بعض اوقات کسی خاص موضوع پر کالم لکھنا چاہ رہے ہوتے ہیں ،اتنے میں ایسی مختلف خبریں سامنے آتی ہیں جن پر کچھ لکھنا یا کہنا ضروری لگتا ہے۔ آج کا یہ کالم ایسی پہ ایک خبر اور اس پر تبصرے کے حوالے سے ہے۔ خبر سٹیل ملز سے ساڑھے چار ہزار سے زائد ملازمین نکالنے کے حوالے سے ہے۔تفصیل کے مطابق پاکستان سٹیل ملز انتظامیہ نے 4544 ملازمین کو نوکری سے برطرف کر دیا ہے، تاہم سٹیل ملز کے سکول اور کالج کے سٹاف کو نہیں نکالا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جون میں وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے سٹیل ملز ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ دے کر فارغ کرنے کی تجویز کی منظوری دی تھی۔ خبروں کے مطابق ان ملازمین کو تیئس لاکھ روپے فی کس دیا جائے گا اس خبر پر مختلف سیاسی جماعتوں کا ردعمل آیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسے ایشو میں سیاست چمکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔یہ سوچے سمجھے بغیرکہ دس بارہ برسوں سے سٹیل مل بند پڑی ہے، یہ ملازمین مفت کی تنخواہ لے رہے تھے۔ ساڑھے چار ہزار ملازمین کی تنخواہ کا حساب خود لگا لیں۔ اگر بیس پچیس ہزار ماہانہ تنخواہ تھی، تب بھی گیارہ کروڑ کے لگ بھگ ماہانہ بنے ہیں، یعنی ڈیڑھ ارب روپے سالانہ ۔ اسے دس سے ضرب دے دیں تو پندرہ سولہ ارب ہوجائیں گے ۔ سٹیل ملز ملازمین کو اور بہت سی سہولتیں اور مراعات حاصل تھیں، انہیں جمع کریں تو شاید رقم مزید بڑھ جائے۔ ہمارا سوال یہی ہے کہ ان سیاسی قائدین میں سے کون ہے جو اپنے نجی کاروبار میںدس بیس ملازموں کو بھی بغیر کام کئے دس سال مفت تنخواہ دے؟نوکری سے نکالنا کبھی دل خوش کن نہیں ہوتا۔جسے نکالا جائے گا، اس کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔نجی شعبے میں ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ ، کٹ اور نجانے کیا کیا روٹین کے معاملات ہیں۔ ملازمین کو کسی قسم کا کور بھی حاصل نہیں ہوتا اور صرف ایک ماہ کی تنخواہ دے کر انہیں رخصت کر دیا جاتا ہے۔ ڈیلی ویجز ملازمین کے ساتھ تو اتنا بھی نہیں ہوتا۔ سٹیل ملز ملازمین کو تو تیئس لاکھ روپے دئیے جا رہے ہیں جو کہ خاصی معقول رقم ہے۔ نہایت آسانی کے ساتھ وہ کوئی بھی چھوٹاموٹا کاروبار کر سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں پاپولزم سے باہر آ کر حقیقت پسندی کی بات کہنی چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری حکومتیں بعض سرکاری محکمے چلانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ان میں سٹیل ملز سرفہرست ہے،پی آئی اے، ریلوے، پی ٹی وی ، ریڈیو پاکستان وغیرہ بھی اسی صف میں آتے ہیں۔ سٹیل ملز پیپلزپارٹی کے’’ سنہری‘‘دورحکومت سے پہلے منافع میں جا رہی تھی، سالانہ چار پانچ ارب منافع تھا۔ جناب زرداری نے جمہوریت کا انتقام ایسی مہارت اور بے دردی سے لیا کہ سٹیل ملز کا بیڑا غرق ہوگیا۔ ن لیگ کے دور حکومت میں بھی کچھ نہیں ہوسکا۔ عمران خان جب اقتدارمیں آئے تو ابتدا ہی میں توقع تھی کہ وہ کچھ جرات مندانہ فیصلے کریں گے اور سٹیل ملز، پی آئی اے وغیرہ سے قوم کی جان چھڑا دیں گے۔