ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ بغداد میں ہوا، بغداد واشنگٹن کا اتحادی ہے اور ایک اتحادی ریاست کی خود مختاری سپرپاور نے پامال کی، پاکستان تین میں نہ تیرہ میں مگر ایک بار پھر 9/11کی کیفیت سے دوچار ہے۔ 9/11کے واقعہ میں ایک بھی پاکستانی شہری ملوث تھا نہ ان میں سے کسی کا تعلق پاکستان میں موجود گروہ سے ثابت ہو، لیکن افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سب سے زیادہ نقصان ہم نے برداشت کیا۔ یہی صورتحال اس وقت نظر آتی ہے۔ پاکستان ایران کا ہمسایہ ہے، تاریخی ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں منسلک ہمسایہ، یہ ہمسائیگی صرف امریکہ کو نہیں ہمارے عرب دوستوں اور اتحادیوں کو کھٹکتی ہے۔ ان عرب دوستوں کے ساتھ پاکستان کے گہرے تعلقات اور معاشی مہربانیوں کی تاریخ ہے، خوشگوار اور برادرانہ تعلقات کی تاریخ۔ عرب ممالک میں کم و بیش چالیس لاکھ پاکستانی ہنر مند مقیم ہیں اور ترسیلات زر کی صورت میں ہماری معیشت کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا چیلنج درپیش تھا تو ترک صدر طیب اردوان کے بقول عرب بھائیوں نے انہی چالیس لاکھ پاکستانیوں کا پتہ کھیلا اور عمران خان اپنے محب وطن، ایثار پیشہ، محنت کش شہریوں کی بے روزگاری کے خوف سے یوٹرن لینے پر مجبور ہو گئے، تنقید بہت ہوئی مگر ان چالیس لاکھ لوگوں کا کسی نے نہ سوچا جو دراصل چالیس لاکھ افراد نہیں چالیس لاکھ خاندان ہیں۔ امریکہ ایران چپقلش میں اضافہ ہو تو اندیشہ یہ ہے کہ ایران کی طرف سے امریکی تنصیبات اور مفادات کے نام پر کوئی عرب ملک انتقامی کارروائی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ امریکہ دور اور اسرائیل جدید ہتھیاروں کے علاوہ پٹریاٹ اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم سے لیس ہے جسے ایرانی میزائل شاید زیادہ نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اگر امریکہ ایران تصادم نے ایران عرب جنگ کا رخ اختیار کیا، خدانخواستہ ایران نے امریکہ کا غصّہ اس کے عرب اتحادیوں بالخصوص سعودی عرب کے خلاف نکالا تو پاکستان کے لئے دو وجوہات کی بنا پر غیر جانبداری برقرار رکھنا مشکل بلکہ ناممکن ہو گا۔ پہلی وجہ تو سعودی عرب سے وابستہ پاکستان کے معاشی و سفارتی مفادات ہیں لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ حرمین شریفین کی حفاظت نیوکلیئر اسلامی ریاست کی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ایران کی دانش و بصیرت ضرب المثل ہے۔ 1979ء سے اب تک اس نے امریکہ جیسی بدمست فوجی طاقت کو زچ کیے رکھا مگر براہ راست جنگ کی نوبت نہیں آنے دی،پراکسی وار کو بھی اپنی سرزمین بلکہ سرحدوں سے دور رکھا جبکہ ہم افغان جنگ کے دوران یہ احتیاط روا نہ رکھ سکے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد ہماری طرح ایران کو بھی مہاجرین کی خدمت و تواضع کا مرحلہ درپیش تھا مگر لاکھوں مہاجرین کو ایرانی قیادت نے اپنی حکمت عملی کے تحت قومی مفاد کے لیے استعمال کیا، اپنی معیشت پر بوجھ بننے دیا نہ معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہونے دیئے یہ کامیاب پالیسی تھی جس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہو گی، ایران انقلاب کے بعد البتہ بوجوہ اپنے آپ کو سفارتی تنہائی سے محفوظ نہ رکھ سکا اور پاکستان کو بھی اس نے متعدد بار شکایت کا موقع دیا، کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کی موجودگی اس کا ثبوت ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ مسلم ممالک کے درمیان رنجشوں کے خاتمہ اور اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی سعی کی اور اس کا اعادہ سینیٹ میں خطاب کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان آزمائش سے دوچار ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ایرانی قیادت کی دانش و بصیرت کا امتحان ہے، اپنے ایرانی ہم منصب سے گفتگو میں شاہ محمود قریشی نے صبر و تحمل کی بات کی جو موجودہ حالات میں زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے لیکن اگر ایرانی قیادت ٹھنڈے دل و دماغ اور سنجیدگی سے غور کرے تو وہ پاکستان کے تحفظات اور مشوروں کی افادیت کا اعتراف کرے گی۔