سینیٹ الیکشن خفیہ یا اوپن بیلٹ ؟اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ حکومت کو تیسرا سال شروع ہے ،آئین سازی کا کام نہیں ہوا حالانکہ اسمبلیاں آئین سازی کے لئے وجود میں لائی جاتی ہیں۔بلاشبہ آئین سازی حکومت اور اپوزیشن کے ارکان مل کر کرتے ہیں اور اس کے لئے دونوں کے درمیان مشاورت اور ملاپ ضروری ہوتا ہے مگر آج تک یہ ماحول ہی نہیں بنا ، لڑائی جھگڑوں میں قیمتی تین سال گزر گئے ، پہلی مرتبہ وزیراعظم کی زبان سے یہ خوشگوار لفظ سننے کو ملا کہ قانون سازی پر اپوزیشن سے بات چیت جاری رہنی چاہیے۔دوسری طرف سینیٹ الیکشن کے سلسلے میں امیدواروں کی فہرست جاری ہو چکی ہے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ الیکشن کی نامزدگی کو چیلنج کرتے ہوئے پی ٹی آئی اے فرحان رحمان نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ توہین عدالت کیس میں سزا یافتہ ہونے کی بناء پر وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے ۔جہاں تک اوپن یا خفیہ بیلٹ کی بات ہے تو اس کے لئے آئین سے رہنما ئی حاصل کرنا ہو گی ۔آئین یا دستور ملک میں قانون سازی کے لئے رہنما اصول اور بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے طرزِ حکومت کے تعین کے علاوہ آئین قومی امنگوں، نظریہ حیات اور مقاصد کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت 1973 ء کا آئین نافذ ہے جوکہ سخت ، مشکل حالات میں وجود میں آیا، دسمبر 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد یہ پیچیدگی پیدا ہو گئی تھی سخت مشکل حالات سے پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوچکا تھا ،مغربی پاکستان میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مختلف زبانیں بولتے تھے ۔اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو ملک کو نیا آئین دینے میں کامیاب ہو گئے جوکہ آئین میں پیچیدگیاں اور مسائل باقی رہے اور پاکستان میں بسنے والی قوموں کو اب بھی اپنی تہذیب و تمدن کے بارے میں خدشات کا ازالہ نہیں ہوا البتہ آئین آسمانی نہیں ضرورتوں کے باوجود اس میں ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔پاکستان کے آئین میں جہاں بیلٹ کا ذکر آیا ہے وہاں خفیہ بیلٹ کی بات ہوئی ہے۔اب اگر سینیٹ کا بیلٹ اوپن ہو گا توصرف آرڈیننس سے کام نہیں چلے گا آئین میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی اور بات صرف سینیٹ تک رہے گی بلکہ تمام ووٹ اوپن بیلٹ پر کرانے پڑیں گے اور پھر جو کھچڑی پکے گی وہ سب کے سامنے ہے اور عام انتخابات کے موقع پر پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کو ریوڑ کی شکل میں لایاجائے گا اور کہا جائے گا کہ ان سے ہاتھ کھڑے کر الو یہ کس کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ آئین میں سینیٹ کے انتخاب کا طریقہ کار موجود ہے اور آئین میں کہاگیا ہے کہ پارلیمنٹ کا دوسرا ایوان سینیٹ کہلاتا ہے ۔ چاروں صوبائی اسمبلیاں سینیٹ کے لئے ارکان کا انتخاب کرتی ہیں۔پاکستان کا شہری جس کی عمر 30سال سے زائد ہو اور اس کا نام اس حلقے کی انتخابی فہرست میں شامل ہو سینیٹ کا انتخاب لڑنے کا مجاز ہے۔سینیٹ کے ارکان چھ سال کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں ، سینیٹ ایک مستند ادارہ ہے اس لئے اس کے نصف ارکان ہر تین سال کے بعد ریٹائرڈ ہوتے رہتے ہیں ۔ سینیٹ کو چلانے کے لئے ایک چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے قائم کئے گئے ہیں یہ دونوں عہدے دار تین سال کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں ، ان دونوں کو سینیٹ کے کل ارکان کی اکثریت ریزولیشن پاس کر کے عہدے سے برطرف کرسکتی ہے۔قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ کے لئے بھی لازمی ہے کہ سال میں کم از کم 130دن اجلاس منعقد کرے ۔سینیٹ کے سلسلے میں یہ آئینی معاملات ہیں ۔ دو آئین ساز ادارے ہیں ایک ایوان بالا یعنی سینیٹ دوسراایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی ۔ برسبیلِ تذکرہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آئین ساز ادارے سینیٹ میں صوبے کا بل دو تہائی اکثریت سے پاس کیا ہے اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ سینیٹ کے الیکشن کے موقع پر یہ بھی عرض کروں کہ اس الیکشن میں وسیب کو نظر انداز کیا گیا ہے ، یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے یہ ہوتا آ رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی نے وسیب سے اکثریت حاصل کی تو اس موقع پر بھی وسیب نظر انداز ہوا ، وسیب سے سینیٹرز نہ لئے گئے اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی وسیب نظر انداز ہوا ، (ن) لیگ کے دور میں یہ کہاوت عام ہوئی کہ ن لیگ نے ووٹ وسیب سے لئے اورخواتین کی مخصوص سیٹوں کی حقدار لاہور کی بیگمات ٹھہریں ۔اقلیتی سیٹوں پر بھی وسیب کے اقلیتی رہنما فریادیں کرتے رہے کسی نے کچھ نہ سنی۔تحریک انصاف نے وسیب سے بھرپور کامیابی حاصل کی تو اس نے بھی وسیب کو نظر انداز کیا اور زیادہ تر ٹکٹیں دیگر علاقوں کو دے دیں ۔کچھ لوگوں سے وعدہ کیا گیا کہ آئندہ الیکشن میں وسیب کو اس کا حق ملے گا اب الیکشن آیا ہے تو وسیب کو تحریک انصاف نے بری طرح نظر انداز کر دیا ہے ۔میں کل بہاولپور گیا وہاں سیاسی عمائدین سے ملا تو انہوں نے بھی یہی بات کی کہ بہاولپور سے تعلق رکھنے والی تحریک انصاف کی سمیرا ملک نے تحریک انصاف کے لئے دن رات ایک کر دیا اور توقع تھی کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا مگر افسوس کہ ان کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سے پہلے اپنی تقریروں میں کہا تھا کہ محرومی و نا انصافی ہمیشہ جغرافیہ تبدیل کرنے کاباعث بنتی ہے سب کو انصاف ملنا چاہیے سب سے مساویانہ سلوک ہونا چاہیے ، و ہ اکثر اپنی تقریروں میں مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے تھے اور بتاتے تھے کہ محرومی اور نا انصافی کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا۔تو سوال یہ ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد عمران خان اپنی ہی باتوں اور اپنے ہی فلسفے پر عمل درآمدکیوں نہیں کرتے ؟وہ اوپن بیلٹ کے حوالے سے ووٹ چوری کی بات کرتے ہیں ان کی کابینہ کے وزیر شبلی فراز کہتے ہیں کہ اوپن بیلٹ کے مخالف کرپٹ نظام کا تسلسل چاہتے ہیں ، وزیر اعظم نے یہ بھی کہاہے کہ ارب پتیوں کو سینیٹ کی ٹکٹیں دینے کی روایت توڑ دی ہے۔سردار عثمان خان بزدار نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے موقع پر سرپرائز دیں گے۔یہ تمام اپنی جگہ درست ہو ں گی مگر وسیب کے جن لوگوں کو محروم کیا گیا ہے وہ حکمرانوں کے سرپرائز کوکیا کریں گے ؟