ملک میں ذخیرہ اندوزوں‘ سمگلروں اور گراں فروشوں کی پیدا کردہ مصنوعی مہنگائی کے خاتمے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کریک ڈائون کا حکم دیاہے۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اشیائے خورو نوش کی سمگلنگ سے قیمتوں میں اضافہ اور عام آدمی تکلیف کا شکار ہوتا ہے۔ کریک ڈائون کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے انٹیلی جنس بیورو‘ انٹر سروسز انٹیلی جنس اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ متعلقہ سرکاری اداروں کی سرگرمیوں اور مہنگائی پیدا کرنے والے افراد کی نشاندہی کے عمل کی نگرانی میں تعاون کریں۔ مہنگائی دیانتداری سے عاری معاشروں کا مستقل روگ ہے۔ جن ملکوں میں لوگ اپنے ذرائع آمدن پوشیدہ نہیں رکھتے اور کاروباری افراد اپنی تفصیلات ٹیکس چوری کی نیت سے چھپاتے نہیں وہاں روز مرہ استعمال کی اشیا کی طلب و رسد حکومت کے علم میں رہتی ہے۔ حکومتی ادارے طلب و رسد میں توازن رکھنے کے لئے مناسب اوقات میں اشیا کی درآمد یا برآمد کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جرمنی میں پندرہ سال سے بہت سی چیزوں کی قیمتیں ایک ہی مقام پر رکی ہوئی ہیں۔ تیل اور گیس کی عالمی قیمتوں میں کمی بیشی کا سامنا جرمنی کے کاروباری اور صنعتی طبقات کو بھی رہتا ہے مگر وہاں کے اداروں نے مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنا کردار موثر بنا لیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ مسئلہ عشروں سے موجود ہے۔ سنتے ہیں ایوب خان کے زمانے میں جب چینی کے نرخوں میں اضافہ ناقابل برداشت ہو گیا تو عوام سڑکوں پر آ گئے۔ مہنگائی کی اس لہر کو ایوب خان دور کی اپوزیشن نے استعمال کیا اور آخر انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ نوے کے عشرے میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو دو دو بار اسمبلیاں تحلیل کرکے رخصت کیا گیا۔ چاروں حکومتوں کی برطرفی کے پس پردہ جو وجوہات بتائی گئیں ان میں کرپشن‘ بدانتظامی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ذکر بھی شامل رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار کے ساتھ ملکی معیشت اور انتظامی ڈھانچہ جس شکل میںملے وہ انتہائی خستہ اور کمزور تھے۔ سالانہ بجٹ میں اشیا کی درآمد‘ برآمد‘ ان پر ٹیکسز اور دیگر محصولات کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سالانہ میزانیہ آنے کے بعد کاروباری طبقے اور عوام کو علم ہوتا ہے کہ ان کی آمدن میں کون سی چیز کس قدر خریدی جا سکتی ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال سے معاشی ابتری کی حالت یہ دیکھی جا رہی ہے کہ حکومت ہر مہینہ پندرہ دن کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ یا نام کی کمی کر دیتی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اس قدر جلد جلد ہوتا ہے کہ اب یاد رکھنا محال ہے کہ تازہ نرخ کیاہیں۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی خراب ہو جاتی ہے جب وافر مقدار میں اگائی جانے والی سبزیاں ایک سو پچاس اور دو سو روپے کلو تک فروخت ہونے لگتی ہیں۔ مرغی کی قیمتوں پر بااثر گروپوں کا کنٹرول ہے۔ بڑا گوشت بھی بکرے کے گوشت کے قریب جا پہنچا ہے۔ درآمدی اشیاء کی قیمت تو ڈالر کی قدر میں اضافہ کے باعث بڑھی لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ مقامی پیداوار پر کسان کی آمدن تو پہلے جیسی رہی لیکن ان کی فصل کے نرخ آسمان کو چھونے لگے۔ اس اضافے کا فائدہ کس کی جیب میں جا رہا ہے؟ قیمتوں پر کنٹرول نہ رہنے سے کئی مسائل پیدا ہوئے‘ آمدن اور اخراجات کا تخمینہ رکھنا مشکل ہو گیا۔ لوگوں کے لئے بچت کی منصوبہ بندی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ صورتحال سنگین ہوتی رہی۔ دولت مند افراد اس نظام سے فائدہ اٹھاتے رہے اور محروم طبقات کے وسائل کی چادر کبھی سر ننگا کر دیتی اور کبھی پائوں چادر سے باہر جھانکنے لگتے۔ حکومت ریاستی اختیارات کی نگران اور امین ہوتی ہے۔ جب عوام کی مشکلات بڑھ جائیں تو ریاست دیکھتی ہے کہ خرابی کی وجوہات کیا ہیں اور اصلاح احوال کے لئے کون سا طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ ہمارے ہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بڑے معرکے انجام دیے لیکن ہر حکومت نے ان کی صلاحیت کو اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور انتقامی کارروائیوں کے لئے استعمال کیا۔ عوام الناس کو پانامہ لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ اور اراکین کو حکومت وقت کی ہدایت پر بعض خفیہ اہلکاروں کا ہراساں کرنا اب تک یاد ہو گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں کسی طرح ایک دوسرے کے ٹیلی فون ٹیپ کئے جاتے اور انتہائی ذاتی قسم کی معلومات چرائی جاتیں یہ اب راز نہیں رہا۔ خطیر فنڈز سے کام کرنے والے ان مفید خفیہ اداروں کو عوامی شکایات کے حل کی خاطر کبھی فعال کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ وزیر اعظم نے ملک کی انتہائی معتبر اور قابل خفیہ ایجنسیوں کو ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کے خلاف کارروائیوں پر نظر رکھنے کا حکم دے کر سابق حکومتوں کی غلط حکمت عملی کو درست رخ پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملک میں ناجائز منافع خوروں‘ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے مصنوعی مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے۔ وہ لمحہ آ پہنچا ہے جب قوم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے اپنے مسائل سے کس طرح نجات حاصل کرنا ہے۔ یہ لوگ معاشرے کے دشمن ہیں۔ ان کی وجہ سے پوری قوم ایک ہیجان اور تکلیف کا شکار ہے، ان کے خلاف کریک ڈائون کا فیصلہ یقینا کاروباری ماحول میں تبدیلی کا باعث ہو گا اور آئندہ چند روز میں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے امکانات ظاہر ہوں گے۔