باب العلم حضرت علیؓ کے پاس سات یہودی آئے۔ کہنے لگے علم بہتر ہے یا دولت ؟اس کا جواب درکار ہے۔ مگر ہم میں سے ہر ایک کو مختلف جواب درکار ہے۔ آپ نے ساتوں کو مختلف جواب دیئے۔ علم انبیاء کی میراث ہے، دولت فرعون اور ہامان کا ترکہ۔ علم خرچنے سے بڑھتا ہے اور دولت کم ہوتی ہے۔ یہ سات کے سات جوابات باکمال ہیں۔ علم کیا ہوتا ہے؟ اس پر ایک سے زیادہ آراء موجود ہیں۔ ایک سے ایک سو اسّی ڈگری تک۔ کیا علم صرف معلومات کا نام ہے؟ زندگی کے فہم کا نام ہے؟ خالق اور بندے کے مابین تعلق کے سمجھنے کو علم کہتے ہیں؟ علم نافع اور غیر نافع کیا ہوتا ہے؟ جدید سائنس بھی علم ہے اور ایجادات بھی۔آج بات کرنا چاہتا ہوں علم، تعلم، تعلیم اور اُستاد کی۔ چند دن پہلے ٹیچرز ڈے تھا۔ ہرسال ہی ہوتا ہے مگر زمانوں اور زمینوں میں ہم رہتے ہیں وہاں ٹیچر کیا ہے اورکہاں کھڑا ہے؟ ٹیچر شاید پاکستان میں ترجیحات کی فہرست میں وہی مقام رکھتا ہے جو مقام ہم بطور معاشرہ علم کو دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ٹیچرز ڈے پر ایک کلپ دیکھا۔ جرمنی میں اساتذہ کو سب سے زیادہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں ججز، ڈاکٹرز اور انجینئرز(شکر ہے بیوروکریسی نہیں ) نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کردیا۔ بات جرمنی کے چانسلر تک پہنچی تو جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے جو جواب دیا وہ تمام معاشروں کے لیے ہے مگر خاص طور پر ہم جیسے لوگوں کے لیے ہے۔ ’’میں آپ لو گوں کو ان کے برابر کیسے کردوں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا‘‘۔ اسی جملے کو سر کے بل زمین پر کھڑا کردیں۔ یہاں ٹیچر کے متعلق ہمارے حکمران اور بیورو کریٹ پالیسی بناتے ہوئے، ترجیحات طے کرتے ہوئے، بجٹ مختص کرتے ہوئے، گاڑی، گھر، الائونس کا تعین کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اے ٹیچر! میں تمہیں ان لوگوں کے برابر کیسے کردوں جنہیں پڑھا کر تم نے اس مقام تک پہنچایا ہے‘‘۔ شاید اسی لیے خوبصورت شاعر حسن نثار صاحب نے کبھی کہا تھا ؎ شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں کافی ہیں اُلٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائے دے گا آپ گائوں میں پروفیسر کے طور پر تعینات ہوجائیں۔ وہاں کا ایم پی اے، مجسٹریٹ، تحصیلدار، تھانیدار، چوہدری اور پٹواری آپ کو کیسے دیکھے گا؟ کیسے مخاطب کرے گا؟ ’’اوے وڈے ماسٹر صاحب آئے نیں … چاء لیا‘‘۔ گائوں شہروںکی پرانی شکل ہوتے ہیں۔ وہاں قاری، ماسٹر اور وڈا ماسٹر فار گرانٹڈ لیے جاتے ہیں۔ ایک ڈاکومنٹری میں ایک ماسٹر ایک ٹریفک اشارے پر رکتا ہے اور روزنامہ مچھر کا کرائم رپورٹر بھی۔ ماسٹر کی موٹر سائیکل کی نمبر پلیٹ سامنے سے تھوڑی سی شکستہ ہے۔ روزنامہ مچھر والے کی نمبر پلیٹ پر گرین زمین کے ساتھ روزنامہ مچھر لکھا ہے۔ ماسٹر جی کو روک لیا جاتا ہے اور رپورٹر صاحب گزر جاتے ہیں۔ کانسٹیبل ماسٹر سے مخاطب ہوتا ہے ’’ماسٹر صاحب تہاڈا بڑا احترام کری دا اے، پر قنون دا احترام سب توں پہلے، سر جی‘‘۔ وہ سب جو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں کیوں ٹیچر نہیں بننا چاہتے؟