قومی اور بین الاقوامی اقتصادی اشاریوں کے مطابق پاکستان کی معیشت بتدریج بہتری کی جانب رواں دواں ہے لیکن اس کی مکمل بحالی میں ابھی وقت لگے گا۔ حکومت کا پہلا سال تو یہ دیکھنے میں گزر گیا کہ پچھلی حکومتوں نے جو قرضے لیے انہیں واپس کیسے کیا جائے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا لیکن حکومت نے کسی نہ کسی طرح قرضے واپس بھی کئے اور ملک بھی چلایا لیکن اس دوران معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے۔مہنگائی بڑھی‘ مزید قرضے لئے گئے، یہی وجہ تھی کہ ٹیکس کے جو اہداف رکھے گئے تھے وہ پورے نہ ہو سکے۔ دوسرے برس کی تیسری سہ ماہی میں کورونا وائرس آ گیا اور کورونا کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی معیشت پر برے اثرات پڑے ۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی معیشت جتنی نیچے جانی تھی، جا چکی ۔ اب ٹیک آف کر چکی ہے اور مزید بہتری کی طرف ہی جائے گی۔ گو کہ عام آدمی کو معاشی اشاریوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی ‘ انہیں تو روز مرہ کی استعمال کی چیزوں سے غرض ہے کہ آٹا‘ چینی‘ گھی‘سبزی، دالیں ان کی پہنچ میں ہیں تو ملک ٹھیک ہے، اگر بنیادی استعمال کی چیزیں مہنگی ہیں تو وہ حکومت کو ناکام سمجھتے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئی تو 30کھرب روپے کا قرضہ ورثے میں ملا ،ملک کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لئے 24ارب ڈالر کے قرضے لئے ‘جس میں 2ارب ڈالر عبوری حکومت نے لئے۔ بیرونی قرضوں کی مد میں گزشتہ دور حکومت میں ہر سال ساڑھے 5ارب ڈالر کی شرح سے قرضے واپس کئے جاتے تھے لیکن عمران حکومت ہر سال 10ارب ڈالر کے حساب سے قرضے واپس کر رہی ہے۔ 2019ئمیں حکومتی قرضوں میں 7.7کھرب روپے کا اضافہ ہوا جس کی بڑی وجہ روپے کی حقیقی قدر کو بحال کرنا تھا۔ کورونا کی وجہ سے تقریباً ایک کھرب روپے کی آمدن متاثر ہوئی، 2.1کھرب روپے ماضی کی حکومتوں کی جانب سے لئے گئے۔ قرضوں کی قسطیں ادا کرنے میں صرف ہوئے ایک کھرب روپے کیش بوفرکے طور پر رکھے گئے۔ 2020ء میں یہ اضافہ کم ہو کر 3.5کھرب رہ گیا۔ پرائمری خسارہ 2019ء میں 1.5کھرب تھا جو کم ہو کر 2020ء میں ایک کھرب رہ گیا۔2018ء میں گردشی قرضہ 450ارب روپے تھا‘ حکومت کے مطابق اگر اقدامات نہ کئے جاتے تو یہ خسارہ 853ارب روپے اور 2023ء میں یہ خسارہ 1610ارب روپے ہو جاتا۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے یہ خسارہ 853کی بجائے 300ارب روپے کم ہو کر 553ارب روپے رہ جائے گا۔ دوسری جانب مہنگی بجلی کو سستا کرنے کے لئے حکومت اقدامات کر رہی ہے جن میں آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں بتایا جا رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں بجلی سستی ہو گی۔ بجلی سستی ہونے سے جہاں عام عوام کو فائدہ ہو گا وہاں انڈسٹری کو بڑا فائدہ ہو گا‘ انڈسٹری چلے گی روزگار بڑھے گا ‘اسی طرح ریٹرن آن ایکویٹی کو ریشنلائز کرنے اور کم کارکردگی والے پاور پلانٹ کو بند کرنے ‘سبسڈی کے نظام کو بہتر بنانے سے حکومت کو 620ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔ حکومت پن بجلی کی پیداوار پر توجہ دے رہی ہے۔ بھاشا دیامر‘ مہمند اور دیگر ڈیمز کی تعمیر سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی جس کی قیمت تین ساڑھے تین روپے فی یونٹ ہو گی جبکہ تھرمل بجلی کی قیمت اٹھارہ روپے فی یونٹ ہے۔ پوری دنیا اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ امریکہ، جاپان، بھارت، چین سمیت پوری دنیا کی سٹاک مارکیٹ بیٹھی ہوئی ہیں‘ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان نے دوسرے ملکوں کی نسبت کورونا پر قابو پایا اور اپنی معیشت کو بند نہیں کیا ‘یوں پاکستان کو کم نقصان برداشت کرنا پڑا۔ حکومت معیشت کی بہتری کے لئے کئی اقدامات کر رہی ہے‘ جن میں کنسٹرکشن کا کاروبار سرفہرست ہے، اس کاروبار سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے تو 40انڈسٹریز کو فائدہ پہنچے گا۔ دنیا کے برعکس پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ بہتر پرفارم کر رہی ہے وہ مارکیٹ جو کورونا کے دنوں میں 30‘32ہزار پر رہتی تھی اب بڑھ کر 41ہزار تک پہنچ گئی ہے اور اس میں مزید بہتری آ رہی ہے۔ حکومت نے معاشرے کے غریب ترین اور کمزور طبقات کی مدد اور انہیں خوشحال بنانے کے لئے احساس پروگرام شروع کیا‘ جس کے تحت ایک کروڑ 28لاکھ گھرانوں کو فی گھرانہ 12ہزار روپے دیے گئے۔ عمران خان چین کی تقلید کرتے ہوئے غریبوں کو غربت سے نکالنے کے لئے کوشاں ہیں، معاشرے کے کمزور طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے، تعلیم کے فروغ اور انسانی و قدرتی وسائل کے بہتر استعمال پر زور دیتے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لئے آسان شرائط پر قرضے دیے جا رہے ہیں۔ ان قرضوں سے نوجوان اپنا روزگار خود پیدا کرینگے۔ اس سے بھی لاکھوں گھرانے غربت سے نکل سکتے ہیں۔21سے 45سال کی عمر کے شہری اس سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن یہ سکیم ابھی تک تاخیر کا شکار ہے‘ اس میں جو رکاوٹیں ہیں حکومت کو انہیں جلد سے جلد دور کرنا چاہیے۔پاکستانی کئی برس سے سن رہے ہیں کہ 65ارب ڈالر کی مالیت کا سی پیک منصوبہ گیم چینجر ہے‘ جو پاکستان کی معاشی صورتحال بدل دے گا لیکن اپوزیشن کا خیال ہے کہ عمران حکومت اس منصوبے کو مکمل نہیں کرنا چاہتی ‘اس پر کام روک دیا گیا جبکہ شکئی‘ دھابیجی اور فیصل آباد میں اکنامک زون بننے تھے اور یہ منصوبے جون 2019ء میں مکمل ہونے تھے لیکن ابھی تک ان منصوبوں پر کام شروع نہیں ہوا۔ سی پیک میں 15زون طے ہوئے تھے، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف سڑکیں بنانے سے کام نہیں چلے گا اگر ان سڑکوں کے ساتھ اکنامک زون نہیں بنیں گے تو یہ صرف سفری سہولت ہو گی۔ صنعتی اور تجارتی مراکز بننے سے نہ صرف زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ معاشی ترقی بھی ہو گی۔ سی پیک سے ابھی تک 2فوائد حاصل ہوئے ہیں ۔ایک بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور دوسرا سڑکیں۔ اقتصادی پارکس بننے باقی ہیں‘ جو اصل گیم چینجر ہونگے۔ گوادر پورٹ مکمل ہو چکی لیکن اسے مکمل فنکشنل ہونے میں کچھ وقت لگے گا اور اس سے پاکستان سالانہ 10ارب ڈالر کما سکے گا۔سی پیک کا ہی ایک بڑا ہدف پشاور سے کراچی تک ریلوے لائن بچھانا ہے۔ یہ بھی ایک گیم چینجر ثابت ہو گی لیکن یہ منصوبہ بھی تاخیر کا شکار منصوبہ مکمل ہو جائے تو ملک بھر میں معاشی سرگرمیاں تیز ہو جائیں گی۔ ایم ایل ون کی گرائونڈ بریکنگ فروری 2021ء میں کرنے کی تیاریاں ہیں۔ مگر یہ ساری ترقی، یہ سارے منصوبے اور سارے حکومتی دعوے اس وقت تک بیکار ہیں جب تک عام آدمی کی روٹی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، پنجابی میں کہتے ہیں ’’پیٹ نہ پیاں روٹیاں تے سبھو گلاں کھوٹیاں‘‘۔