اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت وتعصب کے تسلسل سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی بڑی سازش کا حصہ ہیں۔ اگر عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہی کہ ہر روز کہیں نہ کہیں مسلم کمیونٹی کے ساتھ نا انصافی یا ناروا سلوک اپنایا جاتا ہے۔ جان و مال کے اتلاف و ضیاع اور عزت و آبرو کی پامالی کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کے مذہب کو نشانہ بناکر مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ ان کی بے چینی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ ان کے جذبات واحساسات کو بری طرح مجروح کیا جاتا ہے۔ اس کے پس پردہ وہ طاقتیں اور حکومتیں ہیں جو اپنے متشدد ہمنواؤں سے منصوبہ بند طریقے سے یہ دل آ زار اور مکروہ واقعات انجام دلواتی ہیں۔ یہاں فطری طور پر سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ جہاں بھی اشتعال انگیزی اور مذہبی احساسات کو بھڑکانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس کو روکنے کے لیے وہ عالمی لیڈران کیا کرتے ہیں جو حق وانصاف کی باتیں کرتے ہیں۔ دنیا کو عدل و مساوات کا درس دیتے ہیں۔ آج عالمی امن اور حقوق انسانی کے حوالے سے بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کل تک جن ممالک اور خطوں کو بہتر بتایا جاتا تھا آ ج وہاں بھی یکسر حالات بدل چکے۔ انسانی عظمت و حقوق کو روندا جارہا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور ناداروں پر غیر انسانی حرکتیں کی جارہی ہیں۔ ہر طرح کا تشدد اور ستم و جبر سے دوچار ہیں۔ مگر افسوس یہ ہیکہ تحفظ نفس اور انسانی حقوق کے نام پر تشکیل دئیے جانے والے اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ امت مسلمہ کو یاد رکھنا ہوگا کہ جب بھی اسلام یا رسول خدا کی شان میں کسی ملک اور خطہ کا سر پھرا گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ تو جہاں اس کو مسلمانوں کو انگیختہ کرنا ہوتا ہے وہیں اسے اقتدار پر مسلط اپنے آقاؤں کی خوشنودی بھی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ آ ج کا دور سوشل میڈیا کا ہے اس وقت چیزوں اور افکار و نظریات کو ادھر سے ادھر کرنا نہایت سہل ہے۔ المیہ یہ بھی ہیکہ اگر کوئی معاند و حاسد یا متعصب جب قابل اعتراض اشتھار کی اشاعت ترویج کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لے تا ہے، تو اس کی اشاعت کا ذریعہ ہم خود ہی بنتے ہیں۔ اس کو اتنا وائرل کیا جاتا ہے کہ لمحوں میں پوری دنیا میں پھیلا دیا جاتا ہے۔ در اصل یہی وہ چاہتے ہیں۔ کہ ہماری مذموم حرکتوں سے عالمی انسانیت خصوصا مسلمان واقف ہوں۔ تاکہ مسلم کمیونٹی جذبات کی رو بہ کر اپنے ہوش کھو بیٹھے۔اس کے بعد دنیا کے مسلمانوں کے اندر غم وغصہ کی لہر دوڑ جاتی اور اپنے مذہب کی حفاظت وصیانت کے لیے۔ احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ یقیناً مذہب کے خلاف رونما ہونے والی منصوبہ بندی اور توہین آ میز کلمات کا دفاع فطری بات ہے۔ لیکن اکثر ہم غم و غصہ کے اظہار کے لیے جذباتی ہوجاتے ہیں جس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی تو فرقہ پرست طاقتیں اور مخالفین و معاندین چاہتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی کی دکھتی رگ کو چھیڑا جائے اور پھر ان کے جذبات کو ہوا دے کر انہیں جذباتی بنا یا جائے۔ تاکہ ان پر الزامات واتہام کی یورش کی جاسکے خود انہیں ہی مجرم قرار دیا جائے۔ نتیجتا نہ ہی انصاف مل پاتا ہے اور نہ ہی ان معاندین پر کوئی اثر ہوتا ہے۔ نہ ان کے رویہ میں قطعی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے جب بھی کہیں کوئی مذموم یا قابل اعتراض واقعہ رونما ہو تو ہمیں سنجیدگی اور متانت سے دفاع کرنا چاہیے۔ شائستگی برقرار رہے۔ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم استعمال ہوجاتے ہیں۔ جذبات کی رو میں بہہ نے سے بچنا ہے ۔ کیونکہ جذباتیت ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے۔ مسائل مشتعل ہوکر حل نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ غور وفکر کرنے سے کسی بھی مسئلہ کا حل نکل آ تا ہے۔ اپنے اندر اس طرح کی صفات کو پیدا کرنے کے لیے ہمیں قرآن کریم اور احادیث رسول کا بھی مطالعہ کرنا ہوگا۔ صرف مطالعہ نہیں بلکہ اس کے رموز واشارات اور مفہوم و تشریح کو بھی سمجھنا ہوگا۔ سیرت رسول ﷺاور سیرت صحابہؓ سے بھی سبق حاصل کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہمارے سامنے رسالت مآب ؐ کی زندگی کے دو اہم ترین حصے ہیں جنہیں ہم مکی اور مدنی دور سے جانتے ہیں۔ مکی زندگی کے احوال دوسرے تھے اور مدنی زندگی کے حالات اس سے بالکل مختلف۔ جو اسلام سے نفرت کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ ہمیں اسلام سے محبت دائمی ہے وقتی یا جزوی نہیں۔ دائمی محبت کا مطلب بھی یہی کہ جذباتی نہ ہوکر کے مستقل مزاجی اور پائداری کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے، تاکہ دنیا میں جتنے بھی مکروہ عزائم کواسلام کے خلاف پال پوش رہے ہیں، ان کا مضبوطی سے دفاع کیا جاسکے۔ بر عکس اس کے اگر ہم جذبات کی رو میں بہ کر اسلام سے محبت کا اظہار کرتے ہیں تو یہ لازمی طور پر جزوی یا وقتی محبت کی واضح علامت ہے۔ ضمنا یہ بھی عرض کردوں کہ ہماری جو پاکیزہ اور صالح صفات تھیں انہیں کہیں نہ کہیں ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ جب تک ہم زیور علم سے آ راستہ رہے ، مفاد عامہ ہمارا مشغلہ رہا ، امانت و دیانت کو ہم نے لازمی بنایا، راستبازی، انصاف و مساوات پر عمل پیرا رہے اس وقت تک ہم نے اپنی عظمت و تقدس کے فانوس بھی روشن کئے۔ اور کبھی بھی ایرا غیرا نتھو خیرا کی بات پر مشتعل بھی نہیں ہوئے۔ جب سے ہم نے ان صفات کو درکنار کیا ہے۔ جو چاہتا ہے جیسے چاہتا اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرلیتا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہمیں توازن و اعتدال قائم رکھنے کے لیے گوہر علم اور دیگر تمام روشن صفات سے مزین ہونا ہوگا۔ آ ج مغربی دنیا میں اسلام کے غلاف جو زہر افشانی یا نفرت پائی جاتی ہے اس کی واحد وجہ یہ ہیکہ وہاں تیزی سے اسلام پھیل رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں اسلام کی دولت سے سرفراز وہ لوگ ہوتے ہیں جوعلم وفن اور جدید علوم معارف سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ گویا اہل علم طبقہ اسلام کو اپنا رہا ہے۔ مخالفین اسلام نے وہ کونسا ہتھیار ہے جو اسلام کے شفاف رخ کو داغدار کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ فلم "فتنہ "سے لیکر ملعون سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے غلیظ لوگوں کو اپنے ہدف کی تکمیل کے لیے آ لہ بنایا۔۔مگر جب بھی کوئی اسلام مخالف واقعہ رونما ہوا ہے۔ تو اسلام کو زیادہ پڑھا گیا اور کئی افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