وہ وقت انہوں نے ضائع کر دیا۔ یہ کہا گیا کہ نہیں ہم ان اداروں کو چلا کر دکھائیں گے۔ اب یہ حقیقت وزیراعظم پر بھی منکشف ہوچکی ہے۔ان اداروں کا علاج یہی ہے کہ ان کا بوجھ قوم پر سے ہٹایا جائے ۔ جو ادارے چل رہے ہیں ان کی نجکاری کی جائے۔ جو بند ہیں، ان کے ملازمین کو فارغ کر دیا جائے۔ البتہ انہیں گولڈن شیک ہینڈ دینا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا جب میرے جیسے لوگ یہ سوچتے تھے کہ حکومت کوہتھیار ڈالنے کے بجائے ان ڈوبتے اداروں کو دوبارہ سے کھڑا کرنے کا چیلنج قبول کرنا چاہیے۔ جب سٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ ہوا اور سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے اسے روکا تو بہت بڑے عوامی حلقے نے اس کی حمایت کی۔ خاکسار بھی ایک معمولی سے اخبارنویس کے طور پر اس کا حامی تھا۔ ہمیں لگتا تھا کہ سٹیل ملز ملک کا اثاثہ ہے، جو اونے پونے دامون بیچا جا رہا ہے۔یہی سوچ پی آئی اے، ریلوے وغیرہ کے بارے میں تھی۔ پچھلے تیرہ چودہ برسوں کے تجربات سے یہ سمجھ آ گئی ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ہماری ہر سیاسی حکومت نے ان اداروں میں میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بے پناہ بھرتیاں کیں۔ اب انہیں چلانا ممکن ہی نہیں رہا۔ ان کی یونین اتنی طاقتور ہے کہ وہ کچھ کرنے ہی نہیں دیتی۔ ہر سال پچاس سو ارب روپے قومی خزانے سے ان اداروں پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ ان سے جان چھڑا لی جائے۔افتخار چودھری صاحب کے دیگر کئی فیصلوں کی طرح ان کا سٹیل مل کی نجکاری روکنے والا فیصلہ بھی ہر لحاظ سے غلط اور عاقبت نااندیشانہ ثابت ہوا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مردہ اداروں کا بوجھ اتارا جائے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت سے بڑے بڑے دعوے کئے تھے۔ ان میں سے ایک ڈوبے ہوئے ادارے چلانے کا بھی تھا۔ اب انہیں پتہ چل گیا ہوگا کہ بلند بانگ دعوے کرنا کس قدر خطرناک ہوسکتا ہے۔ بعد میں میڈیا ان ویڈیو کلپس کو دکھا کر بار بار شرمندہ کرتا رہتا ہے۔ ٹھوکریں کھا کر ہی سہی،جب درست نتیجے پر پہنچ گئے تو پھر پوری قوت سے ان پر عمل درآمد کریں۔اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو بھی اس ایشو پر سیاست نہیں چمکانی چاہیے۔ سٹیل ملز کے بعد پی آئی اے کے ساتھ ایسا کرنا چاہیے۔ یہ ادارہ بھی قوم پر بوجھ ہے۔ آخر ہماری ٹیکس کی رقم پی آئی اے پر خرچ کیوں ہو؟ عام آدمی کو اس سے کیا فائدہ ؟ میں نے اپنی زندگی میں دو چار ہی فضائی سفر کئے ہیں، بیشتر وہ جس میں دفتر کی جانب سے بھیجا گیا اور ٹکٹ دفتر نے دی۔ میرے جیسے کروڑوں لوئر مڈل کلاس اور ان سے کہیں زیادہ لوئر کلاس کے لوگ زندگی بھر شائد پی آئی اے پر سفر نہ کر سکیں۔ جب ایسے ڈوبتے اداروں پر قومی خزانے سے رقم خرچ کی جاتی ہے تو اس کی تلافی مزید ٹیکس لگا کر ہوتی ہے اور وہ ٹیکس ہر شخص ادا کرتا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری ہونی چاہیے۔ بہت ہوگیا، قوم نے بہت بوجھ اٹھا لیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں کوئی پارٹی اسے خریدنے کو تیار نہیں ۔ اس کا سٹاف گھٹا کر کچھ منہ ماتھا بنایا جائے گا، تب ہی کوئی اسے خرید پائے گا۔ ایسا کر لیں مگر فیصلہ ہو جانا چاہیے ۔ اگلا مرحلہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کا ہونا چاہیے۔ ہماری جیبوں سے بلوں کے ساتھ لائسنس فیس لے کر پی ٹی وی ملازمین کے اللوں تللوں پر خرچ کی جاتی ہے۔ پی ٹی وی کی آخر کارکردگی کیا ہے؟پی ٹی وی نیوز کو تو خیر کوئی سنتا ہی نہیں، اس کی کریڈیبلٹی صفر سے بھی کم ہے۔ پی ٹی وی ہوم کتنے نئے ڈرامے بنا رہا ہے؟ موسیقی کے کتنے نئے پروگرام ہوئے ، انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں سرکاری چینل کا کیا کنٹری بیوشن ہے؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پی ٹی وی بند کر دیا جائے۔ اسے مگر فعال ضرور بنایا جائے ۔ سب سے پہلے تو ایسے لوگوں کو فارغ کیا جائے جو کچھ نہیں کرنا چاہیے،کر ہی نہیں سکتے۔ پنجابی محاورے کے مطابق خلیفہ بنے ہوئے ہیں، انہیںشیک ہینڈ دیں۔ تخلیقی سوچ رکھنے والا نیا خون ان اداروں کی ضرورت ہے۔پی ٹی وی کو عمران خان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس کے پچھلے بیس برسوں کا مقبول ترین ڈرامہ ارطغرل انہی کے حکم پر چلایا گیا۔ اب یونس ایمرے بھی چلنے والا ہے۔ بعض اور ترک اور عربی ڈرامے ہی اردو ڈبنگ کے ساتھ دکھا دئیے جائیں۔اس کے ساتھ پی ٹی وی کو اپنا پرانا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہماری اخلاقیات سے ہم آہنگ اور سماجی موضوعات پر دلچسپ ڈرامے بننے چاہئیں۔ تخلیق کاروں کی ہمارے ہاں کمی نہیں، انہیں اس کا حصہ بنانا چاہیے۔ ریڈیو پاکستان میں مجھے بھی کئی سال تک کرنٹ افیئرز پروگرام کرنے کا موقعہ ملا، یہاں کئی اچھے دوست موجود ہیں۔ ممکن ہے وہ برا مانیں ،مگر یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو پاکستان میں اوور ہالنگ کی شدید ضرورت ہے۔یہاں اوور سٹافنگ ہے۔ تخلیقی شعبوں میں لوگ کم ہیں جبکہ سیاسی بھریتاں زیادہ ۔ مرتضی سولنگی جب ریڈیو پاکستان کے سربراہ تھے تو انہوں نے اس کا ماحول اور کلچر بدلنے کی خاصی کوشش کی۔مستند معلومات کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے مثبت تبدیلیاں کیں اور پروگراموں کا معیار بہتر کیا۔ وہ اصلاً ریڈیو کے آدمی تھے، سارا دن مختلف پروگرام سنتے رہتے، غلطی پکڑ لیتے۔ ان کے دور میں اگر سرکار کی جانب سے مالی سپورٹ کی جاتی تو شائد ریڈیوکا نقشہ ہی بدل جاتا۔ ریڈیو کو کسی تخلیقی سربراہ کی ضرورت ہے، جسے مالی مدد ملے،جو یہاں نیا خون شامل کر سکے، کام نہ کرنے والوں کی چھٹی کرائے اوراس کے نیم مردہ تن میں نئی جان ڈالے۔مجھے اندازہ ہے کہ ریڈیو پاکستان کبھی مالی اعتبار سے منافع میں نہیں جا سکتا کہ اس کابجٹ اگر مثال کے طور پر چار ارب ہے تو اس میں تین ارب سے زیادہ پنشن کی ادائیگی ہے جبکہ ملک بھر میں ریڈیو کے لئے تمام تر نجی شعبے کا اشتہاری بجٹ چندکروڑ ہی ہے۔ریڈیو منافع بخش نہیں مگر اس کا معیار تو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔وزیراعظم پاکستان کو اس جانب غور کرنا چاہیے۔