مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد میں دھرنے کو بارہ دن ہوگئے، آج تیرھواں روزہے۔ ابتدائی دنوں میں مولانا فضل الرحمن اور ان کے کارکن اسے دھرنا نہیں مارچ کہتے رہے۔ مارچ سے پہلے مولانا نے بھی ایک دو بار اخبارنویسوںکو کہا کہ ہم نے کبھی دھرنا کا لفظ استعمال نہیں کیا، ہم تو صرف آزادی مارچ کرنا چاہ رہے ہیں ، میڈیا ازخود ہی سے دھرنا کہہ رہا ہے۔ اسلام آباد میں جلسہ کے بعد مولانا بھی دھرنے پر مجبور ہوگئے۔ دو ہفتے ہونے کو ہیں یہ دھرنا جاری ہے۔ مولانا کا دھرنا مگر عمران خان کے پانچ سال پہلے کے دھرنے سے خاصا مختلف ہے۔ عمران خان کا دھرنااس لئے مختلف تھا کہ خود عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کی سیاسی شخصیت ، مقبولیت اور ووٹ بینک میں بڑا فرق ہے۔ عمران خان 2013ء میں ایک بڑے قومی رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ الیکشن سے پہلے انہوں نے بڑی بھرپور الیکشن مہم چلائی ، بہت بڑے جلسے کئے اور ایک خاص تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ اس وقت یوں لگ رہا تھا کہ وہ شائد الیکشن جیت جائیں۔ الیکشن ڈے پر مختلف چینلز کی لائیو نشریات میں بیشتر تجزیہ نگار عمران خان کی نشستیں چالیس پچاس سے سو کے درمیان بتا رہے تھے۔ انتخابی نتائج عمران خان کی توقعات کے مطابق نہ نکلے اور وہ صرف خیبر پختون خوا میں صوبائی حکومت بنا سکے۔ تحریک انصاف نے اگرچہ ستر لاکھ کے قریب ووٹ لئے، مگر مرکز میںانہیں زیادہ نشستیں نہ مل سکیں۔ عمران خان کے لئے یہ بڑا دھچکا تھا۔ ان کے خیال میں وہ پورا الیکشن جیت چکے تھے، مگر الیکشن مشینری، نگران حکومت اور میاں نواز شریف کے گٹھ جوڑنے ان کی فتح چھین لی۔ اس کو اس امر سے تقویت ملی کہ چند اہم حلقوں سے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما بہت کلوز مقابلے سے جیتے مگر ان کی جیت اس لیے مشتبہ بنی کہ نتیجہ غیر معمولی تاخیر سے دیا گیا۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق کے حلقے کا نتیجہ اگلے روز ملا ، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسی طرح سیالکوٹ میں خواجہ آصف ، لودھراں میںجہانگیر ترین کا حلقہ اور لاہور میں عمران خان بمقابلہ ایاز صادق کے حلقے کے حوالے سے تحریک انصاف میں شکوک وشبہات موجود تھے۔ عمران خان نے ابتدا ہی سے اپنی تقریروں میں انتخابی دھاندلی کی شکایت کی اور نمونہ کے طور پر یہ چار حلقے کھلوانے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے اس پرروایتی پس وپیش سے کام لیا۔ ادھر لاہور میں ماڈل ٹائون سانحہ ہوگیا، جس میں ڈیڑھ درجن کے قریب معصوم لوگ جانیں گنوا بیٹھے۔ ماڈل ٹائون واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام دیا اور پھرڈاکٹر طاہرا لقادری اور عمران خان دونوں مل کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے ۔ عمرا ن خان کا اسلام آباد پر مارچ اور پھر دھرنا اپنے ساتھ بعض مثبت اور منفی پہلو لئے ہوئے تھا۔ عمران خان کی پشت پر ان کی غیر معمولی انتخابی مہم، بہت بڑے عوامی جلسے، الیکشن جیتنے کا تاثر اور پھر سات ملین ووٹ تھے۔نواز شریف حکومت ماڈل ٹائون کے لہور نگ المیہ کے باعث کمزور ہوئی تھی، ان کی اخلاقی پوزیشن کو سخت دھچکا پہنچا۔ دوسری طرف یہ اشارے بھی موجود تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک طاقتور حلقہ عمران خان کی سپورٹ میں موجود ہے اور اگرو ہ بڑا اجتماع لے کر اسلام آباد پہنچے اور ملک میں غیر یقینی اور پینک کی صورتحال پیدا ہوئی تو نواز شریف حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ خود میاں نواز شریف بھی وقتی طور پر اس قدر دبائو میں آئے کہ وہ وزیراعظم ہائوس چھوڑ کر جاتی عمرہ آگئے اور دو تین دن تک ادھر ہی رہے۔ بعد میں اگرچہ انہوں نے فائٹر کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ میاں صاحب واپس گئے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوایا اور ملک کی تمام اہم ، موثر سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب رہے۔ سندھ میں صوبائی حکومت بنانے والی پیپلزپارٹی ، بلوچستان کا معرکہ مارنے والے پشتون، بلوچ قوم پرست جماعتیں، اے این پی اور جے یوآئی ف کی صورت میں ملک گیر سیاسی اتحاد میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑا تھا اور پارلیمنٹ میں دھواں دھار تقریریں کر کے انہوں نے ایسی فضا پیدا کر دی جس کے باعث عمران خا ن کو کہیں سے بھی امپائر کی مدد میسر نہ آسکی۔ عمران خان کواس وقت بڑا موقعہ ملا تھا جب دھرنے کے عروج پر حکومت استعفے کے سوا کئی دیگر باتیں ماننے پر تیار ہوگئی تھی۔ اس میں قومی اسمبلی کی مدت چار برس کرنے کا اشارہ بھی شامل تھا۔ عمران خان نے غیر ضروری سخت رویہ اپنایا اور سب کچھ گنوا دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی قوت کمزور ہوتی گئی۔ دھرنا بھی سکڑتا گیا اور پھر ایک روز اچانک طاہر القادری صاحب اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلتے بنے۔ عمران خان کا دھرنا اسلام آباد کی شدید سردیوں میں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونے والا تھا کہ پشاور میں سکول کے بچوں پر ہونے والی خوفناک دہشت گردی کے واقعے سے انہیں اپنا دھرنا ختم کرنے کا جواز مل گیا۔ مجموعی طور پر عمران خان کو اس دھرنے سے نقصان ہی پہنچا۔ ان کی سیاسی قوت، تنظیمی صلاحیت کا بھرم ختم ہوا، وہ ایک برے مقرر کے طور پر سامنے آئے۔ آج عمران خان کی بہت سی منفی تقریروں کے کلپس دکھائے جاتے ہیں، ان میں سے بیشتر دھرنے کے دنوں کی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن عمران خان کی نسبت علاقائی سطح کے لیڈر ہیں۔ ان کی تمام تر سیاست میں کبھی انہیں نیشنل لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ کبھی وہ وزیراعظم کے سنجیدہ امیدوار کے طور پر تصور نہیں کئے گئے۔ ان کی جماعت بلوچستان کی پشتون بیلٹ اور خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع سے چند نشستیں جیت کر اسمبلی میں ایک پریشر گروپ کے طور پر آتی رہی،عام طور پر سات آٹھ سے بارہ چودہ نشستیں ان کے حصے میں آتی ہیں۔2018ء کے انتخابات میں بھی یہی صورتحال تھی۔کوئی تجزیہ نگار خواب میں بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا تھا کہ مولانا انتخابی میدان مار لیں گے۔ ایم ایم اے بنانے کے باوجود اندازہ یہی تھا کہ دس سے پندرہ نشستیں انہیں ملیں گی۔ نتیجہ بھی کم وبیش وہی نکلا ، صرف یہ ہوا کہ مولانا اپنی دونوں نشستیں ہار گئے۔ فرض کریں کہ اگر مولانا اپنی ایک سیٹ جیت لیتے تو پھر ان کی کارکردگی فطری اور توقعات کے عین مطابق ہوتی۔