اگر کچھ کو یہ آئیڈیل پالنے کا شوق ہوتا بھی ہے تو پریکٹیکل لائف کی دھوپ اور تمازت میں یہ سپنا آئس کریم کی طرح ’’کھُر‘‘ سا جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ تمام راستے طاقت، دولت، عزت، جاہ، مرتبہ، سیلوٹ، سلام، پروٹوکول کس سمت میں بہہ رہے ہیں۔ سیاستدان، بیورکریٹس، میڈیا اور وہ جو بہت ہی متبرک ہیں۔ یا پھر دولت کا مقناطیس طاقت کو کھینچ رہا ہے اور طاقت کا لوہا دولت کے مقناطیس کو۔ ایسے میں بہترین دماغ، دانش سے آراستہ برین اُن شعبوں کا انتخاب کرتا ہے جہاں اسے تحفظ حاصل ہو۔ معاشی بھی اور معاشرتی بھی۔ وہ سب جو اچھی پوزیشن لیتے ہیں اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں، ان سے سوال کرو کہ آپ ٹیچر کیوں نہیں بننا چاہتے؟وہ کہتے ہیں یہ معاشرہ نہیں جنگل ہے۔ قانون محض ’’قنون‘‘ ہے۔ ویسے تو ہر معاشرے میں قوانین ’’ماڑے‘‘ کے لیے نہیں ’’تگڑے‘‘ کے لیے بنائے جاتے ہیں مگر کئی دھرتیاں گند اور لاقانونیت میں اتنا آگے بڑھ جاتی ہیں کہ بس ’’جو چلے تو جان سے گزر گئے‘‘۔ جنگل کا قانون … جنگل جیسے معاشرے۔ جانوروں سے رویے … جبلتوں کا راج … شر افت کا مذاق … اخلاقیات کمزور… انسانیت بیوقوفی … مذہب کا لبادہ اور ریاکاری … سیاست کاروبار … سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ… لفظ قید … درویشی عیاری ہو تو ایسے میں سلام ٹیچر۔ ٹیچر کا مقام … اُستاد کا رتبہ … ماسٹر جی کی عزت … پروفیسر کی حرمت … علم کی برکت سب لفظ برائے لفظ یا لفظ برائے طنز … حرمت برائے مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ اگر علم انبیاء کی میراث ہے، دولت فرعون اور ہامان کا ترکہ ہے۔ عالم کے خون کی سیاہی شہید کے خون سے بہتر ہے تو پھر کون لوگ ہیں؟ کس کو مانتے ہیں؟ کس کو فالو کرتے ہیں؟ توپھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جھوٹ بولتے ہیں۔ انفرادی بھی اور اجتماعی بھی۔ خود سے بھی دوسروں سے بھی۔ خیال کسی اور کا ہے ،مگر ہماری زبان پر کوئی اور ہے اور ہم جا کہیں اور رہے ہیں۔ ان تضادات سے اٹے ہوئے راستوں میں علم، تعلم، تعلیم اور ٹیچر کا مقام اور پھر سلام سبھی مسکراتے ہیں۔ حکمران بھی، نوکر شاہی بھی، تمول بھی اور متمول بھی۔ کچھ تو منہ پھیر کر ہنس بھی پڑتے ہیں۔ استاد کے مرتبے میں زوال نے علم اور تعلیم کو بھی بتدریج زوال سے ہمکنار کردیا۔ مونٹی سوری سے بہترین یونیورسٹی کا مطالعہ اور جائزہ میرے مشاہدے کا حصہ ہے۔ تعلیمی ادارے نہیں کاسمیٹک چہرے اور کائونٹرز ہیں۔ سوائے علم اور تعلیم کے ہر شے میں۔ ان سب کے درمیان ایک ٹیچر ہے، ایک پروفیسر ہے۔ وہ کیسے محسوس کرتا ہے؟ کیسے سوچتا ہے؟ اس کے مسائل کیا ہیں؟ اس کی ذاتی اکانومی کیا ہے؟ وہ کیوں ایک درویش بن کر نئی نسل کو اعلیٰ آدرش … افکار اور نظریات سے Enrich نہیں کر پارہا؟ کیوں وہ موجود سے زیادہ اگلے لمحے کے تفکر میں غرق ہے؟ کبھی ٹیچرز ڈے ، کبھی فادرز ڈے، کبھی مدر، کبھی مزدور، اور کبھی حقوق نسواں… سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے؟منیر نیازی مرحوم نے اس ساری حقیقت کو چند لفظوں میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے ؎ شکوہ کریں تو کس سے شکایت کریں تو کیا اک رائیگاں عمل کی ریاضت کریں تو کیا معنی نہیں منیر کسی کام میں یہاں طاعت کریں تو کیا ہے، بغاوت کریں تو کیا