لگ بھگ چالیس سال قبل زیرتعمیر مکان پر کھڑے لوہے کے تاجر سے اس کا بیٹا سیاست کے لئے مانگا گیا تھا۔ باپ ملتجی ہوا،’ یہی بیٹا تو کاروبار سنبھالتا ہے۔ البتہ ایک اور ہے ، حکم ہو تو پیش کروں۔ جونیجو حکومت برطرف ہوئی تو وزیرِ اعلیٰ مری سے لپک کر لاہور پہنچ گئے۔ دوسرے بر طرف ہونے والے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔ ایک سال بعد فوجی آمر کی قبر پر کھڑے ہوکر ان کامشن پورا کرنے کا عہددہرا رہے تھے۔ایجنسیاں بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے میں ناکام رہیں تو بھی انہیں کو میدان میں اتارا گیا۔پنجاب نے شستہ مزاج خاتون وزیرِ اعظم کو دواڑھائی سال زِچ کئے رکھا۔ بے نظیر کی حکومت بر طرف ہوئی تواقتدار نوجوان سیاستدان کو سونپا گیا۔قومی حساس معاملات ایوان صدر میں دیکھے جاتے۔ بتایا جاتا ہے کہ لا ابالی وزیراعظم یوں بھی پیچیدہ امور پرزیادہ دیر توجہ مرکوز نہیںرکھ پاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ’خاندان‘ کا کاروبار مگر دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب ’خاندان‘ ملکی نظام کی رگوں میں سرایت کرنا شروع کر چکا تھا۔ صرف جج اور صحافی ہی نہیں،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی چیف آف آرمی سٹاف کے علاوہ متعدد حاضر سروس جرنیلوں کو بھی مہنگی گاڑیوں اور دیگر مالی مراعات کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی گئی۔فوج میںترقیوں کے وقت آرمی چیف سے انہی’ساڈے بندوں ‘ کا خیال رکھنے کی فرمائش کی گئی ۔جاتی عمرہ میںکھانے کی میز پر جنرل کو بتایا گیا کہ وہ دونوں بھائیوں(بشمول ملک کے وزیرِ اعظم) کے بڑے بھائی ہیں۔ شکایت پیدا ہو تو والد صاحب دونوں کی گوشمالی کریں گے ۔(کئی سالوں بعد یہی بات اسی میز پرایک اورجنرل سے بھی بالکل ویسے ہی کہی گئی)۔ جنرل کاکڑ آرمی چیف بنے تو ایوان صدر سے مخاصمت کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک دن وزیرِاعظم ہائوس میں موجود آرمی چیف کو ایوانِ صدر طلب کیاگیا۔چیف رخصت ہوئے تو وزیرِ اعظم نے آئی ایس آئی سربراہ کو روک کر کہا، ’ ویکھنا ،اے دونویں پٹھان نیں۔تُسی ساڈا خیال رکھنا اے‘۔ اپنے اقتدار اور ذاتی مفاد کے لئے اداروں میں تقسیم کی کوششیںمحض آج کی بات نہیں ہے۔ دوسری بار حکومت میںلوٹے تو سپریم کورٹ کے نا موافق چیف جسٹس کو خود ان کے اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں گھر بھیج کر سنسنی پھیلا دی۔صدر کو بے دست و پا کرکے ایوان صدراس شخصیت کے حوالے کیا جن کا نام عدلیہ کی اسی بغاوت میںلیا جارہا تھا۔یہ دوسرا دورِ حکومت ہی تھا جب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے ٹیلی فون کالوں پر فیصلے لئے جاتے تھے۔ پولیس مقابلے ہوتے تھے۔ مخالفین کو بلیک میل کیا جاتا تھا۔ سرکاری املاک پرجرائم پیشہ گروہ سرکاری سر پرستی میںقابض ہو رہے تھے۔ سرکاری محکموں میںپیادے بھرتی ہو رہے تھے۔آرمی چیف نے ایک’اکیڈیمک ‘ فورم پر قومی سلامتی کمیٹی کی بات کی تو ان سے استعفی لے کربالآخر پورے نظام پر قبضے کا اعلان کیا گیا۔