تہذیب و تمدن اور سیاست و معاشرت کے اعتبار سے تمام تر ترقی اور اس کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود، یہ تلخ حقائق اپنی جگہ برحق ہیں ،آج بھی دنیا کے اکثر خطے اور معروف و معتبر ممالک سیاسی اور عمرانی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں، جس کا بدترین مظاہرہ حالیہ امریکی انتخابات کے نتیجے میں دنیا نے دیکھا۔جدید سیاسی مفکرین و مدبرین نے تو بہت پہلے ھی کہہ دیا تھا کہ دنیا میں کسی بھی جگہ اصلی اور حقیقی جمہوری اقدار اس کی صحیح روح کے ساتھ موجود نہیں۔ اس کا ایک سبب شاید یہ بھی ہو کہ کہیں جمہوریت کی تعریف کے تعین میں الجھنیں ہیں، تو کہیں اس کے حقیقی تصور کو اپنانے میں مشکلات۔کہیں ریاستی نظام نے اس کی حقیقی روح کو جکڑ رکھا ہے تو کہیں سرمایہ دار اور اقتصادی و معاشی قوتوں نے۔۔۔کہیں نظریہ جمہوریت خود اپنے نقائص کے بھنور میں الجھا ہے ،تو کہیں انتخابات کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کی کھینچا تانی اور اقتدار کی ہوس کے سبب…جمہوریت کی کشتی گرداب میں آن پڑی ہے،لہٰذا حقیقی جمہوریت کا خواب اور اس کی اقدار … جدید طرز ہائے حاکمیت اپنانے کے باوجود شرمندہ تعبیر نہیں ہو پارہا۔جس کی سردست سب سے بڑی مثال امریکہ کی حالیہ صورتحال ہے جس میں اگرچہ ایک مشکل مگر طویل تر انتخابی معرکے کے نتیجے میں ،جو بائیڈن 46 ویں امریکی صدر کے طور پر امریکی منصب صدارت پر تو فائز ہو گئے ،لیکن اس سے قبل کے دہشت آمیز مناظر کو نہ صرف امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کبھی بھی فراموش نہیں کر سکے گی ،کہ جمہوریت اور امریکہ کی پارلیمان یعنی کانگرس کی عمارت کو حملے سے بچانے کے لیے پورے علاقے کو فوج کے نرغے میں دے دیا گیا‘ یوں محسوس ہورہاتھا کہ یہ امریکہ نہیں بلکہ تیسری دنیا کا کوئی مفلوک الحال ملک ہے‘جہاں الیکشن میں ناکام طبقہ اور جماعت انتخاب کے بعد دھاندلی کا واویلا مچائے کہ میرا الیکشن خراب کر دیا گیا،کے ساتھ نعرہ زن ہے۔انتقال اقتدار دنیا کے ہر خطے میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ قدرے اہم اور حساس مسئلہ رہا ہے۔تاہم امریکہ جو خود کو اس نظام اور مغربی تہذیب کا امام تصور کرتا ہے،کے ہاں وقوع پذیر ہونے والا یہ غیر متوقع حادثہ امریکی روایات کے برعکس تھا،جس کا یقینی سبب وائٹ ہائوس کے مکین ڈونلڈ ٹرمپ تھے،جس نے اپنے پورے دور اقتدار کی روایات کو تسلسل اور دوام بخشا اور جاتے جاتے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کر کے امریکہ میں نئی تاریخ رقم کردی اور یوں اپنی متنازعہ شخصیت اور حیثیت جس میں نخوت‘غرور‘تکبر‘رعونت‘ نسلی تعصب جیسے عوامل بدرجہ اتم موجود تھے کو مزید مستحکم کردیا۔خیر 78 سالہ نومنتخب جوبائیڈن گزشتہ ہفتہ امریکہ کے صدر کے طور پر اپنے منصب پر متمکن ہو گئے۔ انہوں نے اپنی آمد کو انسانیت کے لیے خوش کن بنانے کا عندیہ اس طرح دیا کہ پہلے ہی خطاب کے موقع پر کورونا وائرس کی وبا کے ہاتھوں موت کا شکار ہونے والے امریکیوں کے لیے خاموشی اختیار کی،جس سے انسانی جانوں کی قدر اور انسانی اقدار کی حرمت کا پیغام عام ہوا،جس کی اس موقع پر یقینی ضرورت تھی،لیکن اگر اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے امن‘احساس‘محبت اور انسانی روایات کی پاسداری کے اس داعیے اور جذبے کو پوری دنیا کے انسانوں تک پھیلا دیا جاتا،تو یہ پیغام زیادہ بلیغ اور موثر ہوتا،جس کا اظہار نئے امریکی صدر اپنی ابتدائی اور افتتاحی تقریر میں کرنا چاہ رہے تھے۔امریکہ کی ڈیڑھ سو برس کی گزشتہ تاریخ میں سابق صدر ٹرمپ بطور صدر پہلے فرد ہیں جو نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا اعزاز نہ پا سکے۔مستزاد یہ کہ انہوں نے یو ٹیوب پر جو پیغام دیا،وہ بھی غصے‘تعصب اور نفرت میں پوری طرح گوندھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کرنے آئے تھے وہ ہم نے سب کچھ کیا۔یعنی کشمیریوں‘ فلسطینیوں پر ظلم اور مشرق وسطیٰ کی تباہی و بربادی۔ مسلمانوں کے ساتھ نفرت آمیز رویہ‘دوسری اقوام سے حقارت اور امریکہ میں نسلی امتیاز کا فروغ۔