ماہِ رمضان المبارک کے اِن ایام میں "بدر"کی نسبتیں پوری تابشوں اور توانائیوں کے ساتھ جلوہ آرا ہو جاتی ہیں۔ بدر، مدینہ منورہ سے قریباً اسی میل ، (تقریباً120کلومیٹر) مغرب مائل بہ جنوب اس شاہراہ پر واقع ہے، جو زمانہ قدیم سے شام اور مکہ مکرمہ کے درمیان تجارتی قافلوں کا مرکز تھا، بحیرہ احمر کے ساحل سے اس مقام کا فاصلہ تقریباً15کلومیٹر ہے۔ دو روز قبل 17 ؍رمضان المبارک ، جمعہ کا سعید دن۔۔۔اور وہ بھی جمعۃ المبارک ہی کا روز تھا ، جب آج سے ٹھیک چودہ سو چالیس سال قبل، رسول اللہ ﷺ کے غلاموں نے، اپنے آقا ومولیٰ تاجدارِ ختمی مرتبت ﷺ کی قیادت وسیادت میں، عرب کی روایتی تہذیبی اقدار، پرانے تمدنی دھاروں اور سماج کی قدیم روایات کا رُخ موڑ کر ، اپنے خونِ جگر اور لہو کی تابشوں سے دنیائے محبت و مودت اور عقیدت و ارادت کو نئے باب اور عنوان عطا کیے ۔ عرب کی تہذیب اور کلچر میں فرد کی انفرادی زندگی بے وقعت و بے معنی تھی، اس کا مرنا جینا اپنے قبیلے ہی کے ساتھ تھا، قبیلہ راہِ راست پر ہو یا نہ ۔۔۔ سچائی کا راستہ اس کے مقدر میں ہے یا گمراہی کی دلدل۔۔۔ فرد اس کے ساتھ بندھا رہے گا۔ اس کی حیات کا چراغ صرف اس کے قبیلے کے ساتھ ہی تاباں اور توانا رہ سکتا ہے، لیکن یہ بدر کا معرکہ ہے کہ جہاں بندگانِ خدا نے اللہ کی توحید ، رسول کی اطاعت اور اسلام کی صداقت کا پرچم اس طرح سربلند کیا کہ بیٹا باپ کے مقابلے میں ہے۔ بھائی ، بھائی کے خلاف سر بکف اور چچا بھتیجے کے خلاف نبرد آزما، اور پھر جنگ کے اختتام پر ستر جنگی قیدیوں کے بارے میں مجلسِ مشاورت میںحضرت ابوبکر ؓ نے ان کو فدیے کے عوض رہائی کی تجویز دی جبکہ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ:"بخدا میں اس تجویز کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ میری رائے ابوبکرؓ کی رائے سے سراسر مختلف ہے، میری رائے یہ ہے کہ ہر قیدی کو اس کے مسلمان رشتہ دار کے حوالہ کیا جائے اور ہمیں حکم دیا جائے کہ ہم اپنے رشتہ دار کافروں کی گردنیں اڑا دیں کیونکہ یہی لوگ کفر کے پیشوا اور اس کے سردار ہیں۔ آج اگر ان کو تہ تیغ کر دیا جائے گا، تو آئندہ یہ اسلام کی ترقی میں مزاحم نہ ہوسکیں گے"۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے حکم سے ہجرت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے متبادل اور موزوں مقام عطا فرما دیا،آپﷺ نے مدینہ منورہ میں ابتداً چھ ماہ کے اندر "داخلی استحکام"کے لیے ضروری اقدامات فرمائے،مدینہ منورہ بھی کسی ریاستی نظم اور حکومتی اسلوب کا حامل نہیں تھا،آپ ﷺ نے سب سے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر فرما کر،گورنمنٹ ہاؤس،پارلیمنٹ،آرمی ہیڈکوارٹر،خانقاہ ، درسگاہ اور عبادتگاہ جیسی اساسی اور بنیادی ضروریات کا اہتمام فرمایا۔ اس کے بعد مدینہ سے آئے ہوئے مہاجرین اور انصار کو باہم "رشتۂ مواخات"میں آراستہ کر دیا اور اس کے ساتھ سب سے نمایاں اور اہم بات "مدینہ کا مشترکہ دفاع"یعنی اگر کوئی مدینہ پر حملہ آور ہو گا تو اس کا راستہ کیسے روکا جائے گا، اس کے لیے "میثاق مدینہ"جیسی تاریخ ساز دستاویز تشکیل فرما کر ابتدائی چھ ماہ داخلی امن و امان اور معاشرتی استحکام کی بنیادیں مضبوط فرما دیں۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے اردگرد بالخصوص اس معروف تجارتی شاہراہ کو توجہ کا مرکز بنایا جہاں ہمہ وقت "ٹریڈنگ"کے لیے کم و بیش دو ہزار اونٹوں پر مشتمل تجارتی کاررواں اور قافلے سرگرم عمل رہتے، مکہ والوں کی معیشت اور اقتصاد کا سب سے زیادہ اسی پر انحصار تھا۔ یہ تجارتی شاہراہ بحرِ احمر"Red Sea"کے ساتھ بدر سے ہو کر شام کی طرف جاتی۔ یہ مقام مدینہ سے محض اَسّی میل کی مسافت پر تھا،جس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی براہِ راست مانیٹرنگ کے لیے پٹرولنگ ٹیموں کی تشکیل فرمائی اور یوں آپ ﷺ نے براہِ راست خطّے کی سرحدی صورتحال کے جائزے کو یقینی بنایا،یہ علاقہ چونکہ خطّے کا اہم مقام تھا ، آپ ﷺ نے اس شاہراہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے اس کے اردگرد قبائل کے ساتھ دوستی اور بعض مقامات پر جنگی معاہدات کیے، جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ وہ قبائل یا تو مسلمانوں کے حلیف بن جائیں اور اگر بفرضِ محال اس بندھن میں بندھنا ان کے لیے مشکل ہے تو پھر خود کو غیر جانبدار رکھیں۔ دوسرا تجارتی راستہ یمن کا تھا،جو طائف سے ہو کر گزرتا ہے، ان راستوں کو بھی اسی پالیسی کے تحت خصوصی نگرانی میں رکھا گیا اور یوں مکہ والوں کی "تجارتی ناکہ بندی"کا بھرپور اہتمام عمل میں آیا۔ اسی طرح مختلف قبائل سے معاہدات کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ قریش خطّے میں بتدریج تنہا ہوتے گئے، غزوہ بدر سے پہلے آٹھ مہمیں وقوع پذیر ہوئیں ، جن میں غزوہ بدر کا فوری سبب ابو سفیان کا تجارتی قافلہ تھا، جس سے پچاس ہزار طلائی اشرفی کا منافع متوقع تھا، جس سے اہل مکہ اپنا "جنگی بجٹ"بڑھا ، مدینہ منورہ کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام کرنا چاہتے تھے ، ایسے امور کی ہمہ وقت مانیٹرنگ کا اہتمام نبی اکرم ﷺ نے فرما رکھا تھا۔ بنیادی طور پر 2؍ہجری، 12رمضان کو جب مدینہ منورہ سے مسلمان روانہ ہوئے تھے تو وہ کسی جنگی معرکے کے لیے نہیں، بلکہ ابو سفیان کے تجارتی قافلے کار استہ روکنے کے لیے نکلے تھے ۔ تجارتی قافلہ پر حملہ کے خدشے کے پیش نظر کفارِ مکہ، جو کہ طویل عرصے سے کسی موقع کی تلاش میں تھے، ابوجہل کی قیادت میں ایک ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ جس کی اطلاع صفراء کے مقام پر ، بذریعہ وحی رسول اکرم ﷺ کو موصول ہوئی اور ساتھ یہ بھی عندیہ دیا گیا کہ جنوب یعنی مکہ سے آنے والے لشکر اور شمال یعنی شام سے آنے والے تجارتی کاررواں۔۔۔ دونوں میں سے ایک پر فتح یابی عطا ہوگی۔ یہاں پر آپ ﷺ نے مشاورتی اجلاس طلب فرمایا، صحابہؓ نے اپنی جانثاری اور جاں سپاری کے حوالے سے تاریخی خطبات کہے۔ حضرت سعد بن معاذؓ عرض گذار ہوئے :"بے شک ہم آپ پر ایمان لے آئے ہیں ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے ہم نے گواہی دی ہے کہ جو دین لے کر آپ تشریف لائے ہیں وہ حق ہے۔ اور اس پر ہم نے آپ کے ساتھ وعدے کئے ہیں۔ اور ہم نے آپ کا حکم سننے اور اس کو بجالانے کے پکے پیمان باندھے ہیں۔ یا رسول اللہﷺ ! آپ تشریف لے جائیے جدھر آپ کا ارادہ ہے ہم حضور کے ساتھ ہیں اس ذات کی قسم ! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اگر آپ ہمیں سمندر کے سامنے لے جائیں اور خود اس میں داخل ہو جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگا دیں گے ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم اس بات کو ناپسند نہیں کرتے اگر آپ کل ہی دشمن کا مقابلہ کریں ۔ ہم جنگ کے گھمسان میں صبر کرنے والے ہیں دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم سچے ہیں، ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم سے وہ کارنامے دکھائے گا، جس سے آپ کی چشم مبارک ٹھنڈی ہو جائے گی۔ پس اللہ کی برکت پر آپ روانہ ہو جائیے "۔