پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ وہ روز ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے منہ سے نکلنے والی گفتگو پر ایسے یقین کر لیتے ہیں جیسے یہ بات کسی سچے محقق اور صاحب علم نے کمال دیانت کے ساتھ کی ہو۔ خاص طور ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا علمی رعب و دبدبہ دیکھنے والا ہوتا ہے جب وہ کسی غیر ملکی شخصیت کے بارے میں پورے دعوے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار آلیور کرامویل ہے جسے برطانوی تاریخ کا جمہوریت دشمن‘ جرنیل اور فوجی آمر بنا کر پہلے پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹروں کے ہم پلہ ثابت کیا جاتا ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ جب وہ مر گیا تو اس کی لاش نکال کر پھانسی پر لٹکائی گئی۔ لاتعداد دانشور گزشتہ کئی سالوں سے اس کے عبرتناک انجام کا حوالہ ٹاک شوز میں دیتے رہے ہیں اور اپنی علمی دھاک بٹھانے کے لئے کالموں میں بھی اس کا تذکرہ سر راہے فرما دیتے تھے گزشتہ دنوں پرویز مشرف کو سزا سنانے والے جج نے جب فیصلہ سناتے ہوئے اس کی لاش کو ڈی چوک میں لٹکائے رکھنے کا حکم صادر کیا تو یار لوگوں کی زبان پر پھر آلیور کرام ویل کا تذکرہ جاری ہو گیا۔ برطانوی تاریخ کے اس فرد کے ساتھ یہ اتنی بڑی جاہلانہ بددیانتی ہے کہ جس کی مثال دیتے ہوئے سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ میں خود ایسے گروہ سے تعلق رکھتا ہوں جن کا علم ‘ تاریخ تو دور کی بات عام سچ سے بھی دور کا واسطہ نہیں۔ آلیور کرام ویل وہ عظیم تاریخی شخصیت تھا جس کے ہم عصر مشہور شاعر جان ملٹن (Jan miton) نے اسے آزادی کا ہیرو کہا تھا۔ یہ وہی جان ملٹن ہے جس نے انگریزی زبان کی معرکتہ الآرا نظم ''Paradise last''لکھی تھی۔ کرامویل کے زمانے کے بعد قریب ترین زمانے کے بڑے مورخ تھامس کارلائل (Thomas Carlyle) اور برطانوی تاریخ کے عظیم تاریخ دان سیموئل گارڈنر (Samuel Gardinarنے بھی اسے برطانیہ میں آزادی و حریت کا علمبردار قرار دیا۔کرامویل سے نفرت کا آغاز اس کے مرنے کے چار سو سال بعد چند سیکولر اور لبرل دانشوروں نے اپنی تحریروں سے کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے زمانے کے مذہبی شدت پسندوں Puritansکا ساتھی تھا اور مذہبی رہنما ہونے کے ناطے اسے بدنام کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان سیکولر اور لبرل دانشوروں کے ساتھ عیسائی کیتھولک بھی شامل ہو گئے کیونکہ کرامویل ان کے مخالف عیسائی گروہ پروٹسٹنٹ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا تھا۔ کرام ویل بنیادی طور پر ایک جمہوری رہنما تھا جس کی ساری جدوجہد اپنے زمانے کے آمرانہ ذہنیت کے حامل بادشاہ چارلس اول کے خلاف تھی وہ 1628ء میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ اس دور میں چارلس اول کو اسمبلیاں توڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے اگلے سال یعنی 1629ء میں پارلیمنٹ توڑ دی اور پھر گیارہ سال تک وہ برطانیہ پر پارلیمنٹ کے بغیر حکومت کرتا رہا۔ اس نے 1640ء میں الیکشن کروائے اس دفعہ کرام ویل کیمبرج سے پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔20فروری 1640ء کو پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا لیکن 5مئی 1640ء کو بادشاہ چارلس اول نے اس پارلیمنٹ کو بھی توڑ دیا۔ آلیور کرامویل کی پہلی پارلیمنٹ نے چارلس اول کے سامنے جو مطالبات رکھے وہ اس کی آمرانہ ذہنیت کو قبول نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں لگائے گا۔جب زمانہ امن ہو تو کسی فوجی کو سول عہدوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے فوجی عدالتیں نہیں لگائی جائیں گی اور نہ ہی فوج کو شہروں میں امن و امان کے لئے بھیجا جائے گا۔ ذاتی گھروں پر سپاہیوں کے رات دن کے پہرے ختم کئے جائیں گے اور فوج کسی شخص کو بغیر ثبوت اور بغیر واضح الزامات کے گرفتار نہیں کرے گی۔ ایسے قوانین کہاں قابل قبول تھے۔ چارلس اول نے پارلیمنٹ توڑ دی۔ پورا برطانیہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک وہ لوگ تھے جو بادشاہ کے وفادار تھے اور دوسرے وہ جو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بادشاہ کے ساتھ اس کی وفادار فوج اور ٹوڈی پارلیمنٹ کے ارکان تھے۔ جبکہ دوسری جانب جو عوامی فوج ترتیب دی گئی تھی اس کا سربراہ آلیور کرامویل تھا۔ برطانیہ پورے کا پورا ایک سول وار کا شکار ہو چکا تھا۔ بادشاہ کی وفادار پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا کہ پارلیمنٹ کے ارکان کسی بھی قسم کی مسلح فوج میں شامل نہیں ہو سکتے۔ کرام ویل کی شخصیت اس قدر اہم تھی کہ اسے پارلیمنٹ سے برطرف کرنے کی کوئی جرات نہ کر سکا۔ بادشاہ کی وفادار فوج اور اس کی کاسہ لیس پارلیمنٹ کو بادشاہ کے ساتھی(Royalist)کہا جاتا تھا۔ جون 1645ء میں کرام ویل کی عوامی فوج اور بادشاہ کی وفادار فوج کے درمیان جنگ کا بڑا معرکہ شروع ہوا۔ دس جولائی کو کرام ویل کی عوامی فوج نے بادشاہ کی فوج کو لانگ پورٹ (lang port)کے مقام پر بہت بڑی شکست دی۔ اکتوبر 1645ء میں کرام ویل نے کیتھولک مذہب کے بڑے قلعے باسنگ ہائوس Basing house)) پر قبضہ کر لیا جہاں سے اسے بہت سی دولت حاصل ہوئی۔ کرام ویل کی فوج میں زیادہ تر سکاٹ لینڈ کے شہری شامل تھے۔ سکاٹ لینڈ کی تاریخ گورے کی غلامی سے آزادی کی تاریخ ہے۔ آج بھی وہ برطانیہ سے علیحدگی کے لئے ریفرنڈم کرواتے پھر رہے ہیں۔کرام ویل ان کا ہیرو تھا اور رہے گا۔5مئی 1646ء کو چارلس اول نے سکاٹ لینڈ کی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ۔ مذاکرات شروع ہوئے لیکن بادشاہ نے اپنی فوج کو جمع کر کے دوبارہ حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری سول وار شروع ہو گئی۔ بادشاہ کی وفادار فوجوں کو ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کرام ویل کی آزادی و حریت کی علمبردار نیو ماڈل آرمی نے دسمبر 1648ء میں فتح حاصل کر لی۔6دسمبر 1648ء کو پارلیمنٹ کے وہ اراکین جو بادشاہ کے خلاف تھے انہوں نے اپنا اجلاس بلایا اور چارلس اول پر سنگین غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت قائم ہوئی جس کے 59ممبران تھے۔ بادشاہ نے کہا کہ میرا بادشاہی اور فیصلے کرنے کا حق آسمانی (divine Right)ہے۔ فیصلہ سنایا گیا اور 30جنوری 1649ء کو بادشاہ چارلس اول کو تیز دھار چھرے سے ذبح کر دیا گیا۔ اس کے بعد کرام ویل نے ایک جمہوری حکومت قائم کی جس میں سکاٹ لینڈ کی مناسب نمائندگی تھی جسے کامن ویلتھ کہا جاتا ہے۔1658ء میں کرام ویل کو ملیریا ہوا۔ اس کا انتقال ہوا اور اسے ویسٹ منسٹر ایبے کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ بادشاہ کی وفادار فوجوں نے لڑائی شروع کر دی اور آخر کار قابض برطانوی افواج نے فتح حاصل کر لی۔ چارلس اول کو قتل ہوئے بارہ سال ہو چکے تھے۔ اس کی باہویں برسی والے دن 30جنوری 1661ء کو کرام ویل کی لاش کو قبر سے نکالا گیا۔ اس کے ساتھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جان براڈ شاہ(John Bradshaw)کی لاش کو بھی نکالا گیا جس نے بادشاہ چارلس اول کو قتل کی سزا سنائی تھی اور دونوں کی لاشوں کو مرنے کے بعد زنجیروں میں جکڑ کر لٹکایا گیا۔ آزادی کے ایسے ہیروز کی لاشیں ہمیشہ آمر بادشاہوں کے وفادار لٹکاتے رہتے ہیں۔ لیکن میرے ملک کا دانشور پوری قوم کو کس اعتماد کے ساتھ بے وقوف بناتا ہے۔ کرام ویل کو فوج کا سربراہ جیسا ثابت کرتا ہے اور چارلس اول کی آمریت کا ذکر تک نہیں کرتا۔ بدقسمت ہے وہ قوم جس کی دانش و علم کے مراکز ‘عالم ‘سکالر ادیب ‘مورخ یا علماء نہیں بلکہ کالم نگار اور تجزیہ نگار ہو جائیں ۔ زوال کی اس سے بڑی کیا نشانی ہو گی۔