گرامی قدر مفتی منیب الرحمن نے ان دنوں ایک بہت عمدہ تحریر لکھی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی ان امور پر اظہار رائے کرنے کی جرأت کر چکے ہیں۔ اس تحریر میں انہوں نے حوالہ تو اگرچہ موجودہ صورت حال کا دیا ہے‘ تاہم ایک بنیادی نکتے کی وضاحت کی ہے۔ ایک طرح سے انہوں نے منع کیا ہے کہ علم دین کو سمجھے بغیر ایسی باتیں نہ کریں جس پر بعد میں خفت اٹھانا پڑے۔ آغاز انہوں نے اس بات سے کیا ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ 12مئی کو ستارہ ثریا طلوع ہونے والا ہے‘ اس لئے اس دن حدیثوں کی رو سے کورونا وبا ختم ہو جائے گی۔ یہاں سے انہوں نے وہ بحث شروع کی ہے جو بہت ضروری اور بنیادی ہے۔ ایک تو خیر انہوں نے ان حدیثوں کا تجزیہ کر کے بتایا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یہ زمین حجاز کے بارے میں ہیں ‘جہاں کھجور کے درختوں پر پھل آنے سے پہلے اس کے سودے کرنے سے منع کیا گیا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس وقت سودا کرو جب پھلوں کے ضائع ہونے کا خدشہ نہ رہے اور وہاں کے موسم کے لحاظ سے اس کا تعین کیا تھا کہ فلاں وقت کے بعد (ثریا کے طلوع کے وقت اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب اس درخت کے پھل کی کیا قیمت ہے۔ بحث خاصی طویل ہے‘ مگر اس تمہید کو یہیں ختم کر کے آگے بڑھتا ہوں۔ ہمارے ہاں بعض لوگ حدیثوں کے حوالے سے آنے والے دنوں کی تاریخ لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر خراسان سے کالی پگڑیوں اور جھنڈوں والے آئیں گے۔ اس طرح جب شام کے حالات خراب تھے تو یہ بتایا جاتا تھا کہ حلب کا معرکہ آخری معرکہ ہو گا۔ ابوبکر بغدادی کو تو گویا خلیفہ سمجھ لیا گیا تھا۔ان روایات کے مستند‘ضعیف‘معتبر یا غیر معتبر ہونے کی بحث کو رہنے دیجیے‘ اس پر مفتی صاحب نے بہت خوبصورت بات کی ہے کہ ایسی روایات بیان کی جائیں تو ان کے مصداق کا تعین نہ کیا جائے۔ یعنی یہ نہ کہا جائے کہ یہ فلاں واقعے کے بارے میں ہے جو ہونے والا ہے یہ درست بات ہے ۔تاریخ میں جانے کتنی بار اس طرح کی روایات کا سہارا لیاگیا ہے۔ عباسیوں کے پرچم بھی سیاہ تھے میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کرتا کہ یہ حدیث اس زمانے کے حالات کا نتیجہ ہے۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ جانے کتنی بار مسلمانوں نے اپنے آپ کو اسی طرح مطمئن کیا یا دھوکا دیا۔ امویوں ‘ عباسیوں اور بعض دوسرے اندرونی جھگڑوں میں اس طرح کے بیانات استعمال ہوتے رہے ہیں۔ محمد بن الحنفیہ کو مہدی کہا گیا۔ عمر بن عبدالعزیز اور ایک آدھ عباسی خلیفہ کو یہ نام دیا گیا۔ ہمارے ہاں اسلامی دانشوروں میں رواج ہو گیا ہے کہ آنے والے دنوں کا پورا نقشہ ایسی روایات سے مرتب کرتے ہیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی ایسی روایات ہیں۔ اس لئے بعض اہل علم نے اسے اسرائیلیات قرار دیا اور بعض اسے مجوسی تصور سمجھتے ہیں۔ میں اس تصور پر تو گفتگو نہیں کرتا مگر اتنا عرض کرتا ہوں کہ امام آخرالزماں کے بارے میں اہل تشیع کے ہاں تو ایک واضح خیال ہے تاہم سنیوںمیں یہ بالکل مختلف پیرائے میں بیان ہوتا ہے۔سنیوں کے امام مہدی اور ہیں اس تناظر میں ہمارے ہاں بڑے مقبول ٹی وی پروگرام بھی چلتے رہے ہیں۔ اسی زمانے میں مفتی ولی رازی نے چند کالم لکھے جس میں تقریباً اسی پیرائے پر بات کی بھی۔میں نے اس پر بڑے احترام کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ولی رازی صاحب ایک بڑے دینی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔مفتی شفیع صاحب کے فرزند اور مولانا تقی عثمانی کے بھائی ہیں۔