آرمینیا کے مقابلے میں آذر بائیجان کی حمایت کر ناکیا پاکستان کا غلط فیصلہ تھا؟ محتاط سا موقف اختیار کرنے کی بجائے ایک فریق کی اعلانیہ اور غیر مبینہ حمایت کر کے کیا پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایک ایسی غلطی کر دی ہے جس کا خمیازہ ہمیں آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑ سکتا ہے؟کئی اہل علم اس کا جواب ’’ ہاں ‘‘ میں دے رہے ہیں لیکن میرے جیسے طالب علم کے نزدیک پاکستان نے کوئی غلطی نہیں کی ۔یہ نہ صرف ایک درست فیصلہ ہے بلکہ یہ پاکستان کے اعلانیہ اور روایتی موقف کے عین مطابق پوزیشن ہے جو حکومت نے اختیار کی ہے۔ آذر بائیجان اور پاکستان کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔آذر بائیجان جب سوویت یونین کے انہدام کے بعد بطور ایک خود مختار ریاست وجود میں آیا تو رومانیہ اور ترکی کے بعد پاکستان تیسراا ملک تھا جس نے اسے تسلیم کیا ۔ترکی اور پاکستان نے ایک ہی دن آذر بائیجان کو تسلیم کیا اور دونوں ممالک کے اس فیصلے کے بیچ صرف چوبیس منٹ کا فرق ہے۔ترکی نے پاکستان سے چوبیس منٹ پہلے آذر بائیجان کو تسلیم کر لیا۔ دوسری جانب آرمینیا ہے۔ دنیا میں صرف ایک ملک ہے جس نے آرمینیا کو آج تک بطور ریاست قبول نہیں کیا۔ یہ ملک پاکستان ہے۔اسرائیل کے بعد یہ واحد ریاست ہے جسے پاکستان نے تسلیم نہیں کیا۔یہ معمولی پوزیشن نہیںہے۔یہ غیر معمولی اور اعلانیہ پوزیشن ہے۔ یہ ریاست پاکستان کا تین عشروں پر محیط موقف ہے۔ عمران خان حکومت نے اگر آذر بائیجان کے موقف کی حمایت کی ہے تو کچھ نیا یا غلط نہیں کیا ،پاکستان کے روایتی موقف میں اور کوئی صورت ہی نہیں تھی۔کچھ اور کیا جاتا تو ریاست کی طے شدہ پالیسی سے انحراف ہوتا۔ آذر بائیجان اور آرمینیا میں وجہ تنازعہ ناگورنو کاراباغ کا علاقہ ہے، جہاں آرمینیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔ پاکستان نے اس قبضے کو ناجائز قبضہ سمجھا ہے ۔ یہ موقف اکیلے پاکستان کا نہیں ہے۔دنیا بھر میں اس قبضے کو ناجائز سمجھا جاتا ہے۔ تازہ جنگ بھی اسی سیاق و سباق میں ہو رہی ہے تو پاکستان کوئی مبہم موقف کیسے اختیار کر سکتا تھا؟ اسے واضح پوزیشن لینا تھی اور وہ اس نے لی۔ آذر بائیجان کے مقبو ضہ جات کے بارے میں ترکی کی ایک حساسیت ہے۔ہم نے اس کا ساتھ دیا ہے۔ ہماری کشمیر پر حساسیت ہے ترکی نے ہمارا ساتھ دیا ہے ۔اس وقت بھی جب مسلم دنیا سے پاکستان کو حمایت نہیں مل رہی ترکی ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔البتہ پاکستانیوں کو شدت جذبات میں خود پر ممنونیت کی رقت طاری کر لینے کی بجائے یہ سمجھنا چاہیے کہ ترکی نے کشمیر پر ہمارا ساتھ دیا ہے تو ہم بھی آذر بائیجان کے مسئلے پر پہلے دن سے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ہمارے ہاں ایک خاص طبقہ ہے جس کے خیال میں پاکستان نے تو کسی سے کبھی کوئی بھلا کیا ہی نہیں یہ جو چند دوست ممالک ہیں یہ تو وفا کی یکطرفہ مثالیں قائم کیے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے ریاستوں کے بیچ نہ کوئی لیلی ہوتی ہے نہ مجنوں ہوتا ہے۔یہاں مفادات باہمی ہوتے ہیں اور وہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ آرمینیا اور آذر بائیجان کے اس تنازعے کو دیکھنے کا ایک زاویہ انٹر نیشنل لاء بھی ہے۔ انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں آذر بائیجان حق پر ہے اور آرمینیا کا گورنو کاراباغ پر قبضہ ناجائز ہے۔اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں۔ ان قراردادوں میں آرمینیا سے نا گورنو کاراباغ پر ناجائز قبضہ ختم کرنے کا کہا گیا ہے۔جیسے اسرائیل فلسطین کے مقبوضہ علاقے خالی نہیںکررہا اور جیسے بھارت کشمیر پر سلامتی کونسل کی بات نہیں سن رہا ، ایسے ہی آرمینیا نے بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔ایسے میں پاکستان کس کاساتھ دیتا؟ پاکستان کا موقف انٹر نیشنل لاء کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پاکستان نے ناگورنا کاراباغ پر آرمینیا کے قبضے کو کبھی تسلیم نہیں اور آذر بائیجان نے کشمیر پر بھارت کے قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ابھی جب مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے جارحانہ قدم اٹھایا اور پاکستان اپنے دوست ممالک کی طرف دیکھتا اور مایوس ہوتا رہا ، اس عالم میں جو تھا اور جتنا تھا ، آذر بائیجان ہمارے ساتھ تھا۔ اس کے صدر نے نہ صرف بھارت کی مذمت کی اور پاکستان کی تائید کی بلکہ اس نے اقوام عالم سے بھی کہا کہ بھارت کے ناجائز قبضے اور ظلم و ستم پر عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔چند ماہ پہلے وہ ہمارے ساتھ کھڑا تھا ، آج پاکستان اسے تنہا کیسے چھوڑ دیتا ؟کسی کو بات کی سمجھ نہ آ رہی ہو تو بھارتی اخبارات کھول کر دیکھ لے کشمیر پر آذر بائیجان کے موقف کو پڑوس میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ کشمیر پر آذر بائیجان کا دو ٹوک موقف ہی تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے آذر بائیجان کو ملفوف دھمکی دی تھی کہ اب ہمیں بھی آرمینیا کی حمایت میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔آذر بائیجان او آئی سی کے کشمیر کانٹیکٹ گروپ کا رکن ہے اور پاکستان کی اعلانیہ حمایت کرتا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ناگورنا کاراباغ کے مسئلے پر آذر بائیجان کے حق میں جو قرار داد پاس کی تھی اس میں پاکستان کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔سلامتی کونسل کے اس اجلاس کی صدارت بھی پاکستان کر رہا تھا۔ آرمینیا کا پاکستان میں اور پاکستان کا آرمینیا میں کوئی سفارت خانہ نہیں۔پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے کہ جب تک آرمینیا آذر بائیجان کے علاقے پر ناجائز قبضہ ختم نہیں کرتا اسے بطور ریاست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔اب اسی علاقے پر لڑائی ہو رہی ہے تو پاکستان کیا کرتا ؟ کیا وہ اپنا تیس سالہ موقف پھاڑ کر چولہے میں پھینک دیتا؟