خصوصی عدالت نے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا جرم ثابت ہونے پر سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی ۔ 3 ججز پر مشتمل خصوصی عدالت نے 2-1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا، جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غاری کیس کی سماعت کی ۔ وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت کے فیصلے کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک شخص کے خلاف ٹارگٹڈ ایکشن تھا ۔ آئین کی جس دفعہ کے تحت پرویز مشرف کو سزا دی گئی ہے، اس میں شریک ملزمان کا بھی ذکر ہے اور موجودہ حکومت کی آدھی کابینہ صدر پرویز مشرف کی ساتھی رہی ہے۔ ترجمان افواج پاکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر مسلح افواج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے، پرویز مشرف آرمی چیف، چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہے ہیں، انہوں نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی اور ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے، کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے ، عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی جب کہ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے۔ اس بارے عرض ہے کہ سزا ہوئی ہے ، ابھی تو کیس سپریم کورٹ میں جائیگا، مشرف کو اپیل کا حق بھی حاصل ہے ، قابل اعتراض سزا تو وہ تھی جو کہ 18 کروڑ عوام کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو افتخار چوہدری کی طرف سے ڈیزائن شدہ 30 سیکنڈ کی سزا دی گئی جو کہ وہاں کھڑی کھڑی پوری ہو گئی اور وہ اپیل کے حق سے بھی محروم رہے ۔ پرویز مشرف کا فیصلہ آیا ہے تو بات بہت دور تک جائے گی ۔ ایک نیا پینڈورہ بکس کھلے گا ۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ پرویز مشرف کا مقدمہ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام سے چلنا چاہئے ، اسی طرح مارشل لاء لگانے والے اور ان کی معاونت کرنے والے دیگر افراد کو بھی شریک جرم بنایا جاسکتاتھا اور وہ جج صاحبان جو کہ نظریہ ضرورت کے تحت غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیتے رہے ان سے بھی پوچھ گچھ ہونی چاہئے تھی اور وہ جج صاحبان جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ، ان کے خلاف بھی آئین کی دفعہ 6 اور اس کی ذیلی دفعات کے تحت کاروائی ہونی چاہئے ، اور وہ لوگ جو آج مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ان سے بھی پوچھا جانا چاہئے کہ بحیثیت وزراء پرویز مشرف سے حلف کیوں لیا ؟ عدلیہ کی اپنی تاریخ ہے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کی روح اور عوام کے حقوق کی ضامن آزاد عدلیہ ہوتی ہے۔ صرف عدلیہ ہی نہیں بلکہ آزاد عدلیہ جو اپنے اختیارات اور ان کے استعمال میں اپنے فیصلوں اور ان کے نفاذ میں آزاد ہو ۔ پاکستان کے آئین 1973ء کی دفعہ 175(3) کے مطابق طے پایا تھا کہ سارے ملک میں ایک سپریم کورٹ ہو گی ، صوبوں کیلئے الگ الگ ہائیکورٹ ہونگی ۔ عدلیہ کا دائرہ اختیار آئین اور قانون کے تحت تین سال کے اندر انتظامیہ سے الگ اور آزاد کر دیا جائے گا ۔ بعد میں پانچویں ترمیم 1976ء کے تحت اس مدت میں پانچ سال کا مزید اضافہ کر دیا گیا ۔ یہ پانچ سال مکمل ہونے کے بعد پھر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے مزید چودہ سال کا اضافہ کیاگیا جو کہ 14 اگست 1987ء کو مکمل ہوا۔ عدالت عالیہ کی طرف سے اہم فیصلے ہوئے ، جو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اثر انداز ہوئے ۔ ان میں پہلا اہم مقدمہ مولوی تمیز الدین کی طرف سے 7 نومبر 1954ء کو سندھ چیف کورٹ میں دائر ہونے والی رٹ تھی ۔ دوسرا اہم کیس چیف جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں جسٹس اے آر کار نیلیس ، جسٹس امیر الدین احمد اور جسٹس شہاب الدین نے سنایا ۔ تیسرا اہم کیس ایوب حکومت نے جماعت اسلامی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تھی ۔ جماعت اسلامی نے اس اقدام کو مشرقی و مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ دونوں میں الگ الگ چیلنج کیا ۔ مشرقی پاکستان ہائیکورٹ نے درخواست منظور کر لی جبکہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ نے مسترد کر دی ۔ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا ۔ چوتھا مقدمہ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے خلاف تھا ۔ یہ مقدمہ عاصمہ جیلانی بنام حکومت کے نام سے مشہور ہے۔ پانچواں اہم مقدمہ جنرل ضیاء کی حکومت کے زمانے میں ہوا جب وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے احکامات جاری کرتے رہے ، 1985 ء میں انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے ذریعے آٹھویں ترمیم کرا کے آئین کا حصہ بنایا۔ محمدخان جونیجو کی کابینہ کو برطرف کر دیا ۔ جس کے خلاف حاجی سیف اللہ کی طرف سے ایک اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ۔ چھٹا اہم مقدمہ عدالت عالیہ میں اس وقت آیا جب غلام اسحاق نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا تو طارق رحیم نے اس اقدام کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج گیا ۔ اس کے بعد غلام اسحاق خان نے جب 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا تو نواز شریف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ، جس سے نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی۔ صدر مملکت فاروق لغاری نے 1996ء میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے بے نظیر کی حکومت برطرف کی اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں ، محترمہ نے بھی صدر کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ، مگر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں اس اقدام کو جائز قرار دیا گیا ۔2010ء میں توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو محض 30 سیکنڈ کی سزا دے کر نا اہل قرار دیکر ان کو برطرف کر دیا۔2017ء میں سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس میں آرٹیکل 62(1) ایف کے تحت وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل کیااور سزا دی ۔مولوی تمیز الدین کیس سے لیکر وزیراعظم نواز شریف تک حکومت کی برطرفی ، اسمبلیوں کی تنسیخ ، منتخب وزیراعظم کی نا اہلی کے مقدمات سپریم کورٹ پہنچے اور فیصلے ہوئے ۔لیکن دکھ اور افسوس اس بات کا ہے ملک میں جتنے بھی مارشل لاء لگے اور ماروائے آئین اقدام ہوئے ان کو تحفظ عدالتوں کی طرف سے نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ دیا گیا اور اگر مارشل لاء کے خلاف فیصلہ آیا تو بعد از وقت جس کا متاثرین کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ مارشل لاء کا محافظ نظریہ ضرورت رہا ، اس طرح کا غیر آئینی نظریہ پیدا کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہئے ۔