ایک اشتہار کبھی کبھی اب بھی چلتا ہے۔ سیاست دانوں کے دوچار لڑائی جھگڑے کے بیانات دکھا کر ایک بچہ آتا ہے جو ہاتھ سامنے کر کے کہتا ہے۔ بس کرو اب بس۔ ان دنوں یہ کیفیت ہے کہ سچ مچ اپنی ساری متانت طاق میں رکھ کر اسی طرح یہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ بس کرو اب بس ۔فرض کرو آپ کسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں ۔مگر غور کیجیے آپ ان میں کسی کا بیان سن سکتے ہیں۔وفاقی حکومت کے ترجمانوں پر تو رونا آتا تھا۔ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جاتا ہے تو خیال آتا ہے کہ عقل آ گئی ہے۔ اگلے روز جو دوسرا آتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ دوچار دن لیتا ہے۔ پھر اس ڈگر پر رواں ہو جاتا ہے۔ ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔، پیپلز پارٹی نے سندھ سنبھالا ہوا تھا‘ کورونا آیا تو لگتا تھا کہ وہ درست حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ان کے ترجمانوں کے لہجے بتاتے تھے گویاوہ قوم کے دکھ درد میں گھلے جا رہے ہیں۔ بعض تو بہت جم کر بولتے تھے۔ جب میں کراچی سے آیا تھا تو ابھی سعید غنی کا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ اس لئے تحقیق کی کہ یہ آفتاب کہاں سے آیا ہے۔ مجتبیٰ وہاب کے بارے میں حسن ظن ہی نہیں رکھتا دل کے کسی گوشے میں ایک نرمی بھی ہے۔صرف اس لئے نہیں کہ وہ ہماری فوزیہ وہاب کے بیٹے ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کے والد وہاب صدیقی سے بھی واسطہ تھا۔ دونوں بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر جب پی این اے کی تحریک تھی اور پریس کلب فکر و دانش کی آماجگاہ تھا‘ دونوں کلب میں آ کر اس جماعتیے کے پاس ہی بیٹھتے تھے۔ اس طرح ناصر شاہ اور دو چار ایسے تھے جو لگتا تھا سلجھے ہوئے کلچر کو فروغ دیں گے۔ ادھر کراچی کی پی ٹی آئی جب فیصل ووڈا اور علی زیدی مارکہ لوگوں کے سپرد ہوئی تو پیپلز پارٹی والوں کے بدلے ہوئے تیور بھی اپنا جواز رکھتے تھے مگر کب تک۔ کورونا کی ابتدا میں ان کے لہجے میں قومی دکھ درد کا احساس ہوتا رہا۔ مگر اب لگتا ہے وہ بھی سب حدیں پھلانگ گئے ہیں۔ کئی بار ٹھیک باتیں وہ ایسے انداز میں کہتے ہیں کہ کان بند کرنے یا چینل بدلنے کو جی چاہتاہے۔ کسے سنیں۔ کس کے سامنے فریاد کریں۔ آخری سہارا عمران خاں تھے مگر لگتا ہے کہ وفاق کا ہر ہرترجمان انہی کی زبان بولتا ہے۔ وہ تو چھپڑ پھاڑ کر بولتے ہیں۔ وفاق میں تو بعض ایسے ہیں کہ پوچھنا پڑتا ہے۔ یہ کون ہیں؟اب تو سپریم کورٹ میں بھی پوچھا جا رہا ہے یہ شہزاد اکبر کون ہیں‘ ان کی تقرری کیسے ہوئی‘ اشتہار دیا گیا‘ پاکستان کے شہری ہیں یا کسی اور ملک کے یا دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ شہباز گل کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔کوئی بھی منتخب نمائندہ سامنے نہیں آتا۔ کورونا کے مسئلے پر ایک اسد عمر ہے جو اعتماد سے بولتے ہیں۔ وگرنہ کس کس کا رونا روئیں۔ ظفر مرزا کس کو جواب دہ ہیں۔ مسلم لیگ ن میں جو چپڑ چپڑ کرنے والے تھے۔ وہ تو آج کل الگ بیٹھا دیے گئے ہیں اور جو اصل میں اہم ہیں ان سے مناسب جواب نہیں آ رہے۔ میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہوں کہ اس سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی پاک صاف نہیں ہے۔ مثال کے طور پر میں جہانگیر ترین کو ایک صاف ستھرا صنعت کار سمجھتا تھا۔ مگر یہ جانتا تھا کہ جب کوئی کرید کرے گا تو ان میں وہ خرابیاں ضرور نکلیں گی جو کارپوریٹ سیکٹر میں ناگزیر ہیں۔ یہی رائے مری شریف خاندان کے بارے میں تھی اس لئے ان کی سب خرابیوں کو کارپوریٹ کلچر کے کھاتے میں ڈال کر میں چپ کر جاتا تھا۔ اگرچہ لوگ ایسے الزام بھی لگاتے تھے جو سرمایہ دارانہ نہیں سیاسی ہیں۔ میں چپ تھا۔ اب مجھے علم ہے کہ ان پر زرداری پر مقدمات ان کی کرپشن کی وجہ سے نہیں‘ سیاسی انجینئرنگ کی وجہ سے بنائے جا رہے ہیں۔ پھر بھی چاہتا ہوں وہ تڑاخ سے اس کا جواب دیں۔ جواب نہیں ملتا تو سوچنے لگتا ہوں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہ میں نے سیاسی گروپوں کو رگڑ ڈالا مگر مجھ میں اتنی قوت نہیں ہے کہ دوسری مقتدر قوتوں کے بارے میں لب کشائی کر وں۔ مرا آخری سہارا عدلیہ ہے۔ ہم ہر مشکل میں فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔ اب کورونا میں ہی انہی کی کمان اینڈ کنٹرول اتھارٹی ہی نے کام دکھایا(پہلے اس کا بھی نام تھا) یہ بھی کوئی بات ہے کہ ٹڈی دل کے بارے میں ذرا اطمینان اس وقت آیا جب فوج نے کہا کہ ہم حاضر ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ہر بار وہی کیوں اور ہر معاملے میں وہی کیوں۔میں جو مارشل لائوں کا ڈسا ہوا ہو‘ ہر مارشل لاء سے لڑا ہوں حتیٰ کہ بھٹو کے سویلین مارشل لاء سے بھی‘ سوچتا ہوں ایسا کیوں ہے کہ ہمیں عوام کے منتخب نمائندوں پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ آج میں بھٹکنے لگا تھا۔ عامر خاکوانی نے پاپولزم اور پوسٹ ٹروتھ کی بات کی ہے۔ دونوں مرے مرغوب موضوعات ہیں۔ایک لمبے عرصے سے ان پر لکھتا آیا ہوں۔پاپولزم کا میں عوامیت ترجمہ کرتا ہوں۔ آج کل تو یہ دنیا بھر میں عذاب کی طرح مسلط ہے۔ عمران کو میں یہ نام بھی نہیں دے سکتا‘ اس میں درمیان میں ایمپائر کی انگلی آ جاتی ہے۔ یہی مرا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ویسے ایمپائر بھی ناگزیر ہے مگر اس کی انگلی بھی اچھی نہیں لگتی شاید اس لئے کہ تھرڈ ایمپائر نہیں ہے نہ یہاں ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا ۔ہماری ذہنی بلوغت کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں اور وزیر اعظم تک کے ارشادات میں اقبال کے اشعار غلط دیے جا رہے ہیں جیسے احمد فراز کے انتقال پر رطب و یابس کو ان کے نام لگا دیا جاتا تھا۔ اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے۔ اس وقت کوئی ادارہ بھی اپنا حق ادا نہیں کر پا رہا اور کوئی بھی بات کرتا اچھا نہیں لگتا چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ بول رہا ہو۔ اس لئے تو میں نے عرض کیا تھا بس کرو‘ اب بس۔ میں بھی اپنا پروگرام کر کے آتا ہوں تو ارطغرل دیکھنے لگ جاتا ہوں۔ کہیں کہیں پی ٹی وی پر نظر پڑتی ہے تو دل کہتا ہے‘وہی دن اچھے تھے۔