وطن سے دور رہنے والے جناب نسیم احمد باجوہ نے اپنی یورپ کی ڈائری میں روزنامہ 92 نیوز میں شائع ہونے والے میرے کالم کو پسند فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ 1945سے لیکر 1946ء تک میں گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ میں پڑھا ، 1950-51ء میں گورنمنٹ ہائی سکول دیرہ غازی خان میں میٹرک کاامتحان پاس کیا ، اس دوران یہ فائدہ ہوا کہ سرائیکی جیسی میٹھی زبان آسانی سے سیکھ لی ، جس کی بدولت آج بوڑھے ہو کر صوفیانہ کلام کو سمجھنے میں آسانی ہوگئی ۔ ‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ آج لندن میں میرے گھر کی لائبریری ہر مہمان کیلئے قابل فخر ہے لیکن سب سے جو اہم ہے وہ جھوک پبلشرز کی سرائیکی اردو لغت کی دو جلدیں ہیں جوکہ 1881ء میں مظفر گڑھ کے آبادکار انگریز افسر اوبرائن نے اپنی ضرورت کے تحت مرتب کروائی اور پروفیسر شوکت مغل نے اردو رسم الخط میں تبدیل کر کے بہت اچھا کام کیا ۔ ‘‘ نسیم احمد باجوہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’ آج بھی میں اپنے تھل کو نہیں بھولا ، گو کہ میری والدہ کا تعلق انڈیا روہتک سے تھا ۔مگر بھکر خوشاب اب بھی یاد ہے۔ دھریجہ صاحب کا چولستان کے بارے میں کالم پڑھ کر بہت معلومات حاصل ہوئیں اور لطف آیا ۔ ‘‘ ’’ آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا ‘‘ کے مصداق مجھے نسیم صاحب کے کالم سے احساس ہوا کہ ہمیں اپنے وسیب اور پاکستان کے عظیم صحرا چولستان اور تھل کے بارے میں لکھنا چاہئے ۔ خصوصاً غیر قانونی شکار اور ناجائز الاٹمنٹوں کے بارے میں ۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی چولستان ، تھل اور دوسرے علاقوں میں سائبریا اور دوسرے ٹھنڈے علاقوں سے مسافر پرندے بہت آتے ہیں ۔ تلور اور دوسرے پرندے سائبریا سے آتے ہیں ۔ سائبریا کو کالے پانی کا علاقہ کہا جاتا ہے، انگریزی دور میں ہندوستان کے مجاہدین آزادی کو سزا کے طور پر ’’ کالا پانی ‘‘ بھیجا جاتا تھا ، ہمارے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مجاہدین کی خاک سائبریا کے گلیشئرز کا حصہ بنی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہاں سے آنے والے مہمان پرندوں میں بھی اپنائیت محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان سے ہمارا کوئی خونی رشتہ ہے۔ سائبریا سے تھوڑا آگے جائیں تو دنیا کا معروف خطہ قطب شمالی آتا ہے جہاں چھ مہینے دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے یوں سائبریا اور قطب شمالی سے آنے والے تمام پرندوں کی اہمیت مسلمہ ہے مگر تلور اور بازخاص طور پر قابل ذکر ہیں ، تلور کا گوشت عرب شیوخ کی مرغوب غذا ہے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں تلور جونہی سائبریا سے چولستان کا رخ کرتے ہیں تو متحدہ عرب امارات کے شیوخ پاکستان آ جاتے ہیں ، ان شیوخ کے ساتھ ایک فوج ظفر موج گاڑیوں کے کانوائے کے ساتھ موجود ہوتی ہے ۔ عرب شیوخ کے آمد کے ساتھ ہی سرائیکی وسیب کے چولستان میں چرند پرند کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔ اس پر وسیب اس قدر صدمے کا شکار ہے کہ وہ رونا بھی چاہتا ہے تو رو نہیں سکتا ، ایک صدمہ چولستان میں ناجائز الاٹمنٹوں کا ہے ۔ دوسرا شکاریوں نے چولستان کے قدرتی حسن کو برباد کر دیا ہے ۔ چولستان جو کہ پرندوں اور قیمتی جانوروں کے لئے مقتل گاہ بنا ہوا ہے۔ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ چولستان کو پرندوں کے شکاریوں سے بھی بچایا جائے اور لینڈ مافیا جو کہ مسلسل زمینوں کا شکار کر رہی ہے ‘ ان سے چولستان کو محفوظ بنایا جائے کہ وہ نہ تو چولستان کی تہذیب و ثقافت سے واقف ہیں اور نہ ہی ان کو چولستان کے تقدس کا کچھ خیال ہے۔ہمارے عظیم شاعر خواجہ فرید نے اپنی شاعری میں چولستان کی تعریف مقدس سر زمین کے طوپر کی ہے۔ چولستان کے ٹیلوں کو ’’ کوہ طور ‘‘ سے تشبیہ دی ہے ۔ چولستان کے کانٹے دار درختوں کو شمشاد اور صنوبر کہا ہے مگر میری مقدس سر زمین چولستان کو ظالم شکاریوں نے دبوچ لیا ہے ۔ ہم نے سوچنا ہے کہ ہم نے اپنی مقدس دھرتی شکاریوں کے چنگل سے کیسے آزاد کروانی ہے۔ سرائیکی وسیب کا وسیع صحرا چولستان اپنے قدرتی حسن اور شکاریات کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا ہے ، مقامی امراء چولستان میں ہرن کا شکار کرتے ہیں۔ عربی شیوخ تلور اور دوسرے پرندوں کا اپنی ان شکاریوں کی کارستانیوں کے سبب چولستان میں ہرن کی نسل ختم ہونے کے قریب ہے اور تلور بھی کمیاب ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورت رہی تو ان کا تذکرہ صرف اور صرف کتابوں میں ملے گا۔ تلور کے شکار کیلئے عرب حکمران بہت ہی قیمتی اور مہنگے باز ساتھ لاتے ہیں ان بازوں کی قیمت ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں ڈالر تک ہوتی ہے۔ باز، عقاب اور شکرا وغیرہ ایک خاندان یا نسل سے تعلق رکھتے ہیں مگر باز ان سب سے اہم ہے اور ان کا اپنا الگ سسٹم ہے ۔ بازوں کا بادشاہ بھی ہوتا ہے اسے شہباز کہتے ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ سردی کے اس موسم میں سرائیکی وسیب آنے والے پرندوں تلور، باز، کونج اور مرغابی وغیرہ کو انگریزی میں Migrated Birds جبکہ اردو میں مسافر یا مہاجر پرندے سرائیکی میں ان پرندوں کو ’’ پناہ گیر پکھی ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ پہلے تو مشکل ہے کہ پناہ کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً چولستان میں آنے و الے پرندوں سے وسیب کی روایات سے بر عکس سلوک ہو رہا ہے۔ یہ مہمان پرندے معصوم ہی نہیں دلنواز بھی ہیں ۔ ایک وقت تھا کہ ان مہمانوں کو وسیب میں موت نہیں حیات ملتی ہے ۔ پیار، محبت اور انس ملتا تھا ، شاید انہی پرندوں کے بارے میں عظیم سرائیکی شاعر خواجہ فریدؒ نے کہا تھا:۔ پکھی پردیسی اُبھے سردے۔ ڈٖو ڈٖینھ دے خلقائیں وسیب کے ان پرندوں کو مانوسیت اور محبت کا یہ عالم ہے کہ جیسے ہی کونج سرائیکی وسیب میں داخل ہوتی ہے ، بچے ، بوڑھے ، جوان غول در غول آنیوالی کونجوں کا استقبال کرتے ہیں ، سب کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں اور سب ملکر کونجوں کو سرائیکی میں صدا دیتے ہیں ’’ کونجا ڑی کونجاں سخی سرور دا پھیرا پاتی ونجو‘‘ یہ آواز اور یہ التجا سنتے ہی کونجوں کے غول دیرہ غازی خان میں مدفن حضرت سخی سرور کے نام پر پھیرے مارنا شروع کر دیتے ہیں ، ہم آج ان مہمان پرندوں سے کیا سلوک کر رہے ہیں ؟ یہ سوچتے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ عرب شیوخ نے چولستان کے بعد سرائیکی وسیب کے اہم ڈویژن دیرہ غازی خان کا بھی رخ کر لیا ہے اور وہاں بھی پرندوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو’’ مال ‘‘ مل رہا ہے ، وہ شکاریوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں کہ عرب شیوخ یہاں رفاہی کام کرتے ہیں ، ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی دھرتی انا اور غیرت کے بدلے کچھ نہیں چاہئے ۔ خدارا وسیب کو ہر طرح کے شکاریوں سے بچایا جائے ۔