مقبوضہ کشمیر کے جہاد آزادی کے رہنما اشرف صحرائی کی وفات جسے شہادت کہنا چاہیے‘ تحریک آزادی کے لیے شاید کسی نقصان کا باعث نہیں کہی جا سکتی۔ تحریک آزادی کا قافلہ پہلے ہی ایسی وادی بے سمت و بے دور میں محصور ہے کہ اس کے لیے ہر نئی شہادت غم اور صدمے کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن نقصان کا نہیں۔ پرایوں سے زیادہ اپنوں کی نوازشات نے قافلے کو اب سودوزیاں کے چکر سے آزاد کردیا ہے۔ 80 سالہ اشرف صحرائی دو سال سے بھارت کی قابض فوج کی قید میں تھے اور قید بھی کیسی۔ ایسی تنہائی کی قید کہ گھر والوں کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ اس دوران مسلسل بیمار اور بھارتی قابضین کی اذیت رسانی کا شکار رہے۔ چنانچہ ان کی موت‘ وفات نہیں قتل ہے۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ بھارتی فوج نے انہیں اذیت دے دے کر قتل کیا۔ اشرف صحرائی ’’ولی‘‘ تھے۔ اس کی گواہی ان کی وہ تقریر ہے جو کچھ عرصے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے جنید صحرائی کی شہادت پر کی تھی۔ جنید صحرائی بھی بھارتی فوج کی قید میں شہید ہوئے تھے۔ ان کے جنازے پر اشرف صحرائی نے اپنے غم پر کوئی پرسہ نہیں مانگا‘ اللہ سے ملاقات کی دعا کی اور سب کوصبر کی تلقین کی۔ بیٹے کی موت کا غم اور نہ پائوں لڑکھڑایا نہ زباں۔ ولی ہونے کی اور کیا نشانی چاہیے۔ اشرف صحرائی اس محصور قافلے کے سالار اعلیٰ علی گیلانی کے قریبی ساتھی تھے۔ نوے سالہ سید علی گیلانی چھوٹی جیل میں نہیں‘ بڑی جیل میں ہیں کہ دو سال سے پورا مقبوضہ کشمیر بڑی جیل ہی نہیں‘ ایسا کیمپ بن چکا ہے جو ہٹلر کے کنسٹرکشن کیمپوں کی یاد دلاتا ہے۔ صحرائی شہید کی تعزیت علی گیلانی کے ساتھ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ روز بروز تنہا ہوتے جارہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ آج بظاہر کشمیر کا کیس ختم ہو چکا ہے۔ عالم تمام میں کوئی اسے اٹھانے والا نہیں‘ عالم اسلام میں سعودی عرب اور ترکی نے ہمیشہ ساتھ دیا‘ اب محض ترکی رہ گیا ہے اور وہ ایک خاص حد سے آگے جا بھی نہیں سکتا۔ اصولی حمایت کرنے والا واحد سہارا‘ اب بھارت سے بیک ڈور رابطوں میں مصروف ہے اور کشمیری اور کشمیر بظاہر رائٹ آف کردیئے گئے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی جیسے جنونی کی حکومت ہے جو کشمیری تو کیا خود مین لینڈ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی زندہ رہنے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے زمانہ تغیرات سے دوچار رہتا ہے‘ تبدیلی آتی رہتی ہے‘ بھارت میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ بی جے پی کا غرور اور مقبولیت دونوں انہدام کے راستے پر ہیں۔ گزشتہ ہفتے 5 ریاستوں میں انتخابات ہوئے۔ بنگال‘ تامل ناڈو‘ آسام،کیرالہ اورپانڈی چری کے ان انتخابات میں سب سے امیر مغربی بنگال تھا جہاں مودی کو اندازوں کے برعکس بری طرح شکست ہوئی اور ترنمول کانگرس جسے مودی نے مسلمانوں کی دیدی (باجی) کا خطاب دے رکھا تھا‘ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو گئی۔ کیرالہ میں بھی بی جے پی کوشکست ہوئی اور تامل ناڈو میں بھی۔ آسام میں بی جے پی کو معمولی اکثریت ملی اور پھر پانڈی چری میں بھی جو بہت ننھی منی سی ریاست ہے اور محض کل تین ساڑھے تین لاکھ کی آبادی۔ ایک چھوٹے سے شہر کے برابر۔ اصل دھچکا بنگال ہی میں لگا۔ دوسرے صوبوں میں بھی اتنی مقبولیت نیچے کو آئی ہے اور خاص طور پرکورونا نے بی جے پی کے دھارمک پہلو کو بری طرح ضرب لگائی ہے۔ یو پی‘ مہارا شٹر جیسے بی جے پی کے گڑھ صوبوں سمیت ہندوئوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہم نے مسلمانوں سے جو اتیا چار کیا ہے یہ اس کا کرما ہے۔ کرما ہندو مذہب کا اصول ہے کہ اس جنم کے کرتوتوں کا پھل اسی جنم میں مل جاتا ہے یعنی وہی بات کہ لے ویکھ تیرا عرصہ محشر بھی یہی ہے۔ مسلمان ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتے کہ ہندوئوں کے ایک دھڑے نے جو ظلم ان سے کیا‘ یہ اس کا بدلہ ہے لیکن ایک اور اہم بات یہ ہوئی ہے کہ مسلمانوں نے ہندوئوں کی اس نازک اور درد ناک موقعے پر بھرپور مدد کی۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت جماعت اسلامی نے اپنے تمام سکول‘ کالج‘ مدرسے اور کمیونٹی سنٹرز کورونا کے ہسپتالوں میں بدل دیئے۔ تبلیغی جماعت او جمعیت العلمااء کے لوگوں نے بھی مساجد کو امدادی سنٹرز بنا دیا۔ ایسے کتنے ہی واقعات ہوئے کہ ہندو گھرانے میں موت ہوئی‘ شمشان لے جانے کے لیے کوئی مرد نہیں ملا تو مسلمانوں نے یہ کام کیا۔ پورے شمالی بھارت میں مسلمانوں کی طرف سے اس بہت بڑی امداد کو ہندو عوام کی اکثریت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ خدا جانے ان میں سے کتنوں کی سوچ بدل گئی ہوئی۔ سوچ کی یہ تبدیلی بی جے پی کے لیے سراسر خسارہ ہے۔ کمبھ میلے نے مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والے بی جے پی کے لیڈروں کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا۔ ان لیڈروں نے کہا تھا‘ کمبھ پر دیوتائوں کا سایہ ہے۔ کورونا اس کے نزدیک بھی نہیں آ سکا۔ میلہ ختم ہوا تو ہر پانچ میں سے چار یاتری کورونا کے مریض بن چکے تھے۔ تب سے بھارت کے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اپنی آتش بازی مسلمانوں پر کم کردی ہے۔ یہ زمانے کا بدلائو ہے‘ ’’کرما‘‘ ہے‘ تاریخ کا دھارا۔ بہرحال بھارت میں قوت تبدیل ہورہا ہے۔ پاکستان میں بھی حالات کروٹ لینی ہے اور کشمیر کاز پھر سے زندہ ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم سری نگر فتح کرلیں گے لیکن قابل قبول‘ عزت والا حل نکالنے والے سامنے آ سکتے ہیں۔ اور ایسا ہوا تو کوئی انہونی نہیں ہوگی۔ بہرحال‘ سید علی گیلانی سے پھر تعزیت!