دہلی کے ایک زمانہ امتحانی مرکز میں بی اے(انگریزی) کا امتحان ہو رہا تھا، امیدواروں میں ایک لڑکی راجکماری بھی تھی، جو سامنے پڑے پیپر (سوال نامے) پر نظریں جمائے کسی گہری سوچ میں گم تھی، لگتا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا چیز ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔ دوسری لڑکیاں تو لکھنے میں مصروف تھیں۔ گاہے گاہے نگران خاتون کی نظر سے بچ کر تھوڑا بہت تبادلہ خیال بھی کر لیتی تھیں لیکن راجکماری بت بنی پیپر کو تکے جا رہی تھی۔ امتحان کو شروع ہوئے پندرہ بیس منٹ ہو چکے تھے لیکن راجکماری نے ابھی تک قلم تک ہاتھ میں نہیں پکڑا تھا۔ اس نے دونوں کہنیاں میز پرلگائی ہوئی تھیں اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں پر سر ٹکا رکھا تھا۔ ایک نگران اس کی نگرانی کرتے کرتے تھک گئی تو قریب جا کر راجکماری سے کہنے لگی۔ ’’لڑکی کس سوچ میں گم ہو۔ پرچہ بہت مشکل ہے کیا؟‘‘راجکماری نے نظریں اٹھا کر نگران خاتون کو دیکھتے ہوئے کہا:پرچہ اتنا آسان ہے کہ سوچ رہی ہوں کہ کون سا سوال پہلے کروں۔ نگران یہ جواب سن کر آگے بڑھ گئی۔ آخر وہ گھڑی بھی آ گئی جب راجکماری نے قلم پکڑا۔ امتحانی کاپی پر اپنا نام رول نمبر وغیرہ لکھا اور سوال نامے کو ایک طرف کرتے ہوئے لکھنا شروع کر دیا، جب اسے لکھتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا ،تو اس نے کپڑوں کے کسی خفیہ خانے سے ایک چھوٹے سائز کا موبائل نکالا اور نہایت مہارت سے نگران خاتون سے نظر بچا کر اپنے ہی لکھے ہوئے صفحات کے فوٹو لینے لگی۔ نگران جو پہلے ہی اس کی حرکات کو مشکوک سمجھ رہی تھی۔ تیزی سے آگے بڑھی۔ راجکماری نے گھبرا کر موبائل کو چھپانے کی کوشش کی لیکن نگران خاتون نے موبائل چھین لیا۔ اس کی امتحانی کاپی بھی قبضے میں کی اور دونویں چیزیں امتحانی مرکز کی سپرنٹنڈنٹ کے سامنے رکھ دیں۔ سپرنٹنڈنٹ راجکماری کی تحریر پڑھنے لگی وہ پڑھتی جا رہی تھی اور اس پر چودہ طبق روشن ہوتے جا رہے تھے راجکماری نے کیا لکھا تھا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ڈیئر تنویر! نمستے ۔ کیسے ہو؟ کیا چل رہا ہے‘ مجھے یوں لگتا ہے کہ تم ایگزامینیشن ہال کے باہر میرا انتظار کر رہے ہوں گے لیکن خیال رکھنا پتا جی کو کسی نے بتا دیا تھا کہ راجکماری ایک مسلم لڑکے سے عشق کرتی ہے۔ اسی کارن وہ خود مجھے یہاں چھوڑنے آتے ہیں اور پرچہ ختم ہونے تک باہر کنٹین پر بیٹھے رہتے ہیں،تم ذرا کنٹین سے دور دور رہنا۔ ایسا نہ ہو کہ تمہیں دیکھ کر انہیں شک ہو جائے، اس وقت میں ہال میں بیٹھی پرچہ حل کر رہی ہوں یعنی کہ تمہیں یہ خط لکھ رہی ہوں۔ پرچہ انگریزی میں ہے لیکن اگر یہ یونانی یا لاطینی زبان میں بھی ہوتا تو میرے لئے ایک ہی بات تھی۔مجھے تو کسی سوال کی سمجھ نہیں آ رہی۔ جواب میں نے خاک لکھنا ہے۔ اب یہاں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ تو مجھے لکھنا ہی ہے۔ یہاں ایک مکروہ شکل والی نگران عورت ہے جو مسلسل مجھے گھورے جا رہی ہے۔ میں سوچ ہی رہی تھی کہ کیا کروں۔ اچانک خیال آیا کیوں نہ تمہیں ایک محبت نامہ تحریر کروں اور پھر کیمرے سے اس کے فوٹو لے کر تمہیں بھیج دوں۔ موبائل اندر لانے کی اجازت نہیں ہے لیکن میں نے گردن سے ذرا اوپر بالوں کے جوڑے میں ایک موبائل چھپا لیا تھا۔ اس موبائل میں تھوڑا نقل کا سامان بھی ہے لیکن وہ سوال آئے ہی نہیں۔ اب میں خط ختم ہونے پر تمھیں اس خط کے فوٹو لے کر بھیج دوں گی۔ سوچتی ہوں جب ایگزامینر میرا پرچے پڑھے گا تو اس پر کیا گزرے گی۔ اگر اسے عشق کرنے والوں سے ہمدردی ہوئی تو ہو سکتا ہے مجھے پاس ہی کر دے۔ نیک لوگ بھی تو ہوتے ہیں دنیا میں۔ وہ ایک شعر ہے نا کہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا۔ پیارے تنویر!ہم نے زندگی بھر اکٹھا رہنے یعنی شادی کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ،میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی اور میرا خیال ہے کہ تم بھی میرے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پچھلے مہینے جب تم آٹھ دس دن کے لئے جالندھر چلے گئے تھے، میری حالت بہت بری ہو گئی تھی وہ تو بھگوان بھلا کرے موبائل بنانے والے کا کہ ہم موبائل پر بات کر لیتے تھے۔ یہ سہولت نہ ہوتی تو شاید میں زندہ بھی نہ رہ سکتی۔میرے پیار میں میرا مطلب ہے شادی کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ میں ہندو ہوں اور تم مسلم۔میرے پتا جی‘ جیسا کہ تم جانتے ہو مودی کی پارٹی میں ہیں۔ مسلمانوں کا تو وہ نام بھی سننا نہیں چاہتے، میں تو بھگوان سے پراتھنا کرتی ہوں کہ وہ مودی کو اٹھا کر نرگ میں ڈال دے۔ یہ منحوس ہمارے کموں میں لکھا ہوا تھا۔ ہندو اور مسلم ہونے سے کیا ہوتا ہے تم نے ہی مجھے بتایا تھا کہ پنڈت نہرو کی بہن نے ایک مسلمان سے شادی کی تھی اور اندرا گاندھی کا بھی کچھ ایسا ہی چکر تھا۔ عشق تو عشق ہوتا ہے، فرض کرو تم مسلمان نہ ہوتے ،سکھ‘ یہودی یا عیسائی ہوتے، مجھے اس سے کیا فرق پڑنا تھا۔میں نے تو ہر حال میں تم سے عشق کرنا تھا۔ عشق نام ہی اس کا ہے ۔ تیرا بیڑہ غرق مودی۔ تیرا ستیا ناس۔شکل ہی سے پیار کا دشمن لگتا ہے۔ یار ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم ہندو ہو جائو اور اپنا نام رمیش یا نریندر رکھ لو۔ نریندر تو بالکل نہ رکھنا۔ یہ تو ہمارے خبیث پردھان منتری کا نام ہے۔ سنتوش کیسا رہے گا۔ تم مجھے مت کہن کہ میں مسلمان ہو جائوں۔ میں تمہارے لئے کچھ بھی ہو سکتی ہوں، اگر میرے منہ سے ایسی کوئی بات نکل گئی تو میرے پتا مجھے جان سے مار ڈالیں گے۔ مارتے ہیں تو مار دیں۔ لیکن سوچتی ہوں میرے بعد تمہارا کیا بنے گا۔ تم نے مجھے کہا تھا کہ میں تمہارے لئے بنی ہوں۔ اور تم میرے لئے بنے ہو۔ وہ مکش جی کا گانا ہے نا‘تمہیں زمیں پہ اتارا گیاہے میرے لئے۔ میں سوچتی ہوں اگر بھگوان نے تمہیں میرے لئے اتارنا تھا تو کسی ہندو گھرانے میں اتارتے۔ یا پھر مجھے کسی مسلم خاندان میں اتارتے۔ بھگوان نے اچھا مذاق کیا ہے ہمارے ساتھ۔یوں کرتے ہیں دونوں بھاگ نکلتے ہیں۔ میرا مطلب ہے ہندوستان سے بھاگ کر پاکستان چلے جاتے ہیں۔وہاں جا کر چپکے سے شادی کر لیں گے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔ پاکستان میں سنا ہے ہر قسم کی شادی ہو جاتی ہے۔ میں وہاں جا کر مسلم بن جائوں گی۔ نام کی مسلم نہیں بلکہ سچ مچ اپنا دھرم بدل لوں گی۔ میرا دل کہتا ہے کہ اصل دھرم تو عشق ہے عشق سچا عشق اور مجھے تجھ سے سچا عشق ہے۔ بھگوان کی سوگند۔ تمہی میرے مندر تمہی دیوتا ہو اوہ سوری تمہیں میری مسجد۔ تمہی میرے رب ہو۔ میں نے کوئی غلط بات تو نہیں کہہ دی۔ سوچتی ہوں ابھی تو امتحان شروع ہی ہوا ہے۔ آج والا پہلا پرچہ ہے ،پورا امتحان پڑا ہے۔ کیا کروں گی میں نے تو عرصے سے (جب سے تمہیں پیار کر رہی ہوں) کتاب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اب ہر پرچے میں تو خط نہیں لکھا جا سکتا۔ میں تو امتحان دینا ہی نہیں چاہتی تھی۔ محبت سب سے بڑا امتحان ہے۔ اب میں بیک وقت دو دو امتحان تو نہیں دے سکتی۔ خیر جو ہو گی دیکھی جائے گی۔ تمہاری راجکماری