سعودی عرب یا کسی دوسری مسلم ریاست کے ساتھ کشمکش ایران سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ معیشت ایران کی تباہ ہو یا سعودی عرب یا اس کے کسی اتحادی کی، تیل کے کنویں سعودی عرب یا کویت کے خشک ہوں یا ایران کے، دہشت گردی کی لپیٹ میں ایران آئے یا اس کا کوئی مسلم ہمسایہ، امریکہ کو کیا نقصان اور اسرائیل کا کیا خسارہ؟ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور امریکہ کے عالمی مفادات کو تقویت ہی ملے گی جبکہ ہنری کسنجر جیسے مدبرین برسوں سے امریکہ کویہ مشورہ دیتے چلے آ رہے ہیں کہ جب تک مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کا وجود ختم کر کے اسرائیل کی جغرافیائی توسیع اور بالادستی کا اہتمام نہیں کہا جاتا امریکی نیو ورلڈ آرڈر محض افسانہ ہے۔ امریکہ کی مرضی کا جہاں متشکل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں بعض عناصر جذباتی انداز میں حکومت کو ایران کی غیر مشروط حمایت پر اکسا رہے ہیں اور غیر جانبداری کا وہ تصور پیش کر رہے ہیں جو دنیا کے کسی ملک نے کبھی سوچا نہ اپنایا۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران حقیقی غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ عالم عرب کے دبائو کے باوجود عراق کی حمایت سے گریز برتا بلکہ ایک لحاظ سے ایران کی مدد کی مگر جوابی خیر سگالی کے طور پر جذباتی ایرانی قیادت نے پاکستان پر امریکی گماشتہ کی پھبتی کسی اور امریکہ نے ہمیں ایران کا مددگار قرار دیا۔ نیکی برباد گناہ لازم ۔ یمن کے حوالے سے پاکستان کو غیر جانبداری کا صلہ سعودی عرب اور امارات کی خفگی کی صورت میں ملا جبکہ افغانستان پر امریکی حملے کے دوران غیر جانبداری ترک کرنے کا خمیازہ ہم نے ستر ہزار قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور اربوں ڈالر کے مالیاتی نقصان کی صورت میں برداشت کیا۔ مثالی صورت حال یہ ہو گی کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی مصالحتی مشن پر نکل کھڑے ہوں اور وہ ایرانی و سعودی قیادت کو یہ باور کرائیں کہ وہ امریکہ کی حمائت یا مخالفت میں ایک دوسرے کی سرزمین اور شرق اوسط کو اکھاڑہ بننے دیں نہ پراکسی وار کے خواہش مند عناصر کو لچ تلنے دیں‘ صرف اس صورتحال میں پاکستان امریکہ ایران چپقلش کی تپش سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بھارت اور اسرائیل مل کر امریکہ اور ایران کے مابین تصادم کی لے تیز کریں گے اور کسی نہ کسی صورت پاکستان کو بھی اس آگ کی لپیٹ میں لانا مقصد ہو گا۔ پاکستان کا نیوکلیر پروگرام اور اسلامی تشخص بھارت اور اسرائیل کی طرح امریکہ کے لئے بھی سوہان روح ہے اور خطے میں تینوں ممالک کے حقیقی عزائم کی راہ میں رکاوٹ۔ پاکستان کوالالمپور کی بس کو مس نہ کرتا تو اس وقت ملائشیا اور ترکی کے تعاون سے ایران کو سمجھانے اور سعودی عرب کو امریکی و اسرائیلی عزائم سے آگاہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتا مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ فی الحال تو ہمیں اپنی فکر کرنی چاہیے کہ دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے خلاف کوئی نئی کارروانی ہمیں ’’شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان‘‘ والی کیفیت سے لاچار کر دے گی۔ ’’شیطان بزرگ ‘‘ظاہر ہے ہمارا ہاتھ عرب دوستوں کے ذریعے مروڑ سکتا ہے جبکہ ایرانی قیادت اپنے جذباتی پیرو کاروں کے توسط سے۔ او آئی سی کام کی ایک تنظیم تھی اللہ کو پیاری ہو گئی ورنہ ایک اجلاس بلا کر کوئی ٹھنڈی میٹھی قرار داد منظور کر ہی لیتی۔