وہ پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تو لمبی لمبی سانسیں لینے لگتا تھا، دنیا بھر کے حالات اسے دکھی کر دیتے تھے اور اسکی آنکھوں میں شکوے جمع ہوتے رہتے تھے۔ جنگوں میں زندگی کی ارزانی اور کم وسائل والے لوگوں کی بے قدری دیکھ کر وہ سوچتا تھا کہ یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے۔ اس کا دل اور ذہن تلخ ہو جاتے اور وہ خود سے سوال کرنے لگ جاتا ۔ وہ کوئی ذہین شخص تھا لیکن سوچتا بہت تھا، وہ کتابوں پر سر پٹخ پٹخ کر زچ ہو جاتا پھر اس نے سوچا کہ آخر بڑے لوگ بھی تو انسان ہوتے ہیں۔ پھر اسے اپنی جھنجھلاہٹ ، اپنی پریشانیوں ، ذہن میں رینگتے ہوئے سوالات کا جواب مل گیا۔ صرف عقل اور محنت ہی لوگوں کو بڑا بناتی ہے اور میرے پاس یہ دونوں ہیں۔ لیری کنگ کسی شخص کا نہیں بلکہ یہ ایک جدو جہد کا نام ہے ۔ پھر آپ جس لیری کنگ کو جانتے ہیں ، وہ تو بڑا بے باک تھا۔ اس کے لہجے کی تیزی اور تندی بڑے بڑوں کے دماغ چٹخا دیتی تھی۔ اس کے پورے کیئرئیر پر نظر ڈالیں تو اس کی ذہنی اور علمی کشادگی ،وقت کے ساتھ ساتھ توانا ہو تی چلی گئی۔ شاید یہ بات اس کے ذہن نشین رہی کہ اگر مالی تھک جائے تو پودوں پر پھل نہیں لگا کرتے۔ ان کے انٹرویو سنتے جائیں ، آپ کو دنیا کی مشہور شخصیات کی زندگی کا ہر رخ نظر آئے گا ، ہر صفحہ کھلتا جائے گا اور ذہانت کے سارے سوتے آشکار ہو تے جائینگے ۔ وہ امریکہ کا صدر ہو یا دنیا کی کوئی نامور شخصیت ،وہ اپنی قوم کی تاریخ بدل دینے والا حیران کن شخص، کوئی اداکار، کوئی مصور ، موسیقار ، سائنس دان ، ساستدان ، کوئی نوبل انعام یافتہ ، غیر معمولی شخصیت آپ کی حیرانگی بڑھتی جائے گی۔ لیری کنگ کی جانب سے تلخ ، ترش اور کھرے کھرے الفاظ کی گولہ باری تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔ وہ بادشاہوں سے، بے روزگار شرابیوں سے اور مجرموں تک سے گفتگو کرتا دکھائی دیتا ہے۔ چونکا دینے والے الفاظ کے ہتھیار سے وہ بڑی سے بڑی ادبی شخصیت اور تاریخ دانوں کے اعصاب کو جھنجوڑدینے والے سوالات کی گولہ باری جواب دینے والے صاحب بصیرت کے لئے ایک امتحان ہوتی تھی، ایک آزمائش ہوتی تھی۔ 3فروری1998کو ٹیکساس کی ایک جیل میں 38سالہ کار لانے ٹکر کو زہریلا انجکشن لگا کر سزائے موت دیدی گئی۔ کار لانے ٹکر نے 1983میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ملکر ایک موٹر سائیکل چھیننے کی کوشش میںمزاحمت پر ایک جوڑے کو موت کی نیند سلا دیا تھا، جیل میں اس کی زندگی بدل گئی، اس نے عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کو اپنا معمول بنا لیا۔ اسکی سزا کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے، پوپ جان پال نے بھی زندگی میں پہلی بار کسی قاتلہ کے لئے رحم کی اپیل کر دی لیکن نتیجہ وہی انکارہوا۔ سزا سے پندرہ روز قبل جب لیری کنگ نے جیل میں ٹکر کا انٹرویو کرنے گیا تو دنیا نے سی این این پرمطمئن اور مسرور چہرہ دیکھا جو پورے اطمینان سے ہر سوال کا جواب دے رہی تھی۔ لیری نے پوچھا ’’ تمہیں موت کا خوف محسوس نہیں ہوتا‘‘ ٹکر نے مسکرا کر جواب ’’ نہیں نہیں مجھے اب صرف موت کا انتظار ہے‘‘ میں جلد اپنے رب سے ملنا چاہتی ہوں۔ لیری کنگ نے پوچھا ۔ خدا کے متعلق تمہارا تصور کیا ہے۔ کار لے ٹکر نے جواب دیا کہ ہماری جان اس کے قبضے میں ہے۔ لیری کنگ نے کہا ۔ تمہیں یقین ہے کہ وہ تمہیں معاف کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ رحم کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ لیری کنگ نے اپنے کیئر ئیر کی ابتدا میں جب وہ صرف 28سال کا تھا، اس وقت امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے انٹرویو کیا۔ اس نے دریافت کیا جناب صدر آپ کے اہداف کیا ہیں۔ کینیڈی نے کہا کہ میں کیا کر پائونگا اور کیا نہیں لیکن یہ میرا وعدہ ہے کہ میں انسان کو چاند پر پہنچا دونگا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد لیری کنگ نے جب مصر کے صدر انور سادات سے اپنے پروگرام میں پوچھا کہ کیا آپ اس معاہدے کے بعد تنہا نہیںہو جائینگے کیونکہ مسلمانوں کی تاریخ مشکل چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے سے رقم ہے، کہیں آپ نے بزدلی تو نہیں دکھائی؟ مصری صدر کا جواب تھا۔ میں نے مفادات اور تحفظ کی خاطر نہیں بلکہ اپنی قوم کی سرخروئی کے لئے اور اس معاہدے کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے لئے امن خریدا ہے۔ صدر کارٹر سے لیری کا سوال تھا۔ اپنی تمام تر طاقت اور حکمت عملی کے با وجود امریکی ایران کو سرنگوں نہیں کر سکے۔ جمی کارٹر نے بلا تذبذب کہا لگتاہے اس کوشش میں خدا ہمارے ساتھ نہیں ۔ اداکار رچرڈ برٹن سے لیری نے دریافت کیا۔ ایلزبتھ ٹیلر سے دوسری بار شادی کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ رچرڈ برٹن نے کہا ۔ میں نے محسوس کیا کہ ایلزبتھ کے بغیر میں نا مکمل ہوں کیونکہ وہ خدا کی طرف سے میرے لئے ایک تحفہ ہے۔ لیری کنگ نے صدر بل کلنٹن سے دریافت کیا کہ مونیکا لیونسکی کے معاشقے اور پھر اس کے اعتراف میں ہچکچاہٹ نے آپکے روشن کیرئیر پر نہ صرف سوالیہ نشان لگا دیا بلکہ آپکو مواخذے کی تکلیف دہ سفر سے گزرنا پڑا ۔ کلنٹن نے کہا ۔ ہلیری کی ناراضگی میرے لئے بڑی اذیت ناک تھی ۔ مجھے احساس ہے کہ مجھے اپنے جرم سے بڑی سزا ملی لیکن میں نے امریکہ کو اپنے خوابوں کے مطابق بنانے کی کوشش کی۔ لیری کنگ نے مشہور زمانہ برطانوی جج جان کک سے دریافت کیا کہ جن ملکوں اور معاشروں میں عدالتیں عوامی دبائو ، ترغیبات اور خود نمائی کے لئے فیصلے کرتی ہیں ان کا اسٹیٹس آپکی نظر میں کیاہے۔ عالمی شہرت یافتہ منصف نے کہا کہ وہ عدالتیں نہیں ہوا کے دوش پر چلنے والی کشتیاں ہوتی ہیں، جن کی منزلوں کا تعین ملاح نہیں ہوائیں کیا کرتی ہیں۔ لیری کنگ نے جان کک سے دریافت کیا کہ ان معاشروں کو زندہ معاشرہ کہا جاتاہے ۔ جن کی عدالتیں رحم مندمل ہونے سے پہلے مظلوم کو انصاف فراہم نہ کر سکے۔جان کک نے کہا کہ انصاف کتابیں نہیں ضمیر کیا کرتے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہمارا ضمیر زندہ ہے لہذا ہمارے انصاف میں تا خیر ہے نہ بے ایمانی ۔ لیری کنگ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی خدمات ، انٹریو کرنے کا خوبصورت اسلوب، نئے اسٹائل کے چشمے اور رنگ برنگی ٹائیاں ، چشمے ہم سبکو ہمیشہ یاد رہیں گے۔