہے جن میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایمینو اور میک گل یونیورسٹی (کینیڈا) کے ڈاکٹر عبدالرحمن بارکر بھی شامل ہیں۔ اس زبان کی تاریخ قدیم ہے مگر تحریری ادب کا نمونہ ’’تحفتہ العجائب‘‘ ہے جس کا مصنف ملک داد قلاتی میر نصیر خان اول (1750ء ، 1793) کے درمیان میں دربار قلات سے وابستہ رہ چکا تھا اس میں 1257اشعار ہیں۔ براہوی کا تحریری ادب مولانا محمد فاضل درخانی کی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ آپ کے قائم کردہ دینی مدرسے سے آپ کے شاگردوں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی جس نے اسلام کی خدمت کے ساتھ ساتھ براہوی کو بھی ایک تحریری زبان بنا دیا۔ ان میں بنو جان ، مولانا عبدالمجید، مولانا عبدالحئی اور علامہ محمد عمر دین پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولانا محمد عمر دین پوری کا سب سے بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کا براہوی میں ترجمہ کیا پھر ’’احوال‘‘ نکلنے لگا، براہوی اکیڈمی کے علاوہ اور کئی انجمنیں مثلاً براہوی ادبی سوسائٹی کوئٹہ ، براہوی آرٹس اکیڈمی کوئٹہ ، براہوی ادبی سنگت جیکب آباد، براہوی اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن سندھ یونیورسٹی جام شورو، آل پاکستان براہوی ایسوسی ایشن لاڑکانہ اس زبان کے فروغ کے لئے مصروف عمل تھیں۔قیام پاکستان کے بعد ماہنامہ’’معلم‘‘ سریاب کوئٹہ ، ہفت روزہ ’’نوائے وطن‘‘ کوئٹہ اور ’’نوائے بولان‘‘ مستونگ میں براہوی شاعروں اور ادیبوں کے تعارف کا سلسلہ شروع ہوا۔ 4 نومبر 1959ء کو کوئٹہ میں ’’براہوی ادبی بورڈ‘‘ کی تشکیل کی گئی جس کے پہلے صدر نواب غوث بخش رئیسانی قرار پائے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ براہوی قدیم زبان ہے اور براہوی بولنے والے میر آف قلات کا اس خطے میں راج رہامگر اس نے بھی اپنے دربار میں براہوی کی بجائے فارسی کا استعمال کیا،براہوی زبان سرکاری سرپرستی سے مسلسل محروم چلی آ رہی ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے کہ یہ ملک و قوم کا اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ براہوی کے مقابلے میں بلوچی زبان کو اہمیت اور سرپرستی حاصل رہی ہے ،بلوچی ماضی قریب میں فارسی کہلائی جاتی ،آج زبان ہے ، آج اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے مگر یہ بھی ہے کہ بلوچ تاریخ کے حوالے سے مستند تحقیق اور ریسرچ کی ضرورت ہے ، لفظ بلوچ فارسی کے بعلوث اور عربی کے بلوش سے اخذ ہوا ہے ۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بلوچستان کے علاقے میں باہر سے آنے والے ہر خانہ بدوش کو بلوچ کہا گیا چاہے اس کی ذات یا قومیت کوئی بھی تھی ، ایک واقعہ یہ ہوا کہ انگریز دور میں رابرٹ سنڈے مین نے اپنے مقاصد کیلئے ’’تورا ‘‘ کا مقامی قانون بنایا جسے بعد ازاں بلوچ قانون کا نام بھی دیا گیااس قانون کے تحت عورت کا وراثت میں حصہ ختم، کالی کا قتل جائز، عورت کی نیلامی وغیرہ شامل تھے۔ رابرٹ نے یہ قانون پاس کیا کہ کوئی بھی شخص درخواست دے کر بلوچ بن سکتا ہے جس کے بعد ہر اس شخص نے بلوچ بننے کی درخواست دی جس نے عورت کو وراثت سے محروم کیا، البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق صدر فاروق خان لغاری کے والد جمال خان لغاری پہلے تمندار تھے جنہوں نے 1921ء میں اس قانون کے خلاف بغاوت کی اور اسے شریعت کے منافی قرار دیا۔ سولہویں صدی عیسوی میں ایران سے بلوچوں کی آمد سے پہلے نہ تو یہاں کوئی بلوچ رہتا تھا اور نہ اس علاقے کا نام بلوچستان تھا، البتہ براہوی اس خطے کی قدیم قوم ہے، تاریخی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بلوچستان کے علاقے مختلف حکومتوں کے زیر تسلط رہے، (529-577) مسامسانی نوشیرواں عادل ، 636ء میں راجہ چچ سندھ ، 643ء عربوں کی حکومت قائم ہوئی ، آل غزنوی اور آل غوری کے بعد یہ علاقہ 1219ء میں سلطان محمد خان والی خوارزم کے زیر قبضہ آ گیا، پندرہویں صدی میں ارفون آیا جسے بابر نے شکست دیکر بھگایا، 1556ء عیسوی میں یہ علاقہ ایران کے زیر تسلط آیا، اس دوران ایرانی حکومت نے بلوچستان سے موجودہ بلوچ جو کہ اس وقت بعلوث یا بلوش کہلاتے تھے کو ناراضگی کی بناء پر اس علاقے میں دکھیلا، کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے میر جلال خاں اور بعد میں دوسرے بھیجے گئے، اس علاقے میں لفظ بعلوث او ربلوش سے بگڑ کر بلوچ ہو گیا، ان کی بنیادی زبان فارسی تھی جو کہ بعض مقامی الفاظ کی آمیزش سے اب بلوچی کہلاتی ہے، اس کے مقابلے میں اس خطے کی اصل زبان براہوی جو کہ بلوچی سے قطعی طور پر مختلف ہے اور اس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے، یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مؤرخین کے درمیان ایران سے آنے والے بلوچ کی اصلیت عربی یا فارسی کے مسئلے پر اختلاف موجود ہے ، البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ موجودہ بلوچستان میں یہ باہر سے آکر آباد ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان کے تشخص اور آزاد بلوچستان کیلئے وہاں کے حریت پسند عبدالصمد خان اچکزائی نے بہت کام کیا وہ بلوچ نہیں پشتون تھے ، 1932ء میں جیکب آباد میں ہونیو الی آل انڈیا بلوچ کانفرنس کی صدارت عبدالصمد خان اچکزئی نے کی اس کے علاوہ وہ ساری زندگی بلوچستان کے حقوق اور بلوچستان کی شناخت کے لئے کام کرتے رہے ،2 دسمبر1973ء کو عبدالصمد خان کو شہید کیا گیا تو ان کے بیٹے نے بلوچ حقوق کی بجائے پشتون موومنٹ کے حوالے سے کام شروع کر دیا، یہ صرف ایک نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں ایسی ہیں کہ بلوچ نہ ہوتے ہوئے سیاسی رہنمائوں نے بلوچ شناخت کے لئے کام کیا۔ 1930ء میں میر عبدالعزیز کرد نے ’’انجمن اتحاد بلوچاں‘‘ کے نام سے خفیہ تنظیم قائم کی جس کا مقصد انگریزوں کے خلاف بغاوت اور آزادی تھا، 1893ء تا 1930ء کے دوران انگریزوں نے بہت مظالم کئے جس کی بناء پر ریاست قلات اور دوسرے علاقے کے لوگوں کووقت اور حالات نے بلوچ اتحاد کے نام سے اکٹھا کر دیا، حالانکہ یہ لوگ بلوچ نہیں دوسری قومیتوں سے تعلق رکھتے تھے ، یہ وہ زمانہ تھا کہ ریاست قلات کے فرمانروا کو انگریزوں نے غیر اعلانیہ طور پر معزول کیا ہوا تھا، خان قلات میر محمود خان اپنے محل میں محبوس کر دئیے گئے تھے۔