ایک دُھند ہے بے یقینی کی جو سماج پر تہہ دَر تہہ چھائی ہے۔لمحہ ٔ موجود تک بے یقین ٹھہرے تو آنے والے لمحے کا بھروسہ چہ معنی؟ہر کام کی ابتدابے یقینی کی دستک سے ہوتو کام تکمیل تک کیسے پہنچے؟بے یقین بستیوں کے مکینوں کی زندگیاں تک بے یقین ہو چکی ہیں ،معلوم ہی نہیںپڑتا کہ کون کس وقت مارا جاتا ہے۔یہ جو بے یقینی ہے ،یہی دَرحقیقت مصیبت ہے ،مگر یہ مصیبت ہے ،کوئی مانتا ہی نہیں۔یہ محض مصیبت ہی نہیں ،مصیبتوں کی ماں ہے۔بے زاری اور فراریت ،اس کی سگی بیٹیاں ہیں۔بے زاری اور فراریت آدمی سے تخلیقی قوت چھین لیتی ہیں ،آدمی سے تخلیقی قوت چھن جائے تو سماج سے آگے بڑھنے کی برکت اُٹھ جاتی ہے۔نجیب محفو ظ کے چند کردار وں پر جب زندگی بے یقین ٹھہرتی ہے تو وہ نیل کے کنارے ہر شام کشتی گھر میں محفل سجاتے اور خود کو بے زاری اور فراریت کے حوالے کردیتے ۔اُن میں سے ایک کردار ،صبح دفتر پہنچتا ہے اور فائل پر کام کرکے اپنے باس کے حوالے کرتا ہے تو وہ غصے سے بھر جاتا ہے کہ فائل لفظوں سے خالی ہوتی ہے ،وہ چیختا ہے کہ فائل خالی ہے،یہ دن بھر تم کیا کرتے رہے؟مگر جس کا خود پر یقین نہیں ہوتا یہ ماننے کو تیار نہیں پڑتا کہ فائل لفظوں سے خالی کیونکر ہوسکتی ہے؟جب اُس کے سامنے فائل رکھی جاتی ہے تو ایک لفظ بھی درج نہیں ہوتا۔ہوتا یہ ہے کہ جس قلم کے ساتھ بے یقین آدمی دِن بھر سرجھکائے لکھتا رہتا ہے ،اُس میں روشنائی ہی نہیں ہوتی۔ یوں روشنائی سے خالی قلم سے پوری فائل لکھ ڈالتا ہے۔ نجیب محفوظ کا یہ کردار بے زاری اور فراریت کی واضح مثال ہے۔یہ بے زاری اور فراریت کے روّیے بے یقینی سے پھوٹے تھے اور بے یقینی نظام کی دین تھی۔یہ جاننا چاہیے کہ بے یقینی سیاسی نظام میں عدم استحکام یا پھر نظام پر عدم اعتماد کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ جس بے یقینی کی لپیٹ میں نجیب محفوظ کے کردار تھے ،ایسی ہی بے یقینی پاکستانیوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔اگرچہ یہاں دوہزار آٹھ سے سیاسی عمل کاتسلسل ہے ،مگر بے یقینی ایک بڑی مصیبت کا رُوپ دھارچکی ہے۔اگرسیاسی عمل میں عدم استحکام ،بے یقینی کو جنم دیتا ہے تو یہ بے یقینی پھر کیوں؟دَرحقیقت یہ بے یقینی سیاسی عمل پر بداعتمادی کا نتیجہ ہے۔دوہزار آٹھ کے الیکشن سے دوہزار اَٹھارہ کے الیکشن تک سیاسی قیادت نے عوام کو جو چیز بہم وافر مقدار میں مہیا کی ،وہ بے یقینی ہی تو ہے۔جب دوہزار آٹھ کے نتیجے میں پی پی پی حکومت میں آئی تو اُس کے سیاسی منشور میں درج عوام سے کیے جانے والے وعدے ،آہستہ آہستہ بے اعتبار ٹھہرے ،گویا یہ وعدے روشنائی سے خالی قلم سے لکھے گئے تھے۔مفاہمت کا راگ سیاسی نظام کے تسلسل کے لیے الاپا جاتارہا مگر مفاہمت کاثمر عوام تک نہ پہنچ پایا۔بتانے والوں نے بتایا کہ لاہور میں پی پی پی نے جلسہ کرنا تھا اور آصف علی زرداری جو صدرِ پاکستان رہ چکے تھے،مقامی قیادت سے گویا ہوئے کہ بندے زیادہ سے زیادہ اکٹھے کرنا ہیں ،تو اُن میں سے ایک بولا سرکار! ہم جلسے کا انعقاد تو کردیں گے مگر جلسہ گاہ میں نشستیں کتنی پُر ہوتی ہیں اس کادَم نہیں بھرتے ۔ وہ ،جو ملک کے صدررہ چکے تھے ، غصے سے بھر گئے تو مقامی رہنما بولا،جناب !