تماشہ ختم ہوا۔۔ابھی تو لوگ شوق سے دیکھنے جمع ہو ہی رہے تھے کہ خیمے کی طنابیں ٹوٹیں اور ایسی ٹوٹیں کہ ہر کوئی سٹیج سے اچھل کر ایک سمت ہو لیا۔ لوگ تو مشتاقِ دید تھے، تماشے میں گم تھے، ابھی ان کے سامنے منظر پوری طرح واضح ہی نہیں ہوا تھا، کہ سٹیج سے کودنے والے دونوں گروہ گرے ہوئے خیمے کے ساتھ کھڑے ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے کہ طنابیں اس نے کاٹی ہیں۔ مگردیکھنے والوں کے لیئے یہ نظارہ بھی دلچسپ تھا، ایک دم ڈرامائی۔ شروع شروع میں تو انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ جو مدتوں ایک دوسرے کے خیموں کی طنابیں کاٹتے پھرتے تھے، ایک دوسرے کے چہرے پر بدنامی کی سیاہی پھینکا کرتے تھے، ایک دوسرے کی تماشہ گاہ اجاڑا کرتے تھے، یہ ایک دم ایک خیمے تلے جمع کیسے ہو گئے۔وہ جو نگاہ ٔ دورس رکھتے تھے انہیں خوب اندازہ تھا کہ زلزلے کے ایک دو جھٹکوں کی بات ہے یہ سٹیج نہ بھی گرا تو یہ اسے خود گرا دیں گے۔ کون ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی کدورتوں، برسوںسے پلتی ہوئی نفرتوںاور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خواہشوں کے الاؤ میں بظاہر اپنے آپ کو پرسکون رکھ سکے۔ کھوکھلی مسکراہٹیں تو کیمروں کی حد تک تھیں۔ وہی ہوا۔۔۔تماشہ ختم ہوگیا۔ پی ڈی ایم کے خیمے کا بوجھ اسقدر بھاری تھا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے کندھے چند مہینوں میں ہی شل ہو چکے تھے۔ جیسے ہی خیمہ ٹوٹا، دونوں کندھے جھاڑتے ایک دوسرے کے مقابل آکر کھڑے ہو گئے۔اسّی کی دہائی کی ارواح ، شاید عالمِ بالا سے اسی منظر کے انتظار میں تھیں۔ دیکھنے والے عوام ایسے بکھرے، جیسے کسی سینما کا شو ختم ہوتا ہے تو دروازوں پر سینما بینوں کا ہجوم ٹوٹ پڑتا ہے یا پھر یادش بخیر سانپ نیولے کی لڑائی یا پھر بندراور ریچھ کا تماشہ دکھانے والے جب آخری ڈگڈگی بجاتے ہوئے چٹائی پر گرے ہوئے لوگوں کے دیئے ہوئے سکے سمیٹنے لگتے تو، لوگ ایک ایک کر کے بکھر جاتے ۔ پاکستان میں ایسا ’’اجتماعی تماشہ‘‘ بار بار ہوا، ہر بار بکھرا اور پھر ہر کسی نے اپنا اپنا الگ تھیٹر سجا لیا۔ دنیاکے تمام جمہوری ممالک کے تو مزاج میں ایسے تماشے رچے بسے ہوئے ہیں۔ یہ رنگا رنگی جمہوری سیاسی کلچر کی پہچان ہے۔ ہم جیسے غریب ممالک کے سیاست دان ایسے میلے ٹھیلے بے سروسامانی کی حالت میںسجاتے ہیں، جبکہ مغربی دنیا کی جمہوریتوں میں تو یہ سب ایک آرٹ ہے، مارکیٹنگ کا ایک ہنر ہے۔ لیڈر کو عوام میں بیچنا ایک مہارت ہے۔ کسقدر مشکل کام ہے۔ عوام کے ہر طرح کے گروہ کی دلچسپی کے لیئے پارٹی لیڈر کے اندر سے مطلوبہ خصوصیات ڈھونڈھی جائیں اور پھر ان کی تشہیر کی جائے۔سیاسی لیڈر کی ظاہری شکل و صورت کو جاذب نظر بنا کر پیش کیا جائے تاکہ وہ دلوںپر جادو کا اثر ڈالے۔ یہ سب جمہوری سیاست کی رنگینیاں ہیں۔ امریکہ کے صدور کی تاریخ میں خوبصورتی اور شخصی مقناطیسیت کے اعتبار سے جان ایف کینیڈی سب سے مقبول صدر سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت اسے کسی دل موہ لینے والے فلمی ہیروسے کم نہیں سمجھتی تھی۔ 1960ء کے الیکشن میں اس کے مقابلے پر امریکہ کی ریپلکن پارٹی کا امیدوار رچرڈ نکسن تھا۔ وہ الیکشن سے پہلے چار سال امریکہ کا نائب صدر بھی رہ چکا تھا۔نکسن امریکی تاریخ کا ذہین ترین اور سیاسی سمجھ بوجھ میں بدرجہ کمال شخص سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کی بدقسمتی کہ اس کا جمہوری الیکشنوں کے تھیٹر میں مقابلہ ایک دل موہ دینے والے خوبرو’’ہیرو نما‘‘ شخص سے ہو گیا۔ رچرڈ نکسن اپنی سوانح حیات میں لکھتا ہے کہ الیکشنوں میں جب وہ جلسوں میں جاتا یا ٹیلی ویژن مذاکروں میں شریک ہوتا تو چہرے پر لاتعداد کریمیں اور لوشن رات بھر ملتا رہتا، جھریاں مٹانے کے لیئے ورزشیں کرتا، لیکن اس سب کے باوجود میں کینیڈی کے سامنے بیٹھتا تو ایک فطری احساسِ کمتری مجھے گھیر لیتا۔ اپنے علم و تجربے اور مہارت کے باوجود رچرڈ نکسن، جان ایف کینیڈی کی بظاہر جاذبِ نظر خوبصورتی سے ہار گیا۔اس لیئے کہ ووٹ دینے والوں کی اجتماعی ذہنی سطح اس سے زیادہ بلند نہیں ہوتی ۔ جمہوری سیاست میں ایسا مسلسل تماشہ سیاسی مارکیٹنگ کا ایک حصہ ہے۔ یہ کھیل الیکشنوں کے زمانے میں اپنے عروج پر ہوتا ہے اور دنیا جہان کے ماہرین اس میں رنگا رنگی پیدا کرنے اور دلوں کو جیتنے کا سامان مہیا کرنے لیئے اکٹھا ہوتے ہیں۔ الیکشن شاید حکومت اور عوام کا پہلا اور آخری رابطہ ہوتا ہے۔ عوام کو یہ یقین دلایا جا رہا ہوتا ہے کہ یہ تو تم ہی ہو کہ جن کے صرف ایک ووٹ سے قوم کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ یقین کرو، تم ہی اپنی تقدیر کے خود مالک ہو۔ اصل حاکمیت تو عوام کی ہے۔ لوگوں میں ایسا عالمِ سرخوشی پیدا کرنے کے لیئے ایک شاندار میڈیا مہم چلائی جاتی ہے۔ جب لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ آئندہ پانچ سالوں کے لیئے انہی کے ووٹ کی بادشاہت قائم ہونے والی ہے تو اس کے بعد ’’فریبِ نظر‘‘ کا سب سے اہم تماشہ شروع ہوتا ہے، جسے الیکشن کمپئن کہتے ہیں۔ عوام کی نظروں کے سامنے ایسے رہنماؤں کو پیش کیا جاتا ہے جو جاذبِ نظر ہوں، دلوں کی دھڑکن ہوں۔ گذشتہ ایک سو سال کی فلم انڈسٹری کی روایت ، میڈیا کے پراپیگنڈہ اور ایڈورٹائزنگ کی دنیا نے ایک خوبصورت ہیرونما مرد کا چہرہ ایک ’’کلین شیو‘‘ مرد کے طور پر ذہنوں پر ثبت کر دیا ہے۔ کوئی ہیرو داڑھی والا نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ کارٹون کا ہیرو ٹارزن بھی مسلسل جنگل میں رہتا ہے لیکن اسے جنگل کے ’’پارلر‘‘ سے صبح شیو کروا کر کارٹون میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1920ء کے میڈیائی دور کے بعدسے اب تک جمہوری سٹیج پر جتنے بھی لیڈر ابھرے ان کی واضح اکثریت کلین شیو تھی۔ اسی طرح ملبوسات، طرزِ گفتگو و تقریر ، یہاں تک کہ نشست و برخاست سب کی سب ایک خاص اندازِ دلربائی کی صورت لیڈروں کو سکھائی جاتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ میرے دوست نے جو فیشن انڈسٹری پر دسترس رکھتا تھا، مجھے مشورہ دیا تھا کہ چونکہ تمہارے بازو خاصے کمزور ہیں، اس لیئے کبھی تقریر کرتے ہوئے، اپنی آستینوں کے بٹن بند نہ کرنا بلکہ انہیں ایک خاص سٹائل میں کھلے رکھ کر تقریر کرنا، لوگ اس انداز پر فریفتہ ہو جائیں گے۔ذاتی زندگی میںکسی مشرقی خاتون لیڈر کو دوپٹے سے کتنی بھی الجھن محسوس ہوتی ہو، لیکن دخترِ مشرق کا روپ دھارنے کے لیئے بے نظیر کو ایک انداز سے دوپٹے کو لینا، سنبھالنا اور اس کی سج دھج کو قائم رکھنا ضروری بنادیا جاتا ہے۔ مدتوں بعد مریم نواز کی عوامی اجتماعات میں آمد کا اگر کوئی سوشل مارکیٹنگ کی سائنس کے حوالے سے رنگوں کے انتخاب، دوپٹے کا ایک تصویری فریم یا شخصیت کے گرد ہالے کے طور پر استعمال، جوتوں کی زیبائش، جس ہاتھ کو اٹھا کر تقریر کرنا ہے اس میں انگوٹھیوں کی ترتیب،ان سب کا مطالعہ کرے تو وہ ایک طویل کتاب لکھ سکتا ہے،جو سیاسی شخصیات کی عوامی اجتماعات میں مرکز نگاہ رہنے کی تراکیب پر مشتمل ایک گائیڈ کا کام کرے۔ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک تمام جمہوری ممالک میں سیاسی دنیا کی رنگا رنگی ملاحظہ کریں تو آپ کو یہ سب ایک عالمی مقابلہ حسن نظر آئے گا۔ جس طرح مس ورلڈ یا مس یونیورس کے مقابلوں میں ظاہری خوبصورتی کے پیمانوں سے گذرنے کے بعد خواتین سے ہجوم کے روبرو سوال بھی پوچھے جاتے ہیںتاکہ ان کے حسنِ بیان سے لوگوں کو مبہوت کیا جائے۔ مس ورلڈ کے حسنِ بیان کے لیئے کسی سقراط یا سارتر کے دماغ کی توقع نہیں کی جاتی، بلکہ ایک عام سا دل موہ لینے والا فقرہ جس پر ہجوم سے بے ساختہ ڈھیر ساری تالیاں بج اٹھیں۔ جمہوری سیاست کے لیڈران بھی ایسے ہی کسی مقابلہ حسن میں حریفوں کی طرح خوبصورت دکھائی دیتے ہیں جنہیں ویسے ہی چند فقرے ازبر کروائے جاتے ہیں جن پر ہجوم گرم جوش تالیاں بجا سکے۔ ایک تماشہ لگتا ہے۔ لوگ اپنے لیڈر کے حسن اور اندازِ گفتگو میں کھوئے ہوتے ہیں، کوئی جان ایف کینیڈی یا بل کلنٹن کے حسن میں گم ہوتا ہے تو کوئی یوکرین کی دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی یولیاتائی موشنیکو، اٹلی کی ماریہ کارفگانہ، یونان کی ایواکیلی، پولینڈ کی جوآنا موچا، کینڈا کی روبی دھلا جیسی خواتین کے خوبصورت سحر میں گرفتار۔ اس سحر انگیز فضا میں کون ہے جو عقل و ہوش سے ووٹ پر مہر لگاتا ہوگا۔داغ دہلوی یاد آگئے رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے یہ ہے جمہوری سیاست کا فریبِ نظر۔۔اجتماعی ہپناٹزم۔