اگلے کالم میں انہوں نے شفقت فرمائی اور بتایا کہ جمعہ کی نماز کے بعد کسی نے انہیں کہا کہ سجاد میر نے کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ انہوں نے ان صاحب سے کہا کہ میں نے ابھی تک پڑھا نہیں۔تاہم سجاد نے کچھ کہا ہو گا تو ضرور کوئی بات ہو گی۔ سچ پوچھیے کہ مرے پاس تو اب بھی کوئی دلیل نہیں۔ البتہ تاریخ میں بعض اہم شخصیات نے امام مہدی کے تصور پر جو حدیثیں ہیں ان پر سوال اٹھائے ہیں۔ سب سے پہلے اور اہم یہ کام ابن خلدون نے کیا۔ ہمارے عہد میں علامہ اقبال اور سید مودودی بھی اس تصور کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بقول مفتی منیب جمہورمیں یہ ایک مقبول تصور ہے۔ان حدیثوں اور روایات پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے اور ایسی سنجیدہ بحث اخبار کے صفحات یا ٹی وی کی سکرین پر نہیں ہو سکتی۔ایک مہدی جونپوری تھے جنہوں نے ایک کمال کی مذہبی تحریک چلائی۔ ان کی پاکبازی اور دینداری کی تعریف بھی بعض سنجیدہ اہل علم نے کی ہے اور یہ لکھا ہے ان میں کوئی خرابی نہ تھی‘ سوائے اس کے کہ‘ انہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ مہدی سوڈانی کی تفصیلات میں نہیں جانتا۔ مگر گاہے گاہے اکثر جگہ پڑھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعویٰ کئی بار لوگوں نے کیا۔ علاقائی طور پر ہی سہی۔ مفتی منیب صاحب کسی دوسری بحث میں الجھے بغیر صرف اتنا کہتے ہیں کہ ان روایات کو بیان کرنا ہو تو اس کا مصداق متعین نہ کرو۔ ہمارے سرفراز شاہ صاحب نے غالباً2010 میں ایک پیش گوئی کی تھی کہ سال کے اختتام تک یہ تبدیلی متوقع ہے۔ خون پینے کا ذکر تھا‘ پھر نوجوان قیادت کے آنے کا تذکرہ تھا۔ یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو انہوں نے علی الاعلان یہ اعتراف کیا تو وقت کا تعین کرنا ان کی غلطی تھی۔ اللہ کے ہاں وقت کا کیا مفہوم ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ادبی جریدے میں سی آر نعیم کا ایک مضمون چھپا تھا۔ نعیم صاحب لکھنو کے ایک ادبی سکالر تھے اور ان دنوں غالباً شکاگو یونیورسٹی میں تھے۔ میں چونکہ ان سے ذاتی طور پر واقف تھا۔ اس لئے مجھے علم ہے کہ وہ ایک سچے اور سنجیدہ آدمی ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں دو ایک بار ایسے ہی مکاشفات کا ذکر کیا جن کا تجزیہ جید لوگوں نے کیا اور یہ مطالعہ کیا کہ ایک خاص وقت پر اہل اللہ پر یہ واردات کیوں اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بہرحال صرف حرف آخریہی ہے جو شاہ صاحب نے کہا کہ خدا کے ہاں وقت کا کیا تعین ہے۔ اس کے اظہار سے آپ اجتناب ہی کریں تو بہتر ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ خم ٹھونک کا بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی احوال طب نبوی کے تحت بیان کردہ جڑی بوٹیوں کا ہے‘ جسے بعض لوگ بڑے کروفر سے بیان کر رہے ہیں اور بعض تجربات اس کی محدودات کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس پر ایک دینی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو خبر ہے کہ فلاں بوٹی کا تذکرہ حضورؐ نے کس تناظر میں کیا ہو گا۔ خواہمخواہ اپنی طرف سے معالج بننے کی کوشش نہیں کریں کسی ماہر علوم طب کو اس کا جائزہ لینے دیں۔اچھی بات ہے کہ ہم حضورؐ کے ہر قول پر دل و جان سے فدا ہوں‘ مگر معلوم تو کر لیں کہ علم دین کی رو سے اس کا مطلب کیا ہے۔مرے خیال میں مفتی صاحب نے اس طرف اشارہ کر کے دین کی بڑی خدمت کی ہے۔