اسلام آباد یا لاہور یا پشاور میں اب جو کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ ’’سیاسی طور پر سندھ کیا کر رہا ہے؟‘‘ تو میں بڑی اداس مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا ہوں کہ ’’انتظار‘‘۔ جو دوست جلدی میں ہوتا ہے وہ مزید نہیں پوچھتا اور جن کو جلدی نہیں ہوتی وہ پوچھتے ہیں ’’کس کا انتظار‘‘ تو میں کہتا ہوں ’’متبادل کا‘‘ ۔جب مجھ سے پوچھا جاتا ہے ’’کس کا متبادل‘‘ میں کہتا ہوں ’’پیپلز پارٹی کا متبادل‘‘۔ میرے اکثر غیر سندھی دوست یہ جواب سن کر ذرا حیران ہوجاتے ہیں اور کچھ پریشان ہوکر پوچھتے ہیں کہ ’’کیا سندھ اب پیپلز پارٹی سے پیار نہیں کرتا؟‘‘ میں مختصر جواب دیتا ہوں ’’نہیں‘‘ وہ پوچھتے ہیں ’’کیوں؟‘‘ تو میں کہتا ہوں ’’سندھ تو وہی ہے مگر پیپلزپارٹی وہ نہیں رہی جس کے خاطر سندھ نے جنرل ضیاء کی آمریت سے برسوں تک سمجھوتہ نہیں کیا۔ سندھ آج بھی اس وفا کے وعدے پر قائم ہے مگر اب سندھ عہد وفا نبھاتے نبھاتے تھک چکا ہے۔ اب اس کی کیفیت بقول مرزا غالب ایسی ہے: وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو سندھ پیپلز پارٹی کی سنگ دلی سے بہت دکھی ہے۔ سندھ نے زیڈ اے بھٹو کے ساتھ تو سیاست نہیں بلکہ رومانس کیا تھا مگر اس کے بعد بھٹو خاندان سے وہ محبت نبھاتے نبھاتے عاجز آ گیا ہے۔ سندھ نے بینظیر بھٹو کو کیا نہیں دیا؟ جب بینظیر اجرک پہن کر سندھ کے کسی بھی شہر میں آتی تھیں تو لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں تک اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے رہتے تھے۔ سندھ کا خیال تھا کہ شاید بلاول اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلے اور وہ وعدے پورے کرے جو بینظیر نے آمریت کے دنوں میں سندھ کے لوگوں کے ساتھ کیے تھے۔ مگر بقول فیض: ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی/جس بارخزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی اس وقت سندھ کو یقین ہو چلا ہے کہ بلاول اپنی صورت میں اپنے دادا حاکم علی زرداری اور اپنی طبیعت میں اپنے والد آصف زرداری جیسا ہے۔ سندھ کو اب بلاول سے وہ پیار نہیں جو پہلے تھے۔ کیوں کہ بلاول جس طرح وفاقی حکومت پر تنقید کرتا ہے اور جب اس سے میڈیا سندھ کے سلسلے میں سوال کرتی ہے تو سندھ حکومت کو ایک مثالی حکومت بنا کر پیش کرتا ہے۔ جب کہ سندھ کے لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ سندھ کے حالات کس قدر برے ہیں؟کورونا کی آڑ میں چھپ کر بیٹھنے والی حکومت سندھ نے کسی بھی شعبے میں کوئی بہتر کارکردگی نہیں دکھائی۔ نام کی حد تک تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر سب کو معلوم ہے کہ اصل حکومت پارٹی کی نہیں بلکہ زرداری خاندان کی ہے۔ اس وقت بھی سندھ میں بوڑھے جیالے بغیر علاج کے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر جو لوگ زرداری خاندان سے قربت رکھتے ہیں ان کے لیے یہ شعر پیش ہے کہ: آپ جن کے قریب ہوتے ہیں /وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں سندھ خوش نصیب نہیں ہے۔ سیاسی طور پر سندھ بدنصیب ہے۔ سندھ سیاسی طور پر اتنی مجبور اور محکوم بن چکا ہے کہ یہ سرزمین اب اس شہزادی جیسی ہے جو بچوں کی کہانیوں میں کسی دیو کے پاس قید ہوتی تھی اور اس کے جسم میں انگنت سوئیاں چبھی ہوتی تھیں اور وہ اس شہزادے کا انتظار کرتی تھی جو آگ کا سمندر پار کرکے اس دیو کو ختم کرے اور شہزادی کو آزاد کروائے۔ سندھ کو سیاسی طور پر کون آزاد کروائے گا؟ پیپلز پارٹی نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ سندھ میں کسی بھی متبادل کو پیدا ہونے نہیں دیا جائے گا۔ حالانکہ عمران خان کی صورت سندھ میں مضبوط متبادل پیدا ہونے جا رہا تھا مگر کیا ہوا؟حیدر آباد،دادو‘ سکھر،نواب شاہ اور لاڑکانہ کے لوگ منتظر ہی رہے کہ عمران خان وزیر اعظم بن کر آئے گا اور انہیںنجات دلائے گا مگر وہ منتظر ہی رہے اور عمران خان نے سندھ کا رخ نہیں کیا۔اگر عمران خان صرف سندھ پر شفقت کا ہاتھ رکھتا تو سندھ زرداری کے خلاف اعلان بغاوت کرتا۔ مگر سندھ کی یہ خواہش بھی ان ہزاروں خواہشوں جیسی بن گئی جو پوری نہ ہو پائی۔ سندھ اس وقت بھی سیاسی طور پر تھر کے اس ریت جیسی ہے جس کے بارے میں کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ: بیتا دید امید کا موسم، خاک اڑتی ہے آنکھوں میں کب بھیجو گے درد کا بادل ،کب برکھا برساؤ گے سندھ اس وقت مایوس بھی ہے اورمنتظر بھی ۔ سندھ میں متبادل کے لیے جو آس اور پیاس ہے وہ پاکستان کے کسی اور صوبے میں ہرگز نہیں۔ سندھ کو یقین ہے کہ ایک دن ایسابھی آئے گا جب اس کا متبادل مل جائے مگر وہ دن کب آئے گا؟ سندھ کے اس سوال کا جواب کسی نجومی کے پاس بھی نہیں مگر سندھ کو اور سندھ کے خیراندیش قوتوں کو یہ یقین ہے کہ سندھ اس وقت سیاست کی جس سیاہ رات میں لپٹی ہوا ہے وہ اندھیرایک روز ختم ہوگا۔ سندھ کو وعدے والی صبح ضرور ملے گی۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ سندھ بھی امید کے تارے گن رہا ہے اور بار بار دروازے تک جا کر واپس آ رہا ہے وہ سوچ رہا ہے کہ وعدے والا کیوں نہیں آیا؟ تم آئے ہو نہ شب انتظارگزری ہے/تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے سندھ میں لوگ کورونا کے بعد اتنے سنگین معاشی حالات سے گذر رہے ہیں کہ وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتے کہ ان کے روز و شب کتنے تلخ ہیں۔ لوگ بیروزگار ہیں۔ لوگ بھوکے ہیں۔ مگر بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت کو گرانے کے لیے اے پی سی کی کمندیں اچھال رہا ہے۔ حالانکہ ان سے اپنی صوبائی حکومت نہیں سنبھالی جا رہی۔ وہ وفاقی حکومت بھی لینا چاہتے ہیں۔ کیا وہ سارے ملک کا ایسا حشر کریں کے جیسا انہوں نے سندھ کا کیا ہے؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ ملک کے دیگر صوبوں میں متبادل قوتیں موجود ہیں۔ یہ حق صرف سندھ کو حاصل نہیں۔ سندھ کو متبادل کا حق کب ملے گا؟ کب جان لہو ہوگی کب اشک گہر ہوگا کس دن تیری شنوائی یہ دیدہ تر ہوگی