وہ مجھ کو چھوڑ گیا ہے تو میں برا ہوں ناں زمانہ مجھ پہ ہنسا ہے تو میں برا ہوں ناں میں جانتا ہوں کہ دنیا برا ہی کہتی ہے مگر جب اس نے کہا ہے تو میں برا ہوں ناں کچھ کا خیال ہے کہ اچھا برا کچھ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ انسان کی سوچ ہے جو کسی کو اچھا برا بناتی ہے۔ایسا کہاں سے لائیں سب اچھا کہیں جیسے ویسے ہمیشہ برا غریب ہوتا ہے ۔تمہید سے پہلے میرے پیش نظر موجودہ صورتحال تھی جس میں مرکزی نکتہ سینٹ کے الیکشن کا ہے۔ اگر کہا جائے کہ حکومت ہمیشہ بازو کو گھما کر کان پکڑتی ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ ایک فضول سی بات کر دی جاتی ہے یا پھر ناجانے میں طوفان برپا کر دیا جاتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ نتیجہ انہیں معلوم ہوتا ہے پھر سامان رسوائی کس لئے سمجھ سے بالا ہے۔ سب جانتے تھے کہ سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ سے ہی ہونا تھے کہ یہ آئین میں ہے اور اس کے لئے پارلیمنٹ سے ہی ترمیم ممکن ہے جو موجودہ صورت حال میں خارج ازامکان تھا پھر صدارتی ریفرنس کا تماشہ !: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ سپریم کورٹ ایک ذمہ دار ادارہ ہے اس نے کہا ہے کہ سینٹ انتخابات آئین اور قانون کے مطابق ہوں اور آرٹیکل 218 تھری کے تحت الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے۔ میں بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ انتخابات تو شفاف بنائے جا سکتے ہیں مگر حصہ لینے والے لوگوں کو شفاف کیسے اور کون بنائے گا۔ کوئی خود ہی بکنے کو تیار بیٹھا ہو تو اس کو آپ کیسے روک سکتے ہیں۔ جس شخص کو اس کا ضمیر بے وفائی یا دغا کرنے سے نہیں روکتا اس پر خارجی عمل بے معنی ہے۔ناقابل فروخت وہ ہوتا ہے جس کے سامنے کوئی مقصد ہوتا ہے جس کا کوئی نظریہ ہوتا ہے اور جو خود کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہے جن کا اول آخر صرف پیسہ ہے ان سے آپ ایثار اور قربانی کی توقع کریں تو عبث ہے آپ نے کتنے لوگوں کو گھومتے دیکھا ہو گا: آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے سینٹ کے الیکشن میں سب سے دلچسپ امر یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کا مقابلہ ہے اور اسی مقابلے نے بڑے اندیشے کو جنم دیا ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں تو یہ بڑا اپ سیٹ بڑی تبدیلی کا موجب بن سکتا ہے اسی خوف نے پی ٹی آئی کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کی ساری باتیں درست ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کی ہسٹری شیٹ میں ترکی کی خاتون اول کا وہ ہار بھی ہے جو خیرات میں دیا گیا مگر بیگم یوسف رضا گیلانی کے گلے میں جا ڈلا۔ ان کے بیٹے پر ایفی ڈرین کیس سارے جہاں کو معلوم ہے پھر گلی محلوں میں بکتی ہوئی نوکریاں اور اس کے علاوہ بہت کچھ۔ تو یہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی پی ڈی ایم والے اس سزا یافتہ کو ووٹ دیں گے۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیاست کے معیارات پر تو ایسا ہی امیدوار ہی پورا اترتا ہے۔ میں تہذیب سے گرا محاورہ استعمال نہیں کروں گا کہ لچا سب توں اچا۔ آپ یہ بھی ذھن میں رکھیں کہ یہ امیدوار بھی تو زرداری صاحب کا ہے اس لاٹ سے صالح اور پرہیز گار کہاں سے نکالیں۔ دوسری حفیظ شیخ تو سب کی ضرورت ہیں اور وہ جنہوں نے اسے ان کی ضرورت بنایا ہے اپنا مقصد اور ٹارگٹ رکھتے ہیں۔ ویسے پی ٹی آئی والے جو اوصاف یوسف رضا گیلانی کے گنواتے ہیں ایسے اوصاف ان کے لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں مثلاً رانا ثناء اللہ کیس میں پندرہ کلو ہیروئن برآمد کروانے والے اور قرآن کی قسمیں اٹھا کر اسے سچ بتانے والے اور اللہ کو جان دینے والے اور ویڈیو کے دعوے کرنے والے کچھ اور ہیرے بھی ہیں۔آگے پیچھے دائیں بائیں نوٹ رکھ کر خریدوفروخت کرنے والے لوگوں کے دہن کو مٹھاس سے محروم کرنے والے اور نااہل ہو کر بھی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والے یہ تحفے سب کے پاس ہیں۔ پاک دامنی کے دعوے مگر ثبوت عنقا۔ اب لوگوں پر چھوڑ دیں کہ کس برے آدمی کا وہ انتخاب کریں۔ پی ٹی آئی کا بہرحال یہ کمال ہے کہ اس نے اپنے دشمنوں کو ہی نہیں دشمنوں کے دشمنوں کو بھی اکٹھا کر دیا۔ لوگ ان کے حق میں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر حکومت نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا تو وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ انہوں نے پچھلی حکومتوں سے کہیں زیادہ ایزارسانی کی ہے: پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب مرے ہاتھ سے کنارا لگا مسئلہ اچھے برے کا ہے ہی نہیں۔ مفادات کا ہے۔ اقتدار کا حصول ہے اور اپنا مستقبل محفوظ بنانیکا ہے۔ یہاں نہ تو کوئی قوم کی خدمت کا معاملہ ہے اور نہ کوئی فلاح کا۔ لگتا ہے اقتدار اور طاقت ہی بری چیزیں ہیں اور اس کابین ثبوت خود عمراں خاں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ کوئی ایسے بھی بدل سکتا ہے۔ اب خود ہی کہیے کہ کیا اس سے بڑا ہاتھ بھی کسی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ کیسے کیسے خواب خان صاحب نے دکھائے تھے قوم کو۔ لوگوں کا اپنی آنکھوں کانوں اور ذھنوں سے اعتبار اٹھ چکا ہے بالکل ایک دنیائے معکوس۔ دوبارہ آتے ہیں سینٹ کے الیکشن کے فیصلے کی طرف کہ اس میں اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ایک ابہام ہے کہ فیصلہ تو خفیہ ووٹنگ کا کر دیا گیا ہے پھر اسے شفاف کیسے بنایا جا سکتا ہے کہ نشان والا بیلٹ پیپر بھی جاری نہیں کیا جا سکتا اب یہ ہے کہ ووٹر اپنا کوئی نشانی لگا دے ۔ سیریمل نمبر کا نتیجہ بھی یہی ہو گا۔ لیکن قابل شناخت کے لئے کوئی ضابطہ تو بنانا پڑے گا جو کہ نہیں بنایا گیا۔ ویسے جہاں تک ضابطے کا تعلق وہ تو پہلے ہی کہیں نظر نہیں آتا۔ میرا مطلب ہے کہ ضابطے بھی توڑ دیے جاتے ہیں۔ یہ سارے ضابطے وابطے غریبوں اور کمزوروں کے لئے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے قانون کمزور کو اس کی اوقات میں رکھنے کے لئے ہوتا ہے ورنہ طاقتور کے لئے یہ مکڑی کا جال ہے۔