دولت کی فراوانی، وسائل پیداوار کی ترقی اور حیرت انگیز معاشی ارتقاء کے باوجود انسانیت آج جس غربت و ناداری، بے کاری اور بے روزگاری،معاشی لوٹ کھسوٹ او رمعاشرتی ظلم و ناانصافی سے دوچار ہے،وہ اپنی مثال آپ ہے۔اگر فقر و فاقہ کا علاج اور افلاس و ناداری کا مداوا محض دولت کی فراوانی اور وسائل پیداوار کی ترقی سے ہو سکتا تو بلاشبہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں کسی کو بھی غریب و مفلس اور بھوکا ننگا نہیں ہونا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہیں ہے۔معاشی ارتقاء اور وسائل پیداوار کی محیر العقول ترقی کے باوجود ہر جگہ غربت و افلاس کا دور دورہ ہے،اور رات کو بھوکے سو رہنے والوں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ گھٹ نہیں رہی ہے،بلکہ بڑھ رہی ہے۔یہ فطرت کی ظالمانہ تعزیز نہیں ہے،بلکہ مروجہ معاشرتی نظام کا حصہ اور لازمی نتیجہ ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس کے پاس تمام مسائل حیات کا شائستہ اور قابل قبول حل موجود ہے۔ وہ عالم انسانیت کے اقتصادی پہلو پر خصوصی توجہ دیتا ہے کہ اسی سے سلسلہ حیات وابستہ ہے۔اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ سے جہاں انسان کی ذہنی اور روحانی کائنات میں چراغاں کیا، وہاں معاشی اعتبار سے بھی باوقار زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔اقتصادیات یا اکنامکس کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ افراد قوم میں بلحاظ فقر و غنا کیوں کر ایک تناسب و توازن قائم کیا جائے۔عہد قدیم سے لے کر آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقدہ کی گرہ کشائی نہ کر سکا۔کسی نے یہ رائے دی کہ جملہ املاک پر مساوی حق تصرف اور یکساں حق ملکیت تسلیم کیا جائے۔دورِجدید کے ماہرین معاشیات نے یہ حل پیش کیا کہ ملک کی تمام دولت پر حکمران پارٹی کا قبضہ ہو اور وہ لوگوں کو قوت لایموت مہیا کرنے کی ذمہ داری قبول کرے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ عوام انفرادی اور شخصی ملکیت سے دستبردار ہو جائیں۔ آج کل ترقی یافتہ ممالک،ترقی پذیر ممالک میں کروڑوں ڈالر اس بات پر صرف کر رہے ہیں کہ جو آ چکے سو آ چکے،اب آنے والوں پر دنیا کا دروازہ بند کر دیا جائے۔قرآن حکیم نے ایک نئی راہ متعین کی۔اس نے کہا کہ مساوات کا یہ مصنوعی خیال محال اور خلاف فطرت انسانی ہے،اس لیے کہ’’اور دیکھو اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میںفضیلت عطا کی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس اہم انسانی مسئلے کو یوں حل فرمایا کہ غریبوں کی خاطر امیروں پر ٹیکس لگایا اور اس کا نام ’’زکوٰۃ‘‘ رکھا، اور اسے دین کا تیسرا رکن بنایا اور عبادت کا درجہ دیا۔ اور اس کی وصولیابی میں اور اس کے خرچ کرنے کی جگہوں میں ایسے عدل اور نظام کی بنیادیں قائم کیں کہ جن کی مثال موجودہ دور کے کسی بھی مذہب اور فکر میں نہیں ملتی۔ کیونکہ زکوٰۃ اس قسم کا کوئی ٹیکس نہیں ہے جو آج کل حکومتیں اپنی رعایا سے وصول کرتی ہیں کیونکہ اس قسم کے جتنے ٹیکس عوام سے وصول کیے جاتے ہیں وہ ان منافع اور فوائد کے معاوضہ میںلیے جاتے ہیں جو عوام کو حکومت کی سرپرستی سے حاصل ہوئے ہیں،لیکن زکوٰۃ وہ ٹیکس ہے جو محض غیر مستطیع افراد کی مالی اعانت کے لیے وصول کیا جاتا ہے اور اس کے معاوضہ میں محصول دہندہ گان کو کوئی دوسرا فائدہ کسی اور شکل میں نہیں ہوتا۔ فرضیت زکوٰۃ میں اسلام نے کن مصالح کا لحاظ رکھا ہے؟ شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:تشریح زکوٰۃ میں بڑی بڑی دو مصلحتیں مضمر ہیں۔ ایک کا تال تزکیہ نفس ہے، وہ یہ کہ انسان کی اصل جبلت میں حرص اور بخل و دیعت رکھے گئے ہیں۔اور تم جانتے ہو کہ بخل ایک قبیح ترین خلق ہے جس سے انسان معاد میں متضرر ہوتا ہے۔ جس میں بخل نے جڑ پکڑ لی ہو وہ جب مرتا ہے تو اس کا دل مال و دولت کے ساتھ وابستہ اور اس کی طرف نگران رہتا ہے۔ یہی بات اس کے لیے عذاب کا موجب ہوتی ہے،جب آدمی زکوٰۃ دینے کی مشق و تمرین کرتا ہے اور اس کا خوگر ہو جاتا ہے تو اس سے اس کا نفس رذیلہ بخل سے پاک ہو جاتا ہے۔یہ بات انسان کے لیے آخرت میں نہایت مفید ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے ہر وقت جھکے رہنے کے بعد جس کو شرع کی زبان میں اخبات کہتے ہیں دوسرے درجے پر سماحت یا سخاوت نفس آخرت میں نافع ترین چیز ہے۔ جس طرح اخبات کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان میں ’’تطلع الی الجبروت‘‘ (بارگاہ اقدس کی طرف نگران رہنا) کی صفت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح سخاوت نفس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی عالم ماوی کے خسیس علائق سے نجات حاصل کر لیتا ہے چونکہ سخاوت کی حقیقت یہ ہے کہ ملکیت غالب ہو اور بہیمیت مقہورو مغلوب ہو کر رہ جائے اس کا رنگ قبول کر لے اور اس کے احکام کی خوشی سے تعمیل کرے۔ اس ملکہ کو پرورش دینے اور تقویت پہنچانے کی تدبیر یہ ہے کہ ایسی حالت میں جبکہ آدمی خود مال و دولت کا محتاج ہو اس کو مصارف خیرمیں خرچ کرے، جو کوئی اس پر زیادتی کرے اس کو معاف کر دیا کرے، مکروہات دنیاوی اور شدائد کے پیش آنے پر صبر کو اپنا شیوہ بنا لے،خوشی سے ان تکالیف کو برداشت کرے اور آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے عالم ماوی کے واقعات اور حوادث کو پرکاہ کے برابر وقت نہ دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بموقع ان سب باتوں کا حکم دیا ،اس کی حدود وغیرہ بیان کی ہیں اور اس کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے کلام مجید اور احادیث نبویہ میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں اس کا ذکر ایمان کے ساتھ آیا ہے۔ اہل نار سے جب کہا جائے گا کہ کس چیز نے تم کو آگ میں جھونکا؟ ان کا جواب یہ ہو کہ ’’ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور یاوا گوئی کرنے والوں کے ساتھ یاواگوئی میں شریک رہتے تھے‘‘۔ دوسری مصلحت جس پر تشریح زکوٰۃ مبنی ہے اس کا تال نظام مدنیت کا بہتر طریقہ پر قائم رکھنا ہے۔اسکی تشریح یہ ہے کہ مدنیت خواہ کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہو کمزور اور اپاہج اشخاص اور ارباب حاجت غریبوں،مسکینوں پر مشتمل ہوتی ہے۔نیز حوادث اور آفات سماوی و ارضی کا ہر ایک قوم کسی نہ کسی صورت میں نشانہ بنتی ہے۔بنا بر یں اگر اس بات کا التزام نہ ہو کہ غریبوں،مسکینوں اور ارباب حاجت کی دستگیری کی جائے تو اس کا نتیجہ قوم کی ہلاکت ہو گا۔ ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ تمدن کا نظام اس حیثیت بھی قوم کی مالی اعانت کا محتاج ہے کہ اس کو بہتر طریقہ پر قائم رکھنے کے لیے مختلف قسم کے عہدہ داروں اور مدبرین کی ضرورت ہے اور چونکہ ان لوگوں کی زندگی قوم کی فلاح و بہبود اور ان کی ضروریات کا انتظام کرنے کے لیے وقف ہوتی ہے اس لیے یہ نہایت ضروری اور امر معقول ہے کہ ان کی وجہ کفاف اور ان کے روزینہ کا بوجھ بیت المال پر ہو، جو زکوٰۃ اور صدقات ہی کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس قسم کے ٹیکس (اس سے ہماری مراد عشر اور زکوٰۃ ہے) جو قوم کی مشترکہ اغراض کے لیے ان پر عائد کیے جاتے ہیں۔ چونکہ ان کا باقاعدہ ادا کرنا بعض کے لیے دشوار اور بعض کے لیے ناممکن ہوتا ہے اس لیے یہ ضروری قرار پایا کہ آنحضرتﷺ نے یہ سنت قائم کی کہ ان کے وصول کرنے کا اہتمام حکومت کیا کرے۔چونکہ ان دونوں مذکورہ مصلحتوں کے حصول کا آسان ترین طریقہ یہی تھا کہ دونوں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جائے لہٰذا شرع نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ (جاری ہے)