ایسے وقت میں جب ساری قوم کرونا سے نمٹنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے کچھ لوگ مصیبت کے وقت مزید پریشانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ چند ہفتے قبل سرگرم ہونے والے گراں فروش اور ذخیرہ اندوز ایک بار پھر گندم اور آٹے کی عوام کو فراہمی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کو تیار ہیں۔دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح کرونا وائرس نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کرونا کو وبا قرار دے چکا ہے اور اس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے تاحال سب سے موثر تدبیر لاک ڈائون کو سمجھا جا رہا ہے۔ اس لاک ڈائون کے نتیجے میں حکومت کو مجبوراً ہر قسم کی ٹرانسپورٹ بند کرنا پڑی جس سے ملک بھر میں گندم اور آٹے کی سپلائی چین متاثر ہونے سے ذخیرہ اندوزوں کو موقع مل گیا کہ وہ پہلے سے پریشان عوام کو مزید پریشان کر کے منافع کما سکیں۔ کرونا وائرس ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سرحدوں کی بندش اجتماعات پر پابندی اور دفاتر و تعلیمی اداروں میں چھٹیاں کر کے صورت حال میں بہتری کی کوشش کی۔ حکومت کی طرف سے عارضی ہسپتالوں کا قیام‘ آئسولیشن وارڈز تیار کرنا اور حفاظتی سامان و ادویات کی فراہمی کے لئے اقدامات کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ ان حالات میں ایسے عناصر کو موقع مل گیا ہے کہ وہ انتظامی اداروں کی مصروفیت کا فائدہ اٹھا کر انسانیت دشمن کاروبار چمکا سکیں۔ ملک کے مختلف علاقوں سے موصول ہونے والی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے شہروں اور قصبوں میں آٹا دستیاب نہیں۔ اگر کہیں دستیاب ہے تو سرکاری نرخوں سے زاید پر فراہم کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے تین روز قبل گڈز ٹرانسپورٹ کو سڑکوں پر آنے کی اجازت دیدی تھی۔ سرکاری رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ گڈز ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے گندم اور آٹے کی فراہمی متاثر ہوئی۔ تین دن گزرنے کے بعد یہ سپلائی بہتر نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ یہ بدانتظامی کا معاملہ ہے جسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر خوراک و زراعت اور فوڈ سکیورٹی خسرو بختیار وزیر اعظم کی موجودگی میں بتا چکے ہیں کہ پاکستان میں گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔ وزیر خوراک نے گندم کے ساتھ درآمدی دالوں اور خوردنی تیل کی فراہمی اور دستیابی کے حوالے سے بھی صورت حال اطمینان بخش ہونے کا بتایا۔ محکمہ خوراک نے ٹرکوں میں تھیلے لاد کر شہریوں کو کنٹرول نرخوں پر آٹا فراہم کرنے کا بندوبست کیا ہے لیکن لاہور جیسے شہر میں 17پوائنٹ کس حد تک ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔وزیر اعظم نے ٹائیگر فورس کی تشکیل کا حکم دیاہے۔ ایک نیا ادارہ اور نئی تنظیم جس کے اکثر اراکین ناتجربہ کار ہوں گے اس کے ذمہ لوگوں کے گھروں میں راشن پہنچانے کا کام لگایا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے نئی رضا کار فورس کو مسترد کرنے کا سبب کوئی سیاسی معاملہ ہو سکتا ہے لیکن انتظامی پہلو سے دیکھیں تو بھی یہ خیال زیادہ مفید ثابت ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔گھروں میں بیٹھے سرکاری سکولوں کے اساتذہ،محلہ کمیٹیوں‘ فلاحی تنظیموں اور این جی اوز کو اس عمل میں شریک کر کے مستحق افراد تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل حکومت میں شریک کچھ افراد وزیر اعظم سے یوٹیلیٹی سٹور کا ادارہ ختم کرنے کی سفارش کرتے رہے ہیں۔ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کر لئے تھے کہ آٹا اور مہنگائی کے بحرانوں نے اسے یوٹیلیٹی سٹورز سے استفادہ کی راہ دکھائی۔ نجی دکانوں پر جب گراں فروش مافیا پنجے گاڑ چکا ہو تو ایسے میں یوٹیلیٹی سٹور کے ذریعے سرکاری نرخوں پر اشیائے ضروریہ کی فراہمی سے شہریوں کے مسائل کم سے کئے جا سکتے ہیں۔ اشیائے ضروریہ کی مسلسل فراہمی کے لئے جن اقدامات کی ضرورت ہے حکومت ان سے یقینا باخبر ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ امر فراموش کر دیا گیا کہ شاہرائوں کے کنارے اگر ڈھابہ ہوٹل بند ہوں گے تو ٹرانسپورٹ عملہ کھانا کہاں سے کھائے گا‘ اسی طرح اکثر مقامات پر پولیس ملازمین کی وجہ سے ٹرانسپورٹروں کو شکایت پیدا ہوئی۔ اب تک جس چیز کی طرف توجہ نہیں دی گئی وہ نگرانی کا نظام ہے۔ سرکاری ادارے اور ملازمین بیک وقت کئی طرح کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر علاج معالجے کی سہولیات‘صفائی اور دیگر معاملات کو دیکھ رہے ہیں‘ انہیں مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور گراں فروشی سے نمٹنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ بحران کا زمانہ اجتماعی ذمہ داری سے آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں‘ دینی تعلیم کے ادارے‘ کالج یونیورسٹیز کے طلبا کو اس موقع پر آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ لوگ گلی محلے کی سطح پر اشیا کی قلت گراں فروشی یا ذخیرہ اندوزی کی شکایت کر سکتے ہیں‘ ایک آسان حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت موبائل فون ایپلی کیشن جاری کر دے جس پر لوگ اس نوع کی شکایت درج کرا سکیں اور اگر ان کے علاقے میں اشیائے خورو نوش دستیاب نہیں تو وہاں دستیابی یقینی بنائی جا سکے۔ پہلے سے جو ایپلی کیشن کام کر رہی ہیں ان پر شکایات کو دوور کرنے کا وقت کم کیا جائے۔ اللہ کے پیارے رسولؐ نے فرمایا کہ جس نے ذخیرہ اندوزی کی یا ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ مدینہ کی مثالی ریاست میں ایسے انسان دشمن رویوں کی حوصلہ شکنی کے لئے کڑی سزائیں دی گئیں۔ وزیر اعظم کے پاس وہ رپورٹ پہنچ چکی ہے جس میں آٹا بحران کے ذمہ داروں کا تعین کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں پیشرفت کا نہ ہونا یہ تاثر پیدا کرتا ہے کہ وزیر اعظم ذمہ دار افراد کی جانب سے دبائو کا شکار ہیں۔ ہر پاکستانی کرونا سے نمٹنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے‘ لوگ صدقات و خیرات کر رہے ہیں‘ بہت غریب افراد بھی اپنے سے زیادہ مستحق افراد کی مدد کر رہے۔ ان حالات میں اگر کوئی شخص یا گروہ ضروریات زندگی کی فراہمی کا تسلسل توڑتا ہے تو اس کے خلاف بھر پور کارروائی کی جانی چاہیے۔