قائد اعظم کے لئے اپنی جان نہیں پاکستان ضروری تھاانہوں نے اپنی بیماری کی خبر چھپا دی اور جدوجہد جاری رکھی جس کے بعد پاکستان تو مل گیا لیکن ابھی بہت سے مراحل باقی تھے بٹوارے کے بعدپاکستان کے حصے میں آنے والے وسائل میں ڈنڈی ماری جارہی تھی ،مالی طور پر پاکستان قلاش تھا دفاتر میں پیپر پن کی جگہ ببول کے کانٹے استعمال ہو رہے تھے اوپر سے فساد بلوے شروع ہوچکے تھے،لٹے پٹے مہاجروں اور کٹی پھٹی لاشوں سے بھری ریل گاڑیاں آرہی تھیںمہاجرین کو ٹھہرانے کا انتظام بمشکل ہو رہا تھا پھر مملکت چلانی تھی ملک چلانا تھا ایسے میں افغانستان کے بادشاہ شاہ ظاہر شاہ ایلچی بھیج دے جوقائد اعظم کوتڑیاں لگائے ،افغان ایلچی نجیب اللہ کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں قائد اعظم سے آکر ملے اور کہے کہ فاٹا ہمارے حوالے کریں ،گوادر کی بندرگاہ تک رسائی کے لئے چمن سے سو کلومیٹر چوڑا کوریڈوردیں ساتھ ہی یہ بھی کہ اس کوریڈور پر افغانی سکہ اور قانون چلے گا او رتیسری فرمائشی دھمکی کراچی بندرگاہ پر افغان فری زون کے قیام کی تھی قائد اعظم نے ساری بات تحمل سے سنی اور نرم لہجے میں تینوں باتیں ناقابل عمل قرار دے کر نجیب شاہ کو روآنہ کردیا نومبر47ء میں ہونے والی اس ملاقات کے بعدنجیب اللہ نے واپس جا کر ریڈیو کے ذریعے پاکستان کا دماغ درست کرنے کی کوشش کی اور تڑیاں لگائیں ،اسی برس اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی درخواست دی گئی جس کی مخالفت کرنے والا واحد ملک کوئی اور نہیں ہمارا ہمسایہ برادر ملک افغانستان تھا یہ تو بڑے ممالک نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے پاکستان کو اقوام متحدہ میں خوش آمدید کہاا ور رکن بنالیا۔ مجھے تاریخ کے گرد آلود اوراق میں چھپا یہ سچ ’’کابل‘‘ کے صدر اشرف غنی کی تشویش پر یاد آیا انکی اس تشویش کے پیچھے مجھے وہی مخاصمت نظرآئی جو ظاہر شاہ نے نجیب اللہ کی صورت میں پاکستان بھیجی تھی ،افغان صدر اشرف غنی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری پر سوشل میڈٖیا کے ذریعے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے،ستر سالہ اشرف غنی صاحب نے منظور پشتین کی گرفتاری پر دو ٹوئٹس کیں اور منظور پشتین کی جلد رہائی کی امید کرتے ہوئے پاکستان کو بلواسطہ طور پر سمجھایا کہ خطے کی حکومتوں کو لازمی طور پر پرامن شہری تحریکوںکی حمائت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہئے،کابل یونیورسٹی کے سابق چانسلراور موجودہ افغان صدر نے یہ بھی تلقین کی کہ ان پرامن تحریکوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اختلافات دور کرنے چاہیئں ،چار زبانیں بولنے اور کبھی تین ملکوں کے پاسپورٹ جیب میں رکھنے والے ’’غنی بابا‘‘ بین الاقوامی اداروں میں بھی فرائض ادا کرتے رہے ہیں،کابل یونیورسٹی میں سماجی علوم پڑھاتے رہے ہیں انہیں سماجی اور سفارتی آداب کا بھی بخوبی علم ہے حیرت ہے وہ کیسے بھول گئے کہ کسی ملک کے اندرونی معاملات کی سرحدیں کہاں سے شروع ہوتی ہیں ؟