جمعیت علمائے ہند کی مارچ 1939ء کی قرار داد میرے سامنے رکھی ہے جس میں مصطفی کمال اتا ترک کے لیے ’’ مجاہد اعظم ، مجاہد اکبر ، غازی اسلام اور مفکر اعظم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے مصطفی کمال اگر مجاہد اعظم ، مجاہد اکبر ، غازیٔ اسلام اور مفکر اعظم ہو سکتے ہیں ، موہن داس کرم چند گاندھی صاحب اگر مہاتما ہو سکتے ہیں اور محی الدین احمد صاحب کو امام الہند ابو الکلام آزاد کہا جا سکتا تو بابائے قوم کو قائد اعظم کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ لوگوں کو اوج و موج کے کیسے آشوب نے آ لیا ہے کہ وہ ’’ جناح صاحب‘‘ لکھتے اور پکارتے ہیں؟ بابائے قوم محمد علی جناح کو نام سے یاد کرنا ہر گزمعیوب نہیں۔ جناح صاحب کہنے لکھنے میں بھی کوئی خرابی نہیں لیکن اگر کوئی اس بات کا اہتمام کرتا ہو کہ قائد اعظم کی بجائے جناح یا جناح صاحب لکھا اور پکارا جائے گا تو یہ ایک بیمار رویہ ہے ۔ یہ رویہ اس بات کا اعلان ہے کہ بولنے اور لکھنے والا اپنی ہی آگ میں جل رہا ہے اور اس کی نفسیاتی گرہ شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ نصف صدی بیت چلی ، یہ نفسیاتی گرہ کھلنے میں نہیں آ رہی۔زمانہ کروٹ بدل گیا کچھ لوگ ابھی تاریخ کے پچھلے موڑ پر کھڑے اپنی شکست کو پیٹ رہے ہیں۔ تحریک پاکستان کے وقت دو آراء کا جنم لینا ایک فطری بات ہے۔ جمعیت علمائے ہند اگر دوسری رائے رکھتی تھی تو یہ ایک فکری اختلاف تھا لیکن سات دہائیاں بعد بھی مولوی محی الدین احمد صاحب کا نام آئے تو وارفتگی شوق میں زبان، لب شیریں کے بوسے لیتے ہوئے امام الہند امام الہند اور ابولکلام ابولکلام کہتی ہو لیکن یہ شوخی گفتار قائد اعظم کہتے ہوئے روٹھ جائے اور زبان پتھر کی ہو جائے تو پھر معاملہ اختلاف رائے کا نہیں رہتا۔یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کی نفسیاتی گرہ کھلنے کی بجائے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہر قوم کی محبت کی کچھ علامات ہوتی ہیں۔ مصطفی کمال اتا ترک کو ترکی میں ایک مقام حاصل ہے۔ بھلے طیب اردوان کی فکر مصطفی کمال کی فکر سے مطابقت نہ رکھتی ہو لیکن طیب اردوان ہر سال باقاعدگی سے اتا ترک کے مقبرے پر حاضری دیتے ہیں۔ ایک بار بھی طیب اردوان نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے اتا ترک کی تضحیک ، توہین یا انہیں نظر انداز کرنے کا اشارہ ملتا ہو۔ اس لیے کہ کمال، اتا ترک ہیں۔ اتا ترک کا مطلب ہے ترکوں کا باپ۔ اردوان کی فکر جو بھی ہو انہیں معلوم ہے ترک نیشن سٹیٹ میں مصطفی کمال کا کیا مقام ہے اور اس کا احترام کیسے کرنا ہے۔ پاکستان میں یہی مقام بابائے قوم قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔اردو میں کہیں تو یہ بابائے قوم بنے گا ، ترک زبان میں لکھیں تو اتا ترک کہلائے گا ۔قائد اعظم سے اجتناب کرتے ہوئے ’’ جناح‘‘ یا ’’ جناح صاحب‘‘ کہنا اور لکھنا علمی رویہ ہے نہ کسی محقق کی غیر جانبداری کا عکاس ، یہ صرف خبث باطن ہے ۔یہ اس کدورت کا اظہار ہے جو ستر سال بعد بھی کچھ دلوں سے اتر نہیں سکی۔ انہیں چمٹ چکی ہے ۔جیسے ویرانے میں کوئی آسیب اتر آئے۔ بعض سیاست دان ، ہمارے سامنے ہے کہ ، اہتمام سے جناح صاحب کہتے ہیں۔ وہ پارلیمان میں چند اہم ترین مناصب پر فائز رہے ہیں لیکن قائد اعظم کا ذکر آئے تو ان کا کینہ ان کی آنکھوں سے ہی نہیں زبان سے بھی ظہور کرنے لگتا ہے۔ اہم ریاستی مناصب پر فائز رہنے کے باوجود کسی گروہ یا جماعت کے ایک رہنما کو بھی ان ستر سالوں میں ایک بار بھی مزار قائد پر حاضری دینے کی توفیق نہیں ہو سکی تو یہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ یہ بغض اور کینہ ہے جو چھپائے نہیں چھپ رہا۔مختلف صورتوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔ اہل قلم کے اپنے مسائل ہیں۔ ان کا احساس کمتری شدید تر ہو چکا۔ کوئی ایسی چیز تو انہیں بھاتی ہی نہیں جو مقامی ہو۔ کتاب ہو یا موقف ، ان کے ہاں حرف حق وہی ہے جو انگریزی میں لکھا ہو اور کسی انگریز نے لکھ رکھا ہو۔ مشرقی تہذیب کا رکھ رکھائو انہیں لگتا ہے کہ جہالت ہے۔ حفظ مراتب ان کے ہاں پینڈو کلچر کی نشانی ہے۔ ان کے خیال میںآپ جناب کے بغیر جتنا روکھا کسی کو مخاطب کر لیجیے ، اتنا ہی آپ کلچرڈ تصور ہوں گے۔ چنانچہ قائد اعظم لکھنا ان کے نزدیک نیم خواندہ اور انتہائی مقامی لوگوں کا کام ہے ۔ قائد اعظم کی بجائے جناح صاحب لکھ کر وہ اپنے تئیں ایک گلوبل قسم کے غیر جانبدار تجزیہ کار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آدمی ہر سال ولدیت کے خانے میں ایک نیا نام لکھ کر یہ ثابت کرنا چاہے کہ وہ شدت پسند نہیں ہے اور سب کو ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔ مصطفی کمال فوت ہوئے تو جمعیت علمائے ہند کے اجلاس میں قرار پاس کی گئی: ’’ یہ اجلاس مجاہد اعظم غازی مصطفی کمال پاشا جو ترکی کے استخلاص اور استقلال کے روح رواں تھے ، کی وفات حسرت آیات پر دلی صدمے کا اظہار کرتا ہے۔ ان کی وفات سے ملت اسلامیہ کا ایک مفکر اعظم اور مجاہد اکبر مسلمانوں سے جدا ہو گیا۔ خدائے تعالی غازی موصوف کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ملت ترکیہ کو احیائے قوائے ملت میں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ مصطفی کمال پاشا کے لیے میں بھی دعا گو ہوں لیکن دریچہ دل سے ایک سوال آن لگا ہے: کیا جمعیت علمائے اسلام نے آج تک کبھی بابائے قوم قائد اعظم ؒ کی پیدائش یا برسی کے موقع پر ان کے لیے بھی بلندی درجات کی کوئی رسمی سی قرارداد یا کوئی بیان جاری فرمانے کی زحمت کی ہے؟ایک رسمی سا دو سطری بیان ہی کبھی جاری کر دیا ہوتا کہ قائد اعظم کا آج یوم پیدائش ہے اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ایسی بھی کیا نفسیاتی گرہ ہے ، کھلنے میں ہی نہیں آ رہی؟ آخر معاملہ کیا ہے، مصطفی کمال صاحب تو اپنے سارے فکری زاد راہ کے باوجود مجاہد اعظم ، مجاہد اکبر ، غازی اسلام اور مفکر اعظم کہلائے جائیں ، موہن داس کرم چند گاندھی صاحب مہاتما بن جائیں ، محی الدین احمد صاحب امام الہند اور ابولکلام کی خلعت فضیلت اوڑھ لیں ، مقامی سطح پر کوئی صاحب قائد انقلاب بن جائیں اور کوئی صاحب شیخ الاسلام ہو جائیں ، فضل الرحمن صاحب تو حضرت اور مولانا ہی نہیں، قائد ملت اسلامیہ بھی قرار پائیں اور ان کے فرزند گرامی کے نام کے ساتھ بھی عقیدت و احترام میں دو چار سابقے لاحقے لگا دیے جائیں لیکن قائد اعظم ؒ کے لیے کلمہ خیر کہنے کی توفیق نہ ہو سکے۔ ان کا ذکر بھی ہو تو ایک ادائے بے نیازی سے ’’ جناح صاحب‘‘ کہہ دیا جائے۔ وہ قائد اعظم تھے ۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ۔خدا ان کی قبر کو منور فرمائے۔ ٭٭٭٭٭