ملک میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی ہے، خوش قسمتی سے ابھی یہ اسلام آباد، پنجاب یا خیبر پختون خوا میں نہیں پہنچی، مگر بلوچستان ، کراچی اور اندرون سندھ اس کی جھلک نظر آئی ہے۔ گزشتہ روز کراچی سٹاک ایکسچینج پردہشت گرد بلوچ تنظیم بی ایل اے کے چار دہشت گردوں کا حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں بلوچستان میں فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ۔صرف مئی کے مہینے کے دوران بلوچستان کے ضلع کیچ میں فورسز پر تین حملے ہوئے ،جن میں کئی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے۔ چند دن پہلے سند ھ میں کراچی اور گھوٹکی میں رینجرز پر حملے ہوئے، جس کی ذمہ داری ایک شدت پسند سندھی تنظیم نے قبول کی۔اب جون کے آخری دنوں میں کراچی سٹاک ایکسچینج جیسی ہائی پروفائل عمارت پر حملہ ہوگیا۔ بی ایل اے نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے چاروں دہشت گردوں کی تصاویر بھی جاری کر دی ہیں۔ اس حملے میں خوش قسمتی سے دہشت گرد عمارت کے اندر گھسنے اور لوگوں کو یرغمال بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ سندھ پولیس کے جوانوں کو کریڈٹ دینا چاہیے، جنہوں نے غیر معمولی مستعدی اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو روکا۔ دو کو تو باہر ہی مار گرایا، دو احاطے میں گھسے ،مگر عمارت کے اندر جانے سے پہلے ہی نشانہ بن گئے۔ صرف آٹھ منٹوں میں یہ آپریشن مکمل کیا گیا، جس پر رینجرز اور سندھ پولیس کوخراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔شہید اور زخمی ہونے والے اہلکاروں کوسلام پیش کرتے ہیں۔ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم بی ایل اے (بلوچستان لبریشن آرمی)بنیادی طور پر مری سردار زادوں اور جنگجوئوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ ستر کے عشرے میں اس کی بنیاد ڈالی گئی ،جب مری سردار نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھی بلوچستان میں آرمی آپریشن کے خلاف پہاڑوں پر چلے گئے۔ نواب مری طویل عرصہ افغانستان میں جلاوطن رہے ، وہاں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان واپس آئے، چند سال بعدجسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں نواب خیر بخش مری کو گرفتار کیا ، اس پر احتجاجی کارروائیاں شروع ہوئیں، بی ایل اے پر ان کی ذمہ داری عائد کی جاتی رہی۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچ شدت پسندی میں ایک بڑی لہر پیدا ہوئی۔ بی ایل اے تب کئی بڑی کارروائیوں کا مرکز بنی۔نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے بالاچ مری افغانستان میں مقیم رہ کراس کی قیادت کر رہے تھے ۔اس وقت حامد کرزئی افغان صدر تھے، ان پر الزام عائد ہوتاکیا جاتا رہاکہ انہوں نے نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی اور نوابزادہ بالاچ مری کوافغانستان میں سیف ہیون دے رکھی ہے۔ براہمداغ بگٹی بعد میں یورپ اور پھرا مریکہ چلے گئے۔بالاچ مری نومبر 2007 میںپاک افغان سرحد کے قریب پاک فورسز کے ساتھ ایک تصادم میںمارے گئے۔تب سے بی ایل اے کا قائد نواب خیر بخش مری کے ایک اور صاحبزادے حیربیار مری کو سمجھا جاتا ہے۔ حیربیار مری اگرچہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے،ان کے کہنے کے مطابق وہ صرف بی ایل اے کی سیاسی جدوجہد کے حامی ہیں۔ نواب مری کے ایک اور صاحبزادے مہران مری نے الگ سے گروپ بنا کر کچھ دہشت گرد کارروائیاں کی تھیں، مگرپھر ان کا نیٹ ورک پاک فورسز کے آپریشنز سے درہم برہم ہوگیا۔ بلوچ شدت پسند تنظیموں میں ایک اور اہم گروہ بی ایس او کے سابق رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کی زیرقیادت بی ایل ایف (بلوچستان لبریشن فرنٹ)ہے۔اس کا زیادہ اثر اللہ نذر کے آبائی علاقے مشکے، اواران ،تربت، پنجگور وغیرہ میں ہے۔مکران میں روایتی طور پر سردار مخالف جذبات پائے جاتے ہیں، اسی لئے یہ تنظیم بھی سرداروں سے فاصلہ رکھتی رہی۔ براہمداغ بگٹی کی تنظیم بی آر اے(بلوچ ری پبلک آرمی) ان دونوں بڑی تنظیموں سے چھوٹی اور نسبتا ً کم فعال ہے، اس میں بگٹی ناراض نوجوان ہی شامل رہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس کا دائرہ کارمحدود ہوگیا ہے۔ بی ایل اے کے سب سے اہم کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو تھے۔ بی ایل اے کے بہت سے آپریشنز انہی کے زیرنگرانی ہوئے۔بی ایل اے میںبھٹو دور کے ایک شد ت پسند مجید بلوچ کے نام پر مجید فدائین بریگیڈ قائم کیا گیا، اچھو بلوچ اس کے سربراہ تھے۔ کہاجاتا ہے کہ چند سال قبل زیارت میں قائداعظم ریزیڈنسی کو جلا دینے کی کارروائی بھی اسلم بلوچ کی ہدایت پر ہوئی۔ اچھو بلوچ ہی نے دالبندین میں چینی انجینئرز پر بڑا خود کش حملہ ترتیب دیا، جبکہ دو سال قبل کراچی میں چینی قونصل خانہ پر حملہ بھی اچھو بلوچ نے کرایا۔ اس کے سر کی بڑی قیمت بھی مقرر کی گئی تھی۔ اچھو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کئی سال پہلے ایک آپریشن میں زخمی ہوئے اور علاج کرانے افغانستان سے بھارت گئے تھے۔ اس پر تنظیم میں ردعمل بھی ہوا اور کچھ لوگ الگ ہوگئے۔دسمبر 2018ء میں قندھار، افغانستا ن میں ایک خود کش حملے میں اچھو بلوچ اپنے چھ ساتھی کمانڈروں سمیت مارے گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی، تاہم افغانستان کے صحافتی حلقوں میں یہ بات کہی جاتی رہی کہ اچھو بلوچ کو کراچی میں چینی قونصل خانہ پر حملے کی سزا دی گئی۔اچھو کے بعد بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نامی کمانڈر نے سنبھالی۔ بشیر زیب نے پچھلے سال گوادر میں ایک نجی ہوٹل پر بڑا حملہ کرایا، کوشش تھی کہ وہاں قیام کرنے والے چینی انجینئرز اور فورسز کے افسروں کو نشانہ بنایا جائے، تاہم فورسز نے عمدگی سے دفاع کیا اور حملہ آور مارے گئے۔ کراچی میں حملہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے دہشت گرد تنظیم کے نیٹ ورک کے برقرار ہونے کی خبر ملتی ہے، ساتھ یہ اشارہ بھی کہ حملہ کرنے کا مقصد کیا تھا؟ سکیورٹی حکام کی بریفنگ کے مطابق حملہ آوروں کے پاس بڑی تعداد میں اسلحہ اور کھانے پینے کا سامان موجود تھا۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب دہشت گردوں کا مقصد لوگوں کو یرغمال بنا کر ایک دو دنوں تک اپنا قبضہ برقرار رکھنا ہو۔ وہ چاہتے ہوں کہ ان کی سرگرمی کو میڈیا کوریج ملے اور دنیا بھر میں واضح پیغام جائے۔دو ہفتے قبل گھوٹکی اور کراچی میں رینجرز پر ہونے والے حملے گو زیادہ شدید نہیں تھے، مگر ان سے بھی عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ شدت پسند سندھی تنظیم اور بلوچ شدت پسند تنظیموں کے مابین روابط پہلے سے موجود ہیں۔ ادھر کراچی میں ایم کیو ایم لندن کی فرسٹریشن بھی بڑھ رہی ہے، الطاف حسین کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور محمد انور جیسے قریبی ساتھی فاصلہ کر رہے ہیں۔بی ایل اے، شدت پسند سندھی ،ایم کیو ایم لندن کی فرسٹریشن اور اس میں اضافہ افغانستان کے بدلتے ہوئے منظرنامے نے کر دیا۔طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدے کے بعد افغان حکومت اور اہم سٹیک ہولڈروں کے ساتھ مذاکرات کسی نہ کسی سطح پر چل رہے ہیں۔’’ طالبان کے افغانستا ن‘‘ میں بلوچ دہشت گردوں کی گنجائش بالکل نہیں۔ طالبان امریکہ سے معاہدہ کر چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کسی بھی غیر ملکی گروہ یا تنظیم کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ جو سیف ہائوسز اور ریکروٹنگ کیمپ آج کل بلوچ شدت پسندوں کو قندھار اور دیگر افغان شہروں میں میسر ہیں،و مستقبل میں ممکن نہیں ۔ ان شدت پسندجنگجوئوں کی فرسٹریشن اور تکلیف سمجھنا مشکل نہیں۔ ادھر بھارت اپنی پندرہ بیس سالہ سرمایہ کاری اور محنت کے باوجود افغانستان کی مستقبل کی مشاورت سے جس طرح بے دخل کیا گیا ہے، وہ بھارتی ماہرین اور خفیہ ایجنسی را کے لئے بڑے دھچکے سے کم نہیں۔ را کی شدید کوشش ہوگی کہ افغانستان میں دی گئی شکست کا بدلہ پاکستان میں لیا جائے۔ یہ حملے ہوتے رہیں گے، پاکستان پر آزمائشیں آتی رہیں گی کہ ہمارے دشمنوں کی کمی نہیں۔ ہمارے ذمے اپنا دفاع کرنا اور ہر لمحہ چوکس رہنا ہے۔ یہ درست کہ سکیورٹی حملے نے اچھے طریقے سے دفاع کیا اور دہشت گردوں کو اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ یہ کہنا مگر درست نہیں کہ ہم تیار تھے۔ نہیں ، اگر ہم تیار ہوتے تو حملہ آور کراچی سٹاک ایکسچینج کے گیٹ پر پہنچنے سے پہلے دبوچ لئے جاتے۔ سندھ پولیس کی قیادت کا یہ کہنا درست ہے کہ بہت سے آپریشن ناکام بنائے گئے، حملہ آور پلاننگ کے دوران ہی پکڑے جاتے رہے، مگر ان کی کوریج زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ بات درست ہے۔ ایک ہزار دہشت گرد گھروں سے پکڑ لئے جائیں، صرف ایک دہشت گرد حملہ کرنے کہیں پہنچ جائے اور حملہ کردے،تو یہ ناکامی ہی سمجھی جاتی ہے۔ بعض شعبے ایسے ہوتے ہیں جن میں سو فی صد کامیابی لازم ہے۔ پانچ دس فیصد رہ جانے کی گنجائش موجود نہیں۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہوگا۔ شدت پسند بلوچ تنظیموں کے سہولت کار موجود ہیں۔ کہیں پر تو انہوں نے پناہ لی، اتنے زیادہ اسلحے کے ساتھ حملہ کرنے پہنچ گئے، راستے میں کوئی روک بھی نہیں سکا۔ہیومن انٹیلی جنس کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ سندھی شدت پسندوں، ایم کیو ایم لندن اور شدت پسند بلوچ جنگجوئوںکا اتحاد نہ بننے دیں۔ اگلے کسی مرحلے پر ٹی ٹی پی بھی ان کے ساتھ جڑ سکتی ہے۔بلوچستان میں بعض جگہوں پر کالعدم مذہبی تنظیموں کے بلوچ دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ملنے کے اشارے ملے تھے۔ کراچی اور سندھ میں ہرگز ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہماری فورسز، کائونٹر ٹیررازم اداروں نے پچھلے چند برسوں میں غیر معمولی کام کیا، انہیں اسی یکسوئی اور ارتکاز کے ساتھ اس نئی لہر کو بھی روکنا ہوگا۔ پوری قوم کی دعائیں اور نیک تمنائیںاپنے جوانوں کے ساتھ ہیں۔