نوزائیدہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اہم ممبر ڈاکٹر راغب حسین نعیمی ،کبھی کبھار احباب کی مجلس آراستہ کرتے اور یوں مختلف --- "سلیبرٹیز"سے ملاقات کا موقع میسر آ جاتا ہے،تازہ موضوعات پر تبادلہ خیال ، گپ شپ، حالاتِ حاضرہ ---بات سے بات نکلتی اور چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ یہ بات جدید دنیا کے لیے شاید اچنبے کی ہو، کہ اس عظیم اور قدیم ادارے "جامعہ نعیمیہ "کے یہ مہتمم "اولڈ راوین "،اکنامکس کے سٹوڈنٹ ،لاء کالج سے سند یافتہ اور درسِ نظامی کے "باقاعدہ "فاضل ہیں ، واوین یعنی "inverted Commas" میں جو" باقاعدہ" لکھا ہے ،تو اس کا معنی اورمفہوم سمجھ کرلکھا ہے ،موصوف جدید اور قدیم علمی روایات سے آراستہ اور اسلاف کی امانتوں کے امین ،صائب فکر اورمثبت سوچ کے حامل ہیں۔ اپنے ذوق کی تشفی کے لیے ،ا نہوں نے اپنے مدرسے کے روایتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کی بجائے ،متصل ، ایک جدید ریسرچ انسٹیٹیوٹ تشکیل دیرکھا ہے ،جہاں قومی اوربین الاقوامی اہمیت کے حامل موضوعات پر گفت وشنید اور علمائ/خطباء کے لیے شارٹ کورسزاور ورک شاپس کا اہتمام ہوتا ہے۔ مذکورہ مجلس میں شرکت کے لیے حاضر ہوا ، تو گذشتہ کسی تقریب کی پینا فلیکس"Writing Camp"کے عنوان سے ابھی آراستہ تھی ، جس سے اس ادارے کی فعالیت اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگی کی تڑپ کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کا خواب تھا کہ علماء /خطباء خود کو محض تقریر تک محدود نہ رکھیں ، بلکہ ان کی تحریر وتحقیق کی صلاحیتیں بھی اْجاگر ہونی چاہیں ،ڈاکٹر راغب نعیمی اپنے والد گرامی کے اس خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کے درپے ہیں۔ وہ از خود چونکہ رسمی تعلیم کے ساتھ مدرسہ ایجوکیشن کے محاسن اور معائب سے بھی آگاہ ہیں ، اس لیے ان خوابیدہ گوشوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ،جن کے لیے ابھی باقی اداروں کو شاید اتنی فرصت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کبھی کبھی زیر لب مسکراتے ہوئے بڑی تیکھی بات کر دیتے ہیں۔ ایسا ھی انہوں نے’’ فیٹف اوراوقاف‘‘ کے عنوان سے میرے گزشتہ کالم پر تبصرہ آرا ہوتے ہوئے کیا‘ کہ کیا وقف پراپرٹیز آرڈیننس اور وقف ایکٹ کی تازہ قانون سازی اتنی ہی مثبت ہے‘ جتنی آپ نے بیان کی ہے۔۔۔ ، ظاہر ہے جواب تو مثبت ہی ہونا تھا۔ دیگر بہت سے استفسارات میں سے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل شمالی کوریا اور ایران۔ یعنی نان کوآپریٹو ممالک اور علاقہ جات این سی سی ٹی‘ یعنی جو دہشت گردی کی مالی اعانت اور منی لانڈرنگ کی سرگرمیوں کے حمایتی متصور ہوں۔ کو "بلیک لسٹ" میں رکھا جاتا ہے اور جو دہشت گردی کی مالی اعانت اور منی لانڈرنگ کے لئے محفوظ ٹھکانہ سمجھے جاتے ہوں ان کو گرے لسٹ میں، جو کہ دراصل ایک وارننگ ہوتی ہے کہ ان کو بلیک لسٹ میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا ملک پہلی مرتبہ 2008ء اور پھر 2012ء تا 2015ء کے دوران، اس میں شامل رہا۔ تاہم بروقت قانون سازی کے سبب 2015ء میں پاکستان اس گرے لسٹ سے خارج ہو گیا۔ جون 2018ء میں پاکستان تیسری مرتبہ گرے لسٹ میں آ گیا اور اس کے ساتھ ستائیس نکاتی ایکشن پلان اس وارننگ کے ساتھ دیا گیا ہے کہ ان نکات پر عملدرآمد نہ ہونے پر بلیک لسٹ کر دیا جائیگا۔ حکومت پاکستان نے اکتوبر2019میں 27میں سے پانچ نکات پر موثر طریقے سے عملدرآمد کیا ،اس کے ساتھ ،فیفٹ کی سفارشات کے مطابق ،فروری2020تک،مزید نونکات پر بخوبی عملدرآمدکرکے ،ستائیس میں سے چودہ نکات کی تکمیل کی ،جن میں منی لانڈرنگ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کو موثر بنانے کے لیے ضروری اقدامات ،قابل ذکر ہیں ،حکومت نے اکتوبر 2020ء میں ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے پندرہ نئے قوانین اور ضروری ترجیحات کا اہتمام کیا ہے ، اس بہترین حکمت عملی اور موثر پیش رفت کے نتیجے میں ستائیس میں سے 21نکات پر عملدرآمد کے سبب ،پاکستان کی کارکردگی بڑے پیمانے پر تعمیری قرار دیا جا رہا ہے ۔بہرحال یہ سب تو ذرا اوپر کی باتیں ہیں کہ رموز مملکت خویش خسرواں دانند تازہ ترین --- غیر سیاسی موضوعات میں ،اسکے ساتھ رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل نو کے ضمن میں اوقاف پنجاب کا وسیع ہوتا ہوا دائرہ کار وغیرہ بھی "ریٹنگ"میں کافی بہتر ہے۔ میزبانِ مکرم ،نو منتخب چیئرمین رویتِ ہلال اور راقم ---چونکہ "اوقافیئن" (AUQFIAN)ہیں ،اور پھرکم وبیش 30سال بعد ، اس منصب کا دوبارہ لاہور میں ورود ہوا ھے۔ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کے جد امجد حضرت مفتی اعظم محمدحسین نعیمی ؒ ،غالباً 1989-90میں جب اس منصب پر فروکش ہوئے ، تو ہم ان دنوں یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کے "ایمپرس روڈ "والے گھر میں چائے پر حاضر ہوئے تھے --- بہرحال احباب ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے لیے حق بجانب تھے۔تاہم ایک بات تو ہم سب کی طرف سے مْسلمہ ہے کہ حضرت مفتی اعظم منیب الرحمن صاحب ہمارے مشترکہ بزرگ ہیں ، اور ہمیں مختلف حوالوں سے ان کی ہمیشہ سرپرستی میسر رہی ،اور موجود ہ چیئرمین نے بھی اْن سے اپنی نیازی مندی کا اعادہ اور شرعی ودینی روایات کی پاسداری کے عزم کا اظہار کیاہے،جو کہ ایک مستحسن امر ہے، فواد چوہدری کی تائید اور مولانا پوپلزئی کی مشاورت سے آگے بڑھنے کا داعیہ اور جذبہ بھی ان کے اندر موجود ہے ، اور پھر تین روز قبل اس قدَر ٹھٹھری شام اور کْہر آلود شب میں جْمادیٰ الثانیہ کا چاند بخیر وعافیت ڈھونڈ نکالا ،ویسے ځجْمَادیٰ" بروزنِ مْنَادی ---جمود سے ہے ، جس کے معنی جمنے کے ہیں۔میرا وجدان یہی کہتا ہے ---بلکہ امرِ واقعہ بھی یقینا یہی ہوگا کہ جس زمانے میں ان قمری مہینوں کے نام رکھے گئے ہوں گے ، ان وقتوں میں سردی کی ایسی ہی شدت ہوگی ،جس سے پانی جَم جائے ، بلکہ --- ایسی ہی شدید سردی ---جیسی آج کل ہمارے ملک اوربالخصوص لاہور میں ہے۔ محض دو ہفتوں کی سردی نے ہی "کڑاکے"نکال دیئے ہیں ،سورج اوّل تو دیکھنے کو ملتا ہی نہیں ہے ، اور اگر ملتا ہے تو کچھ ٹھٹھرا ٹھٹھرا سا ،گرمیوں میں جس دھوپ کی شدّت سے بچنے کے لیے سائے کے متلاشی رہتے ہیں ، گذشتہ دنوں میں وہ اتنی کمیاب بلکہ نایا ب ---کہ ڈھونڈنے سے بھی میسر نہ ہو۔ زندگی بھی ایسی ہی دھوپ چھائوں کا معاملہ ہے --بہر حال ---عرب کی روایت میں اس شدید سردی کے سبب ان دونوں مہینوں کا نام "جْمادٰی"قرار پایا اور انہیں "اَ لاولی"اور اَ لاْخریٰ یا الثانیہ "کے ساتھ ، ایک دوسرے سے ممتاز رکھا گیا۔ جْمادٰی ---عربی لغت میں مونث ہے۔ اس لیے دونوں کی صفت الا ّولیٰ اور الاْ خریٰ یا الثاّ نِیۃَ ہوگی ،الاْخرٰی اور اَ لثَّانیۃ-دونوں کے معنی "دوسرا"کے ہیں۔ اس لیے جْمادٰی الاخریٰ یا جْمادی الثانیہ -دونوں طرح ہی درست اور دونوں ہی ہم معنی ہیں۔ اْردو میں جمادی الاوّل اور جمادی الثانی لکھا اور بولا جاتا ہے ،جوکہ درست نہ ہے۔