پنجاب کابینہ نے لندن میں مقیم میاں نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کے لئے دی گئی درخواست مسترد کر دی ہے۔ کابینہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف سے ضمانت میں توسیع کے معاملے پر غور کے لئے جو طبی رپورٹیں طلب کی گئی تھیں وہ صوبائی حکومت کو فراہم نہیں کی گئیں جبکہ دستیاب رپورٹوں میں کئی خامیوں کے باعث خصوصی کمیٹی اور میڈیکل بورڈ ضمانت میں مزید توسیع کے خلاف ہیں۔وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے اس معاملے سے متعلق پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ 17جنوری کو میڈیکل بورڈ نے لندن میں نواز شریف کے معالجین سے مخصوص نکات پر معلومات طلب کی تھیں مگر مطلوبہ رپورٹیں فراہم نہ کی گئیں جس پر کمیٹی نے پہلے سے فراہم کی گئی رپورٹوں کی بنیاد پر ہی فیصلہ کر دیا۔مسلم لیگ ن نے پنجاب کابینہ کے فیصلے پر تنقید کی ہے‘ ن لیگ کے کچھ رہنما تو اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ اسے سیاسی انتقام اور نواز شریف کے خلاف فیصلہ قرار دینے لگے۔ ن لیگی ترجمان کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ وہ نوازشریف کے حوالے سے حکومت کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے لیکن عدالت کا حکم تھا اس لئے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا گیا اور مطلوبہ رپورٹس بھی فراہم کی گئیں۔مسلم لیگی ترجمان کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے نواز شریف کا آپریشن متوقع ہے۔ اس صورت حال میں عدالت جائیں گے اور اپنی گزارشات وہاں پیش کریں گے۔ العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ میاں نواز شریف جیل جانے کے پہلے دن سے مختلف طبی مسائل کا شکار بتائے جانے لگے۔ جیل میں قیدیوں کے لئے دستیاب سہولیات کو ناکافی قرار دیا گیا۔میاں نواز شریف نے جب تکلیف کا بتایا تو انہیں جیل کے ہسپتال میں علاج کی سہولت فراہم کی گئی۔ ان کے رفقاء نے مطالبہ کیا کہ جیل میں میاں نواز شریف کو ہنگامی حالات میں باہر کے ہسپتال منتقل کرنے کے لئے ہمہ وقت ایک تیار ایمبولینس کھڑی رہے۔ کچھ دنوں بعد ذرائع ابلاغ میں خبریں شائع ہونے لگیں کہ مسلم لیگ ن کے سزا یافتہ قائد کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ اس موقع پر پنجاب حکومت نے انسانی ہمدردی اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کو سروسز ہسپتال میں منتقل کر دیا۔ہسپتال میں نواز شریف کے لئے الگ وسیع کمرہ تیار کیا گیا۔ جہاں کھانے کا میز اور عیادت کے لئے صوفوں کا اہتمام بھی تھا۔یہی نہیں جب میاں نواز شریف نے بیٹی سے ملنے کی خواہش کی تو جیل میں قید مریم نواز کو ان کی عیادت کے لئے ساتھ رہنے کی اجازت دیدی گئی۔ ہسپتال میں موجود بہترین سہولیات کے باوجود اچانک نواز شریف کے خون میں پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک کم ہونے کی رپورٹس آنے لگیں۔یہ صورت حال سیاسی اور انسانی لحاظ سے خطرناک تھی۔ نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو جاتا تو خدشہ تھا کہ معاملے کو سیاسی بنا کر ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی۔ دوسری طرف اگر حکومت اپنے قانونی اختیارات استعمال کرتی یا ماضی کی طرح کوئی خفیہ معاہدہ کر کے نواز شریف کو بیرون ملک بھیج دیتی تو اس کی ساکھ اور احتساب کے وعدوں پر سوال اٹھایا جاتا۔ اس صورت حال میں مسلم لیگ ن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے فیصلہ دیا کہ میاں نواز شریف کو علاج کی غرض سے آٹھ ہفتوں کے لئے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ہائی کورٹ نے یہ بھی ہدایت کی کہ علاج کی غرض سے مسلم لیگ ن کے قائد کو اگر بیرون ملک مزید قیام کی ضرورت ہو تو وہ طبی رپورٹس پنجاب حکومت کو دکھا کر اس کی منظوری حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارا نظام اپنی اعتباریت کھو چکا ہے ملزمان عدالتوں‘تھانوں اور پنچائتوں میں غلط بیانی کرتے ہیں۔ اپنے جھوٹ کو درست ثابت کرنے کے لئے پٹوارخانوں سے جعلی دستاویزات بنوا لی جاتی ہیں۔ ڈاکٹروں سے من پسند رپورٹس بنوانا مشکل نہیں رہا۔پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ من چاہے طریقے سے بنا کر دیتی ہے اور جیلوں میں سب قانون کے مطابق کا بتا کر ہر وہ کام ہو رہا ہے جو خلاف قانون ہے۔دروغ گوئی کے اس نظام سے ہر وہ شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کی جیب بھری ہوئی ہے۔ جو غریب اور افلاس زدہ ہے وہ چھوٹے چھوٹے جرائم میں ساری زندگی جیل میں گزار دیتا ہے۔ نوازشریف خوش قسمت ہیں کہ انہیں ہر عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرنے والے ہنر مند وکلاء کی خدمات دستیاب ہوتی ہیں۔جن کو چند ہزار کی فیس والا وکیل نہیں ملتا ان کا خاندان ساری عمر اپنے پیاروں کی شکل کو ترستا رہتا ہے۔ معاملہ بڑا سادہ ہے کہ میاں نواز شریف یہ وضاحت فرما دیں کہ دل‘گردہ‘جگر‘ خون ‘ اعصاب اور معدے کی بے شمار خطرناک بیماریوں کی رپورٹس عدالت میں پیش کرنے کے باوجود وہ سولہ ہفتوں سے ہسپتال میں داخل کیوں نہیں ہو رہے۔ وہ علاج کے لئے باہر تشریف لے گئے تھے۔انہیں عدالت نے قانونی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مثالی رعایت دی تو جس طرح پاکستان میں روز ان کی رپورٹس مرتب ہوتی تھیں ایسی رپورٹس لندن میں بھی ہوتیں۔ یہ قانون کی بالادستی اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا معاملہ ہے۔جس میں میاں نواز شریف نے غفلت برتی۔پنجاب حکومت نے درست فیصلہ کیا اور مرکز کو مزید کارروائی کی درخواست کر دی ہے۔مسلم لیگ ن ایک اہم قومی جماعت ہے۔پاکستان کے عوام توقع کرتے ہیں کہ ملک میں قانون کی بالادستی اور قانونی عمل کی پاسداری یقینی بناتے ہوئے معاملے کو غیر ضروری طور پر سیاسی الزام تراشی اور اداروں پر بہتان طرازی کے لئے استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے گا۔