اردو کا ایک شعر ہے کہ ’’ یادِ ماضی عذاب ہے یا رب ، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ‘‘ ، 30 سال پہلے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں ، 11 جون 1990ء کو ہم نے پہلے سرائیکی اخبار روزنامہ جھوک کا آغاز کیا تو دوسرے صاحبانِ علم کے ساتھ ساتھ ہمیں صاحبزادہ خورشید گیلانی کی شکل میں ایک ایسی علمی شخصیت کی شفقت حاصل ہوئی ، جنکے علم کا شہرہ پوری دنیا میں تھا ۔ وہ سرائیکی کے ادیب نہ تھے مگر اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے انہیں بے پناہ محبت تھی ۔ لاہور کے معروف شاعر ادیب و صحافی عمران نقوی اپنی کتاب ’’خورشید گیلانی ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ صاحبزادہ خورشید گیلانی کی شخصیت میں ایک ایسا سحر تھا کہ دوست احباب پہلی ملاقات میں ان کے گرویدہ ہو جاتے لیکن خورشید گیلانی اپنے احباب کے انتخاب میں بڑے محتاط تھے ۔ ہ مزید لکھتے ہیں کہ سرائیکی زبان صوفیاء کی زبان ہے، اس کی مٹھاس میں صوفیاء کی محبت کا والہانہ پن ، ان کا انکسار اور ان کی وارفتگی شامل ہے۔ خورشید گیلانی کی شخصیت کا خمیر اسی زبان سے اٹھا تھا ۔ صاحبزادہ خورشیدگیلانی کا خانپور سے قریبی تعلق ہے ، جوانی کا اہم حصہ انہوں نے بغرض تعلیم خانپور میں گزارا ، خانپور کے مدرسہ سراج العلوم میں شیخ الحدیث حضرت مولانا سراج احمد درانی المعروف سراج اہل سنتؒ ، مفتی عبدالواحد قادریؒ اور مولانا مفتی مختار احمد درانی سے تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ یہ کوئی 1970 ء کے عشرے کی بات ہے کہ راجن پور کے علاقہ شکار پور سے دو نوجوان خانپور بغرض تعلیم آئے ، دونوں بھائی ایک دوسرے سے بڑھ کر ذہین ، محنتی اور شرم و حیاء کا پیکر تھے۔حصول تعلیم کے بعد آپ لاہور اور پھر حافظ آباد چلے گئے ، جہاں انہیں ابراہیم سجاد، راشد اقبال ، احسان بھٹی جیسے پُر خلوص دوستوں کی رفاقت سے حافظ آباد کو علم و ادب کا مرکز بنا دیا۔مگر 1989ء کے آخر میں دوبارہ خانپور آ گئے اور 1990 کے آخر تک خانپور میں قیام کیاتو دوبارہ علمی ، ادبی محافل شروع ہو گئیں ۔ خانپور میں آپ کے دوستوں میں صاحبزادہ فاروق القادری ، حافظ احمد رضا، حاجی محمد صدیق رحمانی ، خواجہ محمد ادریس ، چوہدری محمود احمد زاہد، مولانا غلام نازک فریدی ، حافظ محمود احمد، محمد رمضان جعفری، حاجی فیاض احمد، منیر احمد دھریجہ و دیگر شامل تھے ۔ صاحبزادہ خورشید گیلانی کے دوست حافظ احمد رضا بتاتے ہیں کہ اُن کو اپنے آبائی گائوں شکار پور کے ساتھ ساتھ خان پور سے بہت محبت تھی۔ وہ خان پور کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’گیلانی صاحب سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں زیر علاج تھے تو انہوں نے ایک مصنف کا حوالہ دے کر بتایا کہ وہ بیمار رہتے تھے انہوں نے حضور پاکؐ کی سیرت لکھی تو وہ صحت یاب ہو گئے، میری بھی ایک حسرت ہے کہ شفایابی کے بعد میں سیرت پاکؐ پر کتاب لکھوں گا اور یہ کام میں خان پور میں بیٹھ کر کروں گا ‘‘۔ مگر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ صاحبزادہ خورشید گیلانی عالم دین و اہل قلم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ نہایت ہمدرد اور غمگسار تھے پسماندہ اور غریب طبقات سے محبت کرتے تھے۔ سید اسرار حسین بخاری نے صاحبزادہ خورشید گیلانی کی وفات پر لکھا کہ موت اگرچہ دوام زندگی کی صبح ہے مگر ہم جو اس سحر کے پیچھے موجود رات کے باسی ہیں موت کو غم و اند وہ کی ایسی شب تاریک سمجھتے ہیں کہ دست ادراک کو صرف الم ہی سجھائی دیتا ہے۔ سید خورشید گیلانی 12 سے زائد کتابوں کے مصنف تھے ۔ ان میں خون جگر ہونے تک ، فکر امروز ، عصریات ، اسلوب سیاست ، الہدیٰ ، فکر اسلامی ، تاریخ کی مراد ، روح تصوف ، روح انقلاب ، رشک زمانہ لوگ ، وحدت ملی اور قلم برداشتہ شامل ہیں۔ خورشید گیلانی کے لکھنے کا اپنا اندازاور اپنا اسلوب تھا ۔ آپ کی کتاب قلم برداشتہ سے ایک نمونہ دیکھئے ، آپ لکھتے ہیں’’ مہذب قوم وہ ہوتی ہے جو احساس کمتری کی مریض نہ ہو ، جس کا لباس، وضع قطع، بود و باش اور چال چلن اس کے اپنے قومی رحجان کا آئینہ دار ہو جبکہ احوال یہ ہے کہ سر کی چوٹی سے لیکر پاؤں کے تلوے تک ہر نقش ادھار لگتا اور مستعار معلوم ہوتا ہے ۔ ‘‘ صاحبزادہ خورشید گیلانی کی پیدائش1956ء میںقصبہ شکار پور میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ، بعد ازاں جامع شاہ جمالیہ مانہ احمدانی میں شیخ الحدیث مولانا محمد اکرم شاہ جمالی سے تعلیم حاصل کی ۔ ’’ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی ، سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی ‘‘ کے مصداق آپ کے استاد محترم بتاتے تھے کہ سینکڑوں و ہزاروں شاگرد آئے مگر ذہانت و فرمانبرداری میں خورشید گیلانی اپنی مثال آپ تھے ۔بے مثال کیوں نہ ہوتے کہ آپ کے والد محترم حضرت سید احمد شاہ گیلانی بہت بڑے عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کی روحانی شخصیت تھے ۔ انہوں نے اپنے گاؤں شکار پور ضلع راجن پور میں علم کا فیض عام کیا ۔ اور علم دوستی کیساتھ ساتھ لوگوں کو انسان دوستی کا درس دیا ۔ خورشید گیلانی کی عظیم علمی خدمات کے پیش نظر سابق ڈی سی او راجن پور غازی امان اللہ نے راجن پور کی ایک اہم شاہراہ ہائی سکول روڈ کو خورشید گیلانی روڈ کے نام سے منسوب کیا ۔ لاہور کے علاقے مرغزار میں ایک پارک بھی خورشید گیلانی کے نام سے منسوب ہے ۔ خورشیدگیلانی کی تاریخ وفات 12 ربیع الاول بمطابق 5 جون 2001ء ہے ۔ 12 ربیع الاول کو اس لئے بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ یہ تاریخ سرور کائنات ، فخر موجودات سرکارِ دو عالم ؐ کی ولادت اور دنیا سے پردہ فرمانے کی تاریخ بھی ہے ۔ صاحبزادہ خورشید گیلانی کی وفات پر سابق صدر محمد رفیق تارڑ، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ، سابق گورنر شاہد حامد سمیت بہت سے اکابرین نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی سچے مسلمان با صلاحیت قلم کار تھے ۔ اسلام اور پاکستان سے ان کی وابستگی لاریب تھی ۔ اس کے ساتھ جو بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سابق صدر سردار فاروق احمد لغاری نے صاحبزادہ خورشید گیلانی کی صلاحیتوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ صاحبزادہ کے کسب کمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور پر پسماندگی کا الزام درست نہیں ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا یہ بات تسلیم کرتی ہے کہ سرائیکی وسیب بہت مردم خیز سرزمین ہے ، اس میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں البتہ حکمرانوں نے اس خطے کو ہمیشہ پسماندہ رکھا ۔