حالانکہ سیاست و ریاست بنیادی طورپر عوام اور عوامی جذبات سے آگاہی کے بغیر ممکن نہیں۔سولہویں صدی عیسوی کے بعد یورپ میں کچھ غیر معمولی فکری و عملی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مغرب کی اس نشاۃ ثانیہ کے دوران قدیم یونانی فلسفے نے جدید دور کے تقاضوں کو سمجھ کر ایک نئی راہ اختیار کی۔انسان اور انسانیت پسندی کے مرکزی خیال نے انسان ہی کو معیار خیر و شر قرار دیا اور یوں کائنات کا مرکز خدا کی جگہ بندہ خدا ٹھہرا۔انسانی زندگی کو انسانیت کی سطح پر پرکھنے کا طرز فکر پیدا ہوا۔الٰہی ہدایت کی جگہ انسانی عقل نے لے لی۔انسان کو صحیح اور غلط کے پرکھنے کا اختیار میسر آیا تو بات ذاتی مفاد سے شروع ہو کر قومی مفاد پر جا کر رک گئی۔لہٰذا انسانیت کا اجتماعی مفاد ثانوی درجے پر چلا گیا اور اولیت قومی مفاد کو حاصل ہو گئی۔قوم پرستی کے جنون میں مبتلا طاقتور ریاستوں کے نو آبادیاتی رجحان نے ان تبدیلیوں کے اثرات عالمی سماج میں منتقل کردیئے۔ان اثرات کے پھلنے پھولنے سے اکیسویں صدی تک نوبت یہ آ گئی کہ اب اکثر ریاستیں‘اہل مغرب کے سیاسی فکر و عمل اور معاشی دام و دانہ کے اسیر ہو گئیں۔عصر حاضر کی سماجی زندگی میں ریاستی نظام وسعت پذیری کے ساتھ پیچیدگی بھی اختیار کر گئے۔سیدھی سادھی روایات پر مبنی انسانی تمدن نے ایک مشینی معاشرے کا روپ دھار لیا۔سماجی ترقی اور سیاسی ارتقا کے تصورات کے ساتھ جدید ریاست ایک تکنیکی ادارہ بن گئی۔ایسے حالات میں سیاست ایک وسیع سائنس بن چکی ہے جو ایک خاص فلسفے کی پیروکار اور مخصوص اصطلاحات سے آراستہ ہے۔دور جدید میں یہ سارا نظام جمہوریت کی چھتری تلے سانس لے رہا ہے۔اٹھارویں صدی تک ناپسندیدہ سمجھا جانے والا یہ طرز حکومت،جمہوریت، اب ایک آفاقی مذہب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔سیاست اور جمہوریت کے نئے پہلو دریافت کئے گئے ہیں۔ریاست کے آغاز وارتقا کی کہانی اور اقتدار اعلیٰ کے سرچشمے تبدیل کردیئے گئے ہیں۔آئین کے ماخذ اور مذہب کے تہذیبی کردار میں تبدیلیاں کردی گئی ہیں۔تہذیب و تمدن کا یہ سارا خواب بنیادی طور پر مغربی معاشرے میں شرمندہ تعبیر ہوا ہے،مگر چاہتے نہ چاہتے ہوئے امت مسلمہ بھی اس کی زد میں ہے۔ دراصل جدید جمہوری فکر میں ریاست کو انسان کا تخلیق کیا ہوا ایک ادارہ گردانا گیا ہے،جو انسانی معاھدہ عمرانی contract" "Socialکے تحت معرض وجود میں آیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسان نے ریاست اپنے مقصد کے حصول کے لیے تشکیل دی ہے۔لہٰذا اس پر حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ بھی انسان ہی کو حاصل ہے۔یورپ میں سولہویں صدی کی نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصطلاح Movement Reformationکے نتیجے میں سلطنت روما والا مذہب و ریاست کا اتحاد دم توڑ گیا۔ اس طرح ریاست پر چرچ یعنی مذہب کی برتری ختم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی ریاست کے لیے تخلیق ربانی کا تصور بھی مدھم پڑ گیا۔ ایسی صورتحال میں ریاستوں اور معاشروں پر کسی ایسی برتر قوت کی ضرورت تھی جس سے نظم اور استحکام پیدا ہو۔کسی ایسے اقتدار کی تلاش شروع ہوئی جس کے تحت افراد اور ادارے وفاداری کے ساتھ منسلک رہیں اور ریاست میں امن و سکون کی فضا کسی برتر طاقت کے سامنے جوابدہی کے ذریعے پیدا کی جا سکے۔اس ضرورت کو مذہب کے قدرتی ادارے کے ذریعے پورا کرنے کی بجائے سیاسی ماہرین پروٹسٹنٹ نے مصنوعی طریقے سے ایک سیاسی فلسفے کے ذریعے پورا کیا۔وہ اس طرح کہ انہوں نے بائبل میں مذکور مقدس عہد یعنی Covenant یا عہد خداوندی سے معاہدہ عمرانی کا تصور مستعار لیا۔تاہم اس کی تعبیر میں خدا کو الگ کر کے غیر مذہبی سیکولر تقسیم اور تشریح کی گئی۔یوں اس عہد کو خدا اور انسانوں کی بجائے صرف انسان کا انسانوں کے مابین معاہدہ قرار دیا گیا،جسے معاہدہ عمرانی Contract Socialکے نام سے ایک سیاسی نظریے کے طور پر پیش کیا گیا۔اس سماجی معاہدے کا مفہوم یہ طے پایا کہ ریاست میں اصل اختیار حاکمیت‘عوام کی ملکیت ہے جسے وہ ایک معاہدے کے تحت اپنی قائم کردہ حکومت کو سونپتے ہیں،جو اس اختیار کا استعمال عوام ہی کی مرضی کے مطابق کرتی ہے۔