رشید آباد کی طرف سے شاہ شمس روڈ پر اتریں تو تھوڑی دیر بعد دونوں جانب فیلڈ مارشل کے ون یونٹ کی یادگار، ملتان کی وحدت کالونی شروع ہوجاتی ہے۔ الٹے ہاتھ پر جو دوسرا گیٹ ہے اس سے میں گھر کو آنے کے لئے مڑا کرتا ہوں۔ واضح ہو کہ قریب ربع صدی سکونت یہاں سے موقوف رہی، تاہم میرا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ابتدائی ایام یہیں گزرے. تب یہ گیٹ نہیں لگے تھے مگر ہمارا راستہ یہی تھا۔ خیر! اس گیٹ میں داخل ہونے کو مڑتا ہوں تو گیٹ کے داہنی طرف فٹ پاتھ پر ایک لال رنگ کا اداس سا لیٹر باکس مجھے روز نظر آتا ہے۔ اس کو دیکھ کے لمحے بھر کو میں بھی ملول سا ہوجاتا ہوں۔ پچھلے اٹھائیس برس میں اس لیٹر باکس کا سائز بڑھ گیا ہے، نصب ہونے کو اسے جگہ بھی بہتر میسر آگئی ہے، رنگ و روغن بھی بہتر ہوا ہے مگر اس کا پیٹ خالی ہوگیا ہے۔ پیٹ خالی ہو تو خوش پوشاکی اور خوش مکانی چہ معنی؟ یادش بخیر! میرے لڑکپن کے دنوں میں اسی موڑ پر بائیں جانب سڑک پہ جھکی ایک ٹاہلی کھڑی رہتی تھی جس کے تنے پر ایک بدرنگا اور سائز میں کہیں چھوٹا لمبوترا سا لیٹر باکس لٹکا ہوتا تھا۔ اس کو کھول کر ڈاک نکالنے کی کھڑکی بھی امتدادِ زمانہ سے ٹیڑھی میڑھی ہوچکی تھی۔ یہ لیٹر باکس خطوں سے ٹھسا ٹھس بھرا ہوتا اور پوسٹ کئے گئے نیلے لفافے ٹیڑھے کناروں والی کھڑکی سے جھانک رہے ہوتے۔ ڈر رہتا کہ کوئی من چلا خط نکال نہ لے جائے۔ لیٹر باکس کے دہن میں ٹھونس ٹھونس کر لفافہ ڈالنا پڑتا۔ اس بدرنگے لیٹر باکس کے ذریعے میرے کتنے ہی خط، کہانیاں، چچا جان (ایڈیٹر بچوں کا ایڈیشن) کے نام خط، لطائف، مضامین، فیچر لے کر امروز، نوائے وقت، تعلیم و تربیت، پھول، فیملی میگزین اور دیگر جرائد کے ایڈیٹروں تک پہنچے۔ قلمی دوستی کے بے شمار خطوط اسی لیٹر باکس کے ذریعے پوسٹ ہوئے۔ پہلے بھی کہیں عرض کیا تھا کہ ایک زمانہ اِس کالم نگار پر ایسا گزرا ہے کہ روزانہ پندرہ بیس خطوط وصول کرتا اور ان کے جوابات لکھتا۔ بچپن میں کوئی کھیل کھیلا ہو تو پتہ نہیں مگر لڑکپن میں میرا حافظہ خود کو گلیوں، سڑکوں، باغوں کے کسی کھیل میں شریک نہیں پاتا۔ میرا واحد مشغلہ تب بھی کتابیں، رسائل، جرائد پڑھنا اور ان میں تحریریں بھیجنا، دوپہروں کو بیٹھ کر قلمی دوستی کے خط لکھنا/پڑھنا ہوا کرتا تھا۔ ایک وقت میں میری ڈاک اتنی زیادہ ہوگئی کہ اباجی ناراض ہوتے۔ سو میں نے واپسی پتہ گھر کے بجائے شاہ شمس روڈ پر ایک میڈیکل سٹور کا دینا شروع کردیا۔ رمضان کے دنوں میں عید کارڈ خریدنے کے لئے مالی وسائل مہیا کرنے کا اسی طرح "وَختہ" پڑ جاتا جیسے پچھلے دو سال سے وزیراعظم کو پڑا ہوا ہے۔ قلمی دوستوں کی طویل فہرست پھر مقامی دوست اور کزنز وغیرہ، سب کے لئے کارڈ خریدنا ہوتے۔ ان پر ڈاک ٹکٹ لگانے کا خرچ الگ۔ رمضان کے پہلے دن سے ہی گھنٹہ گھر کی عمارت کے مغربی جانب جو دس بارہ کتابوں کی دکانیں ہیں، ان کے آگے لمبے لمبے سٹال عید کارڈوں کے لگ جاتے جہاں دو روپے سے لے کر پندرہ روپے مالیت تک کے عید کارڈ سجے ہوتے۔ گلی محلے کی دکانوں پر تو ایک روپے والا کارڈ بھی مل جایا کرتا تھا۔ کیا دن تھے، سہیلیاں، سکھیاں اک دوجے کو مہندی، چوڑیاں، سویاں تحفے میں دیتیں تو ساتھ میں یہی ایک دو روپے والا کارڈ بھی ہوتا جس پر کئی رنگوں سے اشعار اور نیک خواہشات رقم کی جاتیں. ٹیکنالوجی نے سب ہڑپ لیا۔ "اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے" بہرحال میں ایک فہرست بناتا کہ کون کون ہیں جنہیں دو روپے والا کارڈ جائے گا، کن کو تین، پانچ والا اور وہ ایک دو خوش نصیب کون ہوں گے جن کے لئے دس، بارہ یا پندرہ روپے والا کارڈ خریدنا ہوگا۔ پھر اس کے مطابق بجٹ ارینج کیا جاتا۔ بڑی محبت اور محنت کے ساتھ ایک ایک کارڈ لکھ کر لفافہ بند کیا جاتا. رشید آباد والے ڈاک خانے سے لائے ہوئے پچیس/ چالیس پیسے والے ٹکٹ کی چسپاندگی ہوتی۔ یہ پلندہ تیار ہوجاتا تو میں اس بدرنگے لیٹر باکس کو لفٹ نہ کرواتا کہ اس کا دہن چھوٹا تھا جس میں ڈالتے ہوئے کارڈ مْڑ تْڑ جاتا تھا۔ رشید آباد ڈاک خانے کے باہر لگے بڑے لیٹر باکس میں یہ کارڈ پوسٹ کرنے جاتا۔ یہ ڈاک خانہ کبھی اپنی عمارت نہ پا سکا۔ تب بھی رشید آباد سے عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے ایک دکان میں ہوا کرتا تھا، اب بھی ریواڑی محلہ کی ایک دکان میں ہے۔ کبھی ڈاک خانے کا کوئی اہل کار مجھے اتنی ساری تعداد میں کارڈ پوسٹ کرتے دیکھ لیتا تو کہتا میاں مجھے پکڑا دو میں مہر لگا کر روانہ کردیتا ہوں۔ کارڈ بادل ناخواستہ اسے دینا پڑ جاتے مگر مجھے بیچینی سی رہتی۔ وہ تسلی نہ ہوتی جو اپنے ہاتھ سے لفافے لیٹر باکس میں ڈال کر ہوا کرتی۔ وہ ٹاہلی نہیں رہی، اس پر لٹکا ہوا وہ بدرنگا لمبوترا، ٹوٹی کھڑکی اور بھرے پیٹ والا لیٹر باکس بھی نہیں رہا۔ اس کی جگہ چوکور اور سڈول لیٹر باکس بڑے وقار سے فٹ پاتھ پر کھڑا ہے، اس کا دہن بھی کھلا ہے مگر پچھلے چار برس سے، کہ دوبارہ اس بستی کا مکیں ہوا ہوں، میں نے کبھی کسی کو اس کے منہ میں خط ڈالتے نہیں دیکھا۔ اجل رسیدہ ہوچکی ریاستوں کے نوابوں کی اولاد کی مانند یہ لیٹر باکس اجلے لباس کے پیچھے خالی پیٹ ہے۔ اب تو محکمہ ڈاک نے لفافے کی قیمت بیس روپے کردی ہے، بیس پیسے بھی رہتی تو خطوط نویسی کا عالم یہی ہوتا جو اَب ہے۔ ایک روایت تھی کہ ختم ہوئی۔ وہ کارڈ اور خط جو بھیجنے والے کے لمس کی خوشبو لئے ہوتے تھے، اب بے روح اور بے لمس برقی پیغامات میں بدل گئے ہیں۔ تاہم ٹاہلی نہیں رہی، شکستہ لیٹر باکس نہیں رہا، عید کارڈ اور خط نہیں رہے تو کیا ہوا۔ میرا لڑکپن بھی تو نہیں رہا، جوانی بھی تو وقت کے غبار میں گم ہوگئی اور اب کچھ راہ پر بڑھاپے کی دہلیز دکھائی دیتی ہے۔ ہر آغاز کا اختتام ہے۔ ہر ابتدا، انجام آشنا ہوا کرتی ہے۔ روائتیں بنتی اسی لئے ہیں کہ اک روز گل سڑ جائیں اور ان کی راکھ پر نئی روائتیں اپنی بنیاد رکھیں۔ "ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں"۔ رہے گا تو بس میرے اللہ کا نام۔