مولانا نے الیکشن کے بعد شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ وہ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرانا چاہتے تھے۔ اپنی شکست کو انہوں نے دل پر لیا۔ اگرچہ وہ حلقے کھلوانے کی طرف بالکل نہیں گئے۔ مولانا نے ابتدا ہی سے احتجاجی مہم چلانے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ سال بھر وہ اس میں لگے رہے اور آخرکاراپنا مارچ کر ڈالا ، جو اب اسلام آباد دھرنے میں بدل چکا ہے۔ اسلام آباد میں عمران خان اور مولانا فضل الرحمن دونوں کے دھرنوں کی کم وبیش ایک جیسی سیاسی پوزیشن ہے، اگرچہ دونوں کے شرکا، مزاج اور سٹائل میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔عمران خان کا حلقہ اثر مڈل کلاس شہری آبادی ہے، جس میں نوجوان اکثریت میں ہیں، خواتین کا بھی بڑا حلقہ ان کی جماعت کا حامی ہے۔ یہ تمام فیکٹرز ان کے دھرنے میں نمایاں تھے۔ مولانا فضل الرحمن کا تعلق روایتی مذہبی دیوبندی جماعت سے ہے، ان کا حلقہ اثر مدارس سے فارغ التحصیل فضلا، طلبہ پر مشتمل ہے، اکثریت پشتو بولنے والی دیہی کلاس ہے۔سخت پردے کے جو حامی ہیں ، خواتین کی جلسوں میں شمولیت پسند نہیں کرتے۔ یہ سب رنگ مولانا کے دھرنے میں بھی نمایاں ہیں۔ عمران خان کا لب ولہجہ زیادہ سخت اور گاہے ناشائستہ ہوتا رہا۔ اس کی ایک وجہ دھرنے کا طویل ہوجانا تھا، جس سے ان کی سیاسی فرسٹریشن بڑھ رہی تھی۔ مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے اس سے بچنے کی کوشش کی اور شائستہ لب ولہجہ اپنایا، مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے، ان کے لہجے بھی تلخ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ اب سٹیج پر سخت ذاتی حملے جاری ہیں،مولانا منظور مینگل جیسے آگ برسانے والے اس تاثر کو بڑھا وا دے رہے ہیں۔ دونوں دھرنوں کے قائدین کو یہ بات سمجھ آ چکی کہ صرف مارچ یا دھرنے سے حکومت نہیں گر سکتی۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل نہ ہو، تب تک اسلام آباد میں چہرے کی تبدیلی بھی ممکن نہیں۔ عمران خان کو اس کا اندازہ تاخیر سے ہوا، وہ بہت آگے جا چکے تھے، واپس مڑنا ممکن نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن بھی خاصا آگے آ چکے ہیں، فوری مڑنا ان کے لئے بھی ممکن نہیں۔ مولانا کے پاس بھی مگر آپشنز محدود ہوتی جا رہی ہیں۔دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں ان کے ساتھ نہیں، ان کے بغیر وہ تصادم کی طرف نہیں جا سکتے ۔ویسے بھی مولانا نے مستقبل میں بھی سیاست کرنی ہے اور خادم رضوی جیسا انجام وہ قطعی نہیں چاہتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں طاقت کے مراکز کون سے ہیں اور ان سے کس حد تک بگاڑ لیا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس ایک ہی آپشن بچی ہے کہ وہ الیکشن ریفارمز، جوڈیشل کمیشن اور کچھ دوسری قانونی تبدیلیوں وغیرہ کا پیکیج قبول کر لیں۔ اگر اس میں چند دن مزید تاخیر ہوئی تو یہ آپشن بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اسلام آباد میں پانچ سال پہلے اور آج کے دھرنوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حکومت گرانا اس قدر بھی آسان نہیں، جتنا ہمارے پرجوش سیاستدان سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ٹمپرامنٹ کا کھیل ہے جو حکومتیں بھی کھیلنا اتنا ہی اچھا جانتی ہیں۔