دوسری طرف دفترِ خارجہ کو بے خبر رکھتے ہوئے بھارتیوں کے ساتھ ذاتی مراسم گانٹھنے کے خفیہ عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔ صدر کلنٹن کی ایماء پر سلامتی کے اداروں کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے پیچیدگی سمجھے بغیر افغان پالیسی یکطرفہ طور پر بدلنے اور ایک خفیہ ٹاسک فورس کے ذریعے اسامہ بن لادن کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی وزیرِ اعظم کی ذاتی نگرانی میں ہو رہی تھی۔امریکی صدر سے ذاتی مراسم اسی دور میں استوار ہوئے تھے۔ سال 2013ء میں ہم نے ایک ناراض شخص کو اقتدار میں لوٹتے دیکھا۔مخصوص ایجنڈے کے تحت جنرل مشرف کا مقدمہ کھولا نہیں بلکہ اچھالنا شروع کیا گیا ۔ ایک میڈیا ہائوس سلامتی کے اداروں کو گھنٹوں بدنام کرتا رہا، حکومت ایک آنکھ موندھے کہیں سوتی رہی۔ تمام اداروں کی سفارشات کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے ،بیٹوں کو لے کر بھارت چلے گئے۔وہاں کشمیریوں سے نہیں،کاروباریوں سے ذاتی ملاقاتیں کرتے رہے۔ بھارت سے شخصی تعلقات پر مصر اور جانے مانے پاکستان مخالف عناصر سے خفیہ ملاقاتوں میں اپنے اداروں کے شاکی بتائے جاتے تھے۔ ’سیفما‘ والوں نے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دھرنے نے ادھ موا کیا، توسنبھلنے میں کچھ وقت لگا۔کچھ ہی عرصہ بعد ایک’ خاص‘ رپورٹر کے حوالے سے اخبار میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میںدو بڑے عسکری عہدیداروں کے مابین تلخ کلامی کی خبر چھپوائی گئی۔ ایک اورایسی ہی نہایت خفیہ میٹنگ کی روداد قومی اداروں کو بدنام کرنے کے لئے انگریزی اخبارکو لیک کی گئی۔ اب کی بار بات بگڑی توکچھ قربانیوں کے بدلے وزیرِ اعظم ہائوس کے ’میڈیا سیل‘ کو بچا لیا گیا ۔آسمان سے پانامہ اترا۔سپریم کورٹ سے سزا ہوئی ۔مافیاز پر یوں تو بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، بے شمار فلمیں بنی ہیں۔تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں’گاڈ فادر‘ نامی کتاب کا حوالہ لکھا ،تومعزز ججوں کے ذہن میں ضرور کوئی پسِ منظر ہو گا۔احتساب عدالت میں سزا سنانے والے مرحوم جج کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانی اور نیب کی تحویل سے نکل کرسیدھا لندن جانے تک کا سفر، دو ایسے موضوعات ہیں کہ جن پر فرینسس فورڈ کپولا کو الگ الگ فلمیں تخلیق کرنی چاہئیں۔ حال ہی میں ’خفیہ پیغام رسانی‘ کے نتیجے سے مایوس ہو کرجب سب کچھ جلا کر راکھ کر دینے کو آمادہ ہوئے تو پاکستان کے اندر موجود علیحدگی پسند سرداروں اور مغربی دارلحکومتوں میں مورچہ زن’ انڈین کرانیکلز ‘کے مہروںنے سب امیدیں باپ بیٹی سے وابستہ کر لیں۔صورتِ احوال اب یہ ہے کہ اگلے روز’پاکستان نہ کھپے‘ کی ہرزہ سرائی کرنے والاشخص بتا رہا تھا کہ’ صاحبِ عزیمت‘ ایک بار پھر انہی عالمی ’جمہوری طاقتوں‘ سے رابطے میں ہیں کہ جن سے 4 جولائی 99ء والے دن تنہائی میں ملنے کو بے چین تھے۔چالیس سال پہلے سریئے کے ڈھیر پر ڈاکٹر فرینکنسٹائن کے جس بھوت میں زندگی پھونکی گئی تھی، اداروں کو اس کے ہاتھوںآج اپنی عزت بچانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت آن پڑی ہے۔ لوہے کے تاجر کی تیسری نسل اب بھی خود کو ’حکمران خاندان ‘ سمجھتی ہے۔شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوکہ ایک ریاست کو کسی ایک خاندان نے چالیس سال یوں یرغمال بنائے رکھا ہو۔