کابل سے کابل تک محدودغنی بابا کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں’’مظالم ‘‘ کی مٹی سے انتشار گوندھنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ کے غم میں دبلا ہونے سے بہتر تھا وہ اپنے آس پاس نظر ڈالتے انکی تشویش کے زیادہ حقدارانکے اپنے ہیں انکے افغانستان کودنیا خطرناک ترین ملکوں میں ٹاپ پر رکھتی ہے یونیسیف کی رپورٹ2019 ء کے مطابق گئے برس افغانستان میں ہر روزاوسطا نو بچے جان سے گئے یا پھرعمربھر کے لئے معذور ہوئے،2009ء سے 2018ء تک دس برسوں میں چھ ہزار بچے مارے گئے اورپندرہ ہزار زخمی ہوئے اور ان خوفناک اعداد و شمار میں 2018ء کے بعد انکے مسند صدارت پر موجود ہوتے ہوئے بچوں کی ہلاکتوں میں گیارہ فیصد بھیانک اضافہ ہوا لیکن کابل میں دبک کر بیٹھنے والے افغان صدر کی پیشانی پر شرمندگی پشیمانی عرق ندامت کے دو قطرے نہ کشید کرسکی یہ شرمناک اعداد و شمار انہیں یا افغان حکومت کو کھینچ کھانچ کربھی تشویش کے قریب نہ لاسکے افغان صدر کا ٹوئٹر خاموش رہاہاں جب ڈیورنڈ لائن کے پار بسنے والے پشتون قبائل میں انکی اور انکے آقاؤں کی حسب منشاء شورش پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ، پی ٹی ایم کا سربراہ گرفتار ہواتو انہیں تشویش کا عارضہ لاحق ہو گیا ۔ منظور پشتین پاکستانی شہری ہے اسے پاکستان کی پولیس نے حراست میں لیا ہے باقاعدہ مقدمہ درج کرکے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاگیا اورعدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجا گیاآگے مقدمہ چلے گا ریاست اپنا موقف پیش کرے گی منظور پشتین اپنا مدعا رکھے گا اس دکھ میں کابل کے بزرگ بیمار کو تشویش کا بوجھ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ؟اور اگرانہیں تشویش کا بوجھ اٹھانا ہی ہے توپھربھارت کے ڈاکٹر کفیل خان کے لئے بھی اٹھائیں ،تیس جنوری 2020ء کواترپردیش پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اس بھارتی پشتون پر بھی وہی الزام ہے جو یہاں پاکستانی پشتون پر ہے ،منظور پشتین ’’پشتون ‘‘ ہونے کے ناطے انکی شفقت اور توجہ کا مستحق ہے تو بھارتی پشتون ڈاکٹر کفیل کیوں محروم ؟ افغان صدر کو قو م پرستی میں یہ ڈنڈی نہیں مارنی چاہئے انہیں بھی نئی دہلی کو مخاطب کرکے مودی جی کو ٹوئٹ کرنا چاہئے سمجھانا چاہئے پرامن شہری تحریکوں سے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں ،ان سے ملیں ،یہ آپکے بچے ہیں شفقت سے پیش آئیں لیکن ڈاکٹر کفیل کی گرفتاری پر ابھی تک ٹوئٹر کو ان کی طرف سے کوئی نصیحت موصول نہیں ہوئی یہ صریحا زیادتی ہے اس پر کم ازکم پی ٹی ایم اور محمود خان اچکزئی کو تو احتجاج کرنا چاہئے کہ منظور پشتین کی طرح ڈاکٹر کفیل بھی پشتون ہے اسکی رگوں میں بھی افغان لہو دوڑ رہا ہے اسکے آباؤ اجداد بھی افغانستان سے ہیں، بھارت کہہ رہا ہے کہ یہ شہریت کے قانون میں ترمیم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں جلتی پر تیل چھڑک رہا تھا انتشار پھیلا رہا ہے یہاں پاکستان کا بھی منظور پشتین پر یہی الزام ہے پھر ایک پشتون نوجوان کے لئے کابل سے ٹوئٹ ہواور دوسرا محروم رہے، کیوں جی یہ تو انصاف نہ ہوا یا پھرصاف سی بات ہے کہ یہاں دال میں کچھ کالا ہے کتنا کالا ہے یہ دیکھنے کے لئے تاریخ کے ہاتھوں سے دیگچی کا ڈھکن ہٹایاجائے تو پتہ چلے گا کہ پاکستان کے بغض میں پوری دال ہی کالی ہے۔