لگتا ہے آسمانی بلائوں نے عمران خان کی حکومت کو خانہ انوری سمجھ لیا ہے‘ ایک ٹلتی نہیں دوسری نازل ہو جاتی ہے امیر شجاعی نے فارسی زبان کے صاحب اسلوب شاعر انوری پر پھبتی کسی تھی ؎ ہر بلائے کزآسماں آید گرچہ بردیگرے قضا باشد برزمیں نارسیدہ‘می گوید خانۂ انوری کجا باشد (آسماں سے نازل ہونے والی ہر مصیبت اگرچہ کسی اور کے مقدّر میں ہو‘ زمین پر نازل ہونے سے پہلے انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہے۔) حکومت سازی کے بعد عمران خان ابھی سکھ کا سانس نہیں لینے پائے تھے کہ پانچ مشیروں میں سے ایک ڈاکٹر بابر اعوان کو نیب نے طلب کر لیا اور وہ مستعفی ہو کر نندی پور پاور پراجیکٹ سکینڈل سے اپنی جان چھڑانے میں لگ گئے‘ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے مناصب خان صاحب نے بیرسٹر فروغ نسیم اور انور منصور کے سپرد کئے ان دونوں نے آرمی چیف توسیع ملازمت کیس میں جس مہارت سے حکومتی موقف کا دفاع کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ‘آخری روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نرمی نہ دکھاتے تو ملک اتنے بڑے بحران سے دوچار ہوتا کہ الامان والحفیظ ۔انور منصور صاحب تین روز تک اِدھر اُدھر کی ہانکتے اور عدالت سے جھاڑیں کھاتے رہے ‘انہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ آرمی چیف کا تقرر تین سال کے لئے کیوں ہوتا ہے اور ماضی میں جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کس اُصول پر ہوئی تھی‘ انہوں نے بھری عدالت میں یہ بھی کہہ دیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا ‘کسی کے ہاتھ کا دیا کام آ گیا ورنہ اٹارنی جنرل نے لٹیا ڈبو دی تھی۔عمران خان کا کمال مگر یہ ہے کہ انہوں نے دونوں کو اپنے منصب پر برقرار رکھا‘ حالانکہ دونوں کا تحریک انصاف کا تعلق نہیں اور ایم کیو ایم فروغ نسیم کو کابینہ میں اپنا نمائندہ نہیں مانتی۔ قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں حامد خاں‘ منیر ملک اور دیگر نامور وکلا کئی ماہ سے صدارتی ریفرنس کے خلاف دلائل دے رہے ہیں جو پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہیں جوڈیشل کمشن کو قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کی سماعت سے روکنے کے لئے سپریم کورٹ میں بحث جاری ہے مگر دو روز تک انور منصور نے سپریم کورٹ کے اختیار سماعت کو چیلنج کرنے کے بجائے یہ ثابت کرنے میں لگا دیے کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کا جواب دینے کے پابند ہیں۔ آرمی چیف توسیع ملازمت کیس میں بھی موصوف نے عدالت کا دائرہ کار چیلنج کیا نہ اختیار سماعت پر سوال اٹھایا جو طرفہ تماشہ تھا‘ منگل کے روز دوران سماعت انور منصور نے بنچ میں شامل ججوں پر اعتراض اٹھا کر حکومت کے لئے مسائل پیداکر دیے اور بنچ برہم ہوا تو اپنے موقف سے فوراً پیچھے ہٹ گئے حتیٰ کہ معافی مانگنے پر اُتر آئے۔ بنچ کا دبائو اور بار کی مخالفت برداشت کرنے سے قاصر اٹارنی جنرل حکومت کو ندامت سے دوچار کر سکتا تھا‘ عمران خان نے درست فیصلہ کیا اور اٹارنی جنرل کے ذریعے خانہ انوری پرنازل ہونے والی مصیبت کو ٹال دیا۔ حکومت اپنی مدت کا کم و بیش ایک تہائی عرصہ گزار چکی ہے ۔اٹھارہ ماہ بعد وہ ماضی کے ناکردہ کارحکمرانوں کی نااہلی‘ نالائقی‘ کرپشن اور اقربا پروری کے پیچھے چھپ سکتی ہے نہ راستے کی رکاوٹوں کو کسی طاقتور فرد یا ادارے کی کارستانی قرار دے کر جان چھڑانے کے قابل۔طاقتور قومی اداروں کی جس قدر خوش دلانہ اعانت عمران خان کی حکومت کو ملی کسی اور کو باید و شائد۔ فیصلوں میں ناپختگی اور رجال کار کے انتخاب میں نقص اس کا سبب ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں بابر اعوان‘ نعیم بخاری اور علی ظفر جیسے ماہرین قانون کو نظر انداز کر کے شہزاد وسیم ایسے شخص کو منتخب کرانا جس کا اور چھورخان کے نورتنوں کے سوا کسی کو معلوم ہے نہ سیاسی خدمات سے کوئی واقف‘ وہ ظلم ہے جو اقربا پروری اور دوست نوازی کی مخالف تحریک انصاف کی قیادت نے کیا‘ یہ ظلم نہیں تو کیا ہے کہ پنجاب کی سیاست کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی امور سے واقف متحرک و فعال چودھری محمد سرور کو گورنر ہائوس میں غیر سیاسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور پنجاب کی قیادت کا تاج ایک ایسے سر پر سجایا گیا جسے مستعد و بیدار رکھنے کے لئے خان صاحب کو ہر مہینے پندرہ دن بعد لاہور کا چکر لگانا پڑتا ہے‘ کامیاب وہ اب تک نہیں ہوئے آٹے اور چینی کے بحران سے نمٹنے کے لئے عمران خان کو ہدایات جاری کرنے کی ضرورت تبھی پیش آئی ورنہ یہ وزیر اعلیٰ کا دائرہ کار ہے۔ عارف علوی کو ایوان صدربٹھانا‘ عاطف خان کے بجائے محمود خان کو خیبر پختونخوا کا وزیر اعلیٰ بنانا بھی ایسے ہی ناقص فیصلے ہیں جس کا خمیازہ تحریک انصاف اور عمران خان کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔کارکن اب حکومت کی معاشی کارگزاری کا دفاع کرنے سے عاجز ہیں اور وزیر مشیر آئیں بائیں شائیں کرنے پر مجبور۔ عدلیہ ہر روز چوکے چھکے لگا رہی ہے۔ انور منصور خان کی جگہ اگر پہلے ہی روز وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کا منصب بابر اعوان‘سید علی ظفر اور نعیم بخاری میں سے کسی ایک کو سونپا گیا ہوتا تو عدالتی محاذ پر کبھی سبکی نہ اٹھانا پڑتی۔ بجا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے قابل اعتماد ساتھی عدل کے ایوانوں میں اپنی سی کر گزارتے مگر کوئی عوام کو بتانے والا تو ہوتا کہ احتساب اور تبدیلی کا راستہ روکنے کے لئے درون خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے اور مافیاز نے کہاں کہاں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ انور منصور خان کی رخصتی کے بعد کم از کم نئے اٹارنی جنرل کے انتخاب میں ماضی کی غلطی کا ازالہ ہونا چاہیے کہ اب غلطی کی گنجائش ہرگز نہیں۔ کسی کے دبائو یا کم عقل نورتن کے مشورے پر نیا اٹارنی جنرل بھی ماضی کا مزار ثابت ہوا تو حکومت کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ الیکشن کمشن میں فارن فنڈنگ کیس عمران خان کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب تو چیف الیکشن کمشنر بھی حکومت کا اپنا مقرر کردہ ہے اگر خدانخواستہ حکومت کی غیر موزوں قانونی ٹیم یا کسی اور وجہ سے چیف الیکشن کمشنر نے ناخوشگوار فیصلہ صادر کر دیا تو مہنگائی اور بے روزگاری کے مارے عوام کوئی حیلہ و حجت نہیں سنیں گے۔ میاں نواز شریف نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپا عوام نے سنی ان سنی کر دی کہ خود کردہ را علاجے نیست ۔عوام میں پائی جانے والی بے چینی ختم کرنے اور عدلیہ سمیت برہم اداروں کو مطمئن رکھنے کی ایک ہی صورت باقی ہے کہ حکومت اگلے چند روز میں پٹرول‘ بجلی‘ گیس اور اشیائے خورو نوش کے نرخوں میں کم از کم دس پندرہ روپے فی لیٹر‘ یونٹ اور کلو کمی کا اعلان کرے۔ حسن اتفاق سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں بیس ڈالر تک کمی ہو گئی ہے یہ پندرہ فیصد کمی ہے جس کا فائدہ عوام کو پہنچے تو حکومت کے مخالفین کی سب تدبیریں اکارت جائیں گی اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے اثرات بجلی کی پیداواری لاگت پر بھی مرتب ہوں گے۔ عمران خان عوام بالخصوص نوجوانوں کی ‘آس‘ اُمید ہیں‘ بیورو کریسی اور خوشامدی مشیروں کی بھرپور کوشش نظر آتی ہے کہ یہ اُمید نا اُمیدی میں بدلے اور تبدیلی کا سفر اختتام کو پہنچے۔ دیکھتے ہیں عمران خان کیسے Come Backکرتا ہے فی الحال تو مایوسی اور بے چینی کرونا وائرس کی طرح عوام اور تحریک انصاف کے حامیوں ‘خیر خواہوں پر حملہ آور ہے ؎ ہر بلائے کز آسماں آید گرچہ بر دیگرے قضا باشد بر زمیں نارسیدہ می گوید خانہ انوری کجا باشد