کوئی الزام محبت پہ نہ تم آنے دو ختم ہوتا ہے اگر ربط تو ہو جانے دو شمع جلتی ہے تو جلتی ہی چلی جاتی ہے اس کے پہلو میں پڑے رہتے ہیں پروانے دو یہ زندگی ہے اس کے اپنے بھی رنگ ہیں مگر ان میں رہ جانے والی کمی تو کوئی اور پوری کرتا ہے جینے کا سلیقہ اور قرینہ تو صرف محبت میں پنہاں ہے۔ انسان میں شائستگی اور خوبصورتی تو اسی سے آتی ہے، شرط بے لوث اور غیر مشروط ہونے کی بھی ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو ساحر کی طرح اسے کوئی خوبصورت موڑ دے دینا چاہیے کہ حقیقت خواب بن جائے ۔بات یہ ہے کہ حسن میں بے اعتنائی تو ہوتی ہے۔ نخرے تو ہوتے ہیں دوسری طرف وارفتگی اور والہانہ پن اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں ۔لمحہ موجود کی بات کرنے سے پہلے ایک نہایت خوبصورت شعر جو مجھے معروف عالم دین اور دانشور جناب خضر یاسین نے سنایا تھا آپ کے ساتھ شیئر کروں گا ۔مزے کی بات یہ کہ شعر کی خالق ایک شاعرہ تصویر نامی ہے: ہنوز یاد ہے وہ شکل زندگی تصویر بگر بگڑ کے جو بنتی تھیں صورتیں مت پوچھ گویا زندگی کی صورت گری کوئی تو کرتا ہے ناں؟میں اپنی ذات کی تکمیل کر رہا ہوں فقط۔ اب آتے ہیں سیاسی صورت حال کی طرف کہ جہاں مندرجہ بالا سوچ کا گزر ہی نہیں کہ کوئی محبت انہیں ستاتی ہے کہ وہ ملک و قوم کی محبت میں گھلے جاتے ہیں ان کو تاریخی پس منظر میں دیکھا جا سکتا ہے میں 16دسمبر کے سقوط ڈھاکہ پر غور کر رہا تھا اور دل بیٹھا چلا جا رہا تھا کہ بظاہر تاریخ میں ہیرو اور ایک نظریہ بنا دیے جانے والے بھی کس قدر خود غرض تھے کہ انہوں نے عاقبت نااندیشی کی حد کر دی اور صاف کہہ دیا ادھر تم ادھر ہم۔ حق دار کو حق نہیں دیا گیا۔ تعصب اور عصبیت نہیں بلکہ طاقت کا گھمنڈ یحییٰ کو بھی مدہوش کئے ہوئے تھا۔ قائد اور اقبال کا پاکستان دولخت ہو گیا ،سیکھا تو پھر بھی کچھ نہیں ہمارے غم کئی ہیں۔ اے پی ایس کے ننھے شہیدوں سے لے کر مدرسوں میں قرآن پڑھنے والے شہیدوں تک۔ لاہور کے جلسے کے بعد پورا میڈیا اور حکومتی نمائندے دن رات اسی پر تبصرے فرما رہے ہیں ۔محمود خان اچکزئی کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے اگر اس سارے تماشے میں کوئی نظر انداز ہو ر ہے ہیں تو وہ عوام ہیں جب بھی کوئی ایسا ہنگامہ خیز موقع آتا ہے حکومت اس شور شرابے میں اپنا کام دکھا دیتی ے اب دیکھ لیجیے پٹرولیم مہنگا ہو گیا وزیر اعظم صاحب فرماتے ہیں عوام نے پی ڈی ایم کی سیاست کو رد کر دیا ہے ۔ اب پاگل پن کی سی صورت حال ہے با جماعت قوالی ہو رہی ہے کہ لاہور جلسہ فلاپ ‘ فلاپ‘ فلاپ آپ اسی لفظ کو ہزار مرتبہ لکھ لیں مگر اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ حکومت کامیاب ہے۔ اگر آپ کو اس احتجاج کی کوئی پروا نہیں تو پھر سینٹ کے الیکشن فروری میں کیوں ہونے جا رہے ہیں اور شو آف ہینڈ کے ذریعہ کیوں!ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ عوام میں جا کر انہیں مطمئن کریں ان کے لئے کچھ کریں آپ حالات مزید بگاڑ رہے ہیں پی ڈی ایم آپ کے بقول زخم چاٹ رہی ہے مگر وہ زخمی ہو کر زیادہ خطرناک ہو جائے گی ہاں آپ مہنگائی ختم کر دیں۔ ان کی تحریک سے ہوا نکل جائے گی مگر انتظام و انصرام اب آپ کے اختیار میں نہیں۔ تصادم ہوا تو بہت برا ہو گا۔ اچھے برے سب متاثر ہونگے ۔ نفرت کے بیج جو بوئے جاتے ہیں وہ پھوٹتے ہیں اور تناور بنتے ہیں۔ہمیں اس کا احساس کیوں نہیں ہے آخر کیوں موقع فراہم کیا گیا کہ آپ ہی کا تابع فرمان رہنے والے آخر آپ کے برابر کھڑے ہو گئے اور وہ جو پاک وطن ہی کے خلاف تھے ان کے ساتھ آن کھڑے ہوئے کچھ نہ کچھ قصور تو آپ کا بھی ہے اب بھی کچھ نہیں بگڑا اپنی پوزیشن سنبھالنے اور وضع کرنے کی بات ہے لوگ آپ سے مزید محبت کریں گے: ہم تو پہلے ہی ترے حق میں تہی دست ہوئے ایسے گھائل پہ نشانے کی ضرورت کیا تھی یہ بہت اچھا فیصلہ کیا گیا کہ وزیر اعظم نے مشیر و معاونین خصوصی کابینہ کمیٹیوں سے ہٹا دیے ۔ چلیے دیر آید درست آید اول تو ان کا محاسبہ ہونا چاہیے اور کوئی حساب کتاب تو ہو۔ ویسے تو کچھ وزیر بھی بے معنی ہیں پی آئی اے کی مثال ہی کافی ہے کہ ایک بیان ہی پورے محکمے کو مشکوک کر گیا اور پائلٹ ابھی تک سر پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کی احمقانہ گرفتاری اور ہیروئن کی برآمدگی وغیرہ۔ چلیے چھوڑیے ان باتوں کو کہ اگر پرانا کپتان بہتر کھیلنا جانتا ہے تو پرانا کپتان سچا بھی تھا۔ ہمیں وہی پرانا کپتان چاہیے۔ بات پھر وہی کہ عوام سے رجوع کریں ان کے غم کا مداو کریں۔چلیے خان صاحب کے لئے ایک شعر لکھے دیتے ہیں: اتنے حساس ہیں سانسوں سے پگھل جاتے ہیں بجلیاں ہم پہ گرانے کی ضرورت کیا تھی خان صاحب کو چاہیے کہ اپنے کام کی طرف آئیں انہیں انجام کی فکر کئے بغیر اپنے چوروں کو بھی پکڑوانا چاہیے سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ وگرنہ تو بلاول بھی سرگرم ہو چکے ہیں کہ وہ سندھ کا اقتدار قربان کرنے کو تیار ہیں۔ شاید یہ فیصلہ زرداری صاحب نے کیا ہو ۔زرداری صاحب سے یاد آیا کہ مجھے ہمارے دوست سعید ملک نے پچھلے دور کی ایسی ایسی کہانیاں سنائیں کہ کس طرح چلتی بسوں کو یا کچھ کھڑی بسوں کو کچرا بنا کر 35روپے کلو بیچ کر دوستیاں نبھائیں گئی۔ سعید ملک صاحب بتا رہے تھے کہ وہ 25لاکھ روپے فی بس کے خریدار تھے۔ اس کی چیسیز ہی بہت مہنگی ہیں کبھی تفصیل بھی میں لکھ دوں گا۔ سب جانتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ کا متوازی نظام کس طرح چلتا تھا۔ سعید ملک صاحب نے ایک فقرہ بہت مزیدار کہا ،کہنے لگے شاہ صاحب ایک دن دیکھنا ان سب میں سے زرداری نسبتاً بہتر لگنے لگے گا۔ آخر میں میری پسندیدہ شاعرہ ثمینہ راجہ مرحوم کا ایک خوبصورت شہر: آج تلک بھرے نہیں پچھلے ہی موسموں کے زخم دل ہے کہ ایک بار پھر نغمہ گرِ بہار ہے