ہم لوگوں کو کیا کہہ کر جلسہ گاہ تک لائیں؟آپ نے تو اقتدار کے پانچ برس میں عوام کے مسائل پر ایک لفظ تک نہیں بولا۔کوئی ایک لفظ بتائیں ،جس کے سحر میں جکڑ کر اُن کو جلسہ گاہ تک کھینچ کر لایاجائے؟ جب دوہزار تیرہ میں اقتدار ایک سیاسی جماعت سے دوسری سیاسی جماعت کو منتقل ہوا تو شادیانے بج اُٹھے کہ پہلی بارخوش اسلوبی سے اقتدار کی جمہوری انداز سے منتقلی ہوئی ہے ۔مگر دھاندلی کے نعرہ نے ووٹنگ کے عمل کو ہی بے یقین کر ڈالا۔محسوس ہی نہیں پڑتا تھا کہ حکومت عوام کے ووٹ سے اقتدار کی سیڑھی تک پہنچی ہے۔خیر!دوہزار اَٹھارہ تک حکومت کے ہر عمل نے بے یقینی کی فضا کو مزید گہرا ہی کیا۔پانامہ اسیکنڈل آیا تو حکمرانوں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوا۔حکومت دوہزارچودہ میں دھرنے پر قابو پانے میں لگی رہی بعدازاں اپریل دوہزار سولہ سے نواز شریف کے وزیراعظم نہ رہنے تک وزیراعظم کی کرسی بچانے میں لگی رہی اور پھر الیکشن میں پلٹنے کے لیے ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘کے سلوگن پر محنت کی گئی ۔یوں پچیس جولائی دوہزار اَٹھارہ کا دِن آن پہنچا۔پہلی بار ایک تیسری نئی سیاسی جماعت اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ،کہاگیا کہ ملک کا جمہوری نظام ایک نئے دَور میں داخل ہو چکا ہے ،مگر ساتھ ہی عوام کو بے یقینی سے ہمکنار بھی کیِا جانے لگاکہ اُن کے ووٹ چوری ہوگئے ہیں ۔نئی حکومت نے کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قراردیا،دھڑا دھڑ وہ لوگ جو حکومت کے نزدیک بدعنوان تھے،گرفتار ہوئے،پھر وقت نے پلٹا کھانا شروع کردیا تو جیلوں کے مکینوں کو کھلی فضا میسر آتی گئی اور کرپشن کا نعرہ بے یقینی میں مکمل طورپر ڈھل سا گیا۔دوسری طرف’’ ووٹ کو عزت‘‘ دو کا نعرہ’’ جان بچائو‘‘ میں تبدیل ہوا۔اس عرصہ میںبے یقینی کا پرندہ عوام کے سروں پر بیٹھ کر مسلسل ٹھونگیں مارتا رہا۔’’ہم پچاس لاکھ گھر بنائیں گے’’بے یقینی نے کہا کہ ’’نہیں بنیں گے‘‘’’ہم ایک کروڑ نوکریاں دیں گے‘‘بے یقینی نے کہا کہ ’’نوکریاں نہیں ملیں گی‘‘اب صورت یہ ہے کہ سماج مکمل طورپر بے یقینی کی پکڑ میں ہے ،یہ بے یقینی فراریت اور بے زاری کو جنم دے چکی ہے ۔جمہوریت کے تسلسل کے یہ دس برس جو بہت قیمتی ہوسکتے تھے،مگر ارزاں ٹھہرے ہیں ،جبکہ حکمرانوں کی آنکھیں بے یقینی کے پھیلتے سائے کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں ۔ یہ دس برس اُدھر کی بات ہے ،گرمیوں کے دِنوں میں جب سورج ڈھلنے کی طرف بڑھ رہا ہوتا اور دیوار کا سایہ صحن میں کافی پھیل چکا ہوتا تو ماں چولہے میں لکڑیاں ڈالتی ،تھوڑی دیر میں آگ کے شعلے بھڑک اُٹھتے ،ماں چائے تیار کرتی ،مَیں اور میرا باپ دیوار کے سائے میں پڑی چارپائیوں پر بیٹھے بے تابی سے چائے کا انتظار کھینچتے۔ماں ہمارے سامنے چائے کے پیالے آرکھتی۔دیوار کا سایہ مزید مہربان ہو جاتا ۔ہم جی اُٹھتے۔مگر اب دیوار کا وہ مہربان سایہ ہے ،ماں ہے اور نہ باپ کی آنکھوں میں زندگی کی چمک۔یا شاید سب کچھ ہے اور مَیں ہی بے یقین پڑچکا ہوں۔اگر سب کچھ ہے تو مجھے سب ہونے کا یقین کیوں نہیں آتا؟