ایسے میں کئی بار میرے اندر کا صحافی آنکھیں موند لیتا ہے اور وہ چھوٹا سا ادب کا طالب علم جاگ اٹھتا ہے جس نے دیوتائوں سے لے کر انسانوں تک کی کہانیاں درد دل کے ساتھ پڑھی ہوتی ہیں۔ میں بھول جاتا ہوں کہ اس موٹروے کو بنے اتنے ماہ ہو گئے اس پر سکیورٹی اور سہولت کے وہ بندوبست کیوں نہیں ہے جو ایسے منصوبوں کا ضروری جزو ہوتا ہے۔ لاہور سیالکوٹ چھوڑیئے‘ مجھے اس کا بھی خیال نہیں آتا کہ لاہور سے ملتان اور سکھر جانے والی موٹروے کھلے اس سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر اس کے راستے میں بھی پٹرول پمپ ہیں نہ رک کر ذرا تھکن اتارنے کا بندوبست۔ جب لاہور اسلام آباد موٹروے کھلی تھی تو اس آٹھ جگہوں پر دوطرفہ یہ مقامات نہ صرف تعمیر ہو چکے تھے بلکہ عالمی معیار کے مطابق کام کر رہے تھے۔ پہلے تو ہم ان شاہراہوں کو کھولنے میں مترددتھے مبادا لوگ گزشتہ حکومت کو باور کرنے لگیں کہ اس نے رسل و رسائل میں کیا انقلاب برپا کردیا ہے اور ہماری بات نہ مانیں کہ ہم پل‘ سڑکیں‘ فلائی اوور بنانے کے بجائے ہیومن ریسورسز میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ہم ابھی تک خوفزدہ ہیں کہ اگر یہ شاہراہ سکھر سے آگے حیدر آباد تک بھی بن گئی تو پشاور سے کراچی کے درمیان فاصلے کیسے سمٹ جائیں گے۔ ہمارے بیانیے لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنا نہیں صرف پہلوں کے کاموں میں کیڑے نکالنا ہے۔ یہ جو لاہور سے سیالکوٹ کی موٹروے اس نے ملک کے اس صنعتی شہر کا ملک سے فاصلہ کم کردیا ہے یہاں تک جانا کتنا جوکھوں کا کام تھا۔ اب کتنا آسان ہو گیا ہے کہ ہم نے تو یہ بات زبان پر لانا نہیں۔ جب بادل نخواستہ اسے کھولا ہے تو اس کے جو تقاضے ہوتے ہیں کہ دونوں طرف باڑ ہو اور راستے میں پڑائو ہو‘ اسے پس پشت ڈال دیا۔ اب پتا چلا ہے کہ یہ کام اس شخص کا ہے جو اسمبلی میں لپڑ لپڑبولتا ہے اور اس نے یہ بنیادی کام تک نہیں کیا۔ موٹروے پر افراد کی تعیناتی وزارت مواصلات کا کام تھا۔ اس شعبے کے ہونہار وزیر نے آتے ہی اتنی دھومیں مچائیں کہ وہ چھوٹے وزیر سے مکمل وزیر بننے والے پہلے فرد بن گئے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں تو اس راز کی سنگینی سے ایک دن پردہ اٹھنا تھا۔ یہ یقینا مجرمانہ غفلت ہے۔ آدمی چپ رہتا ہے تو عیب چھپے رہتے ہیں مگر جب منہ کھول کر بولنے لگتا ہے تو اوقات کا پتا چل جاتا ہے۔ ایک گنوار شخص مہذب شہریوں میں امن و امان کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ جس کو چھ ماہ پہلے اس لیے ترقی نہیں دی گئی کہ وزیراعظم نے اس کے خلاف محکمہ دارانہ رپورٹیں نہیں دیکھ لی تھیں‘ ہر شخص کی ایک حدود ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اب وہ کسی دیہات میں اچھا تھانیدار ثابت ۔ آئی جی بدلنے میں تو حکومت ایک منٹ نہیں لگاتی یہاں صرف نوٹس دے کر بات کو ٹرخا رہی ہے۔ ایسا ہوگا نہیں‘ اب یہ شخص اس کام کے قابل نہیں رہا۔ میں بتا رہا تھا‘ میں ان سب صحافیانہ موشگافیوں پر غور ہی نہیں کررہا۔ مجھے اس بات پر حیرانی ضرور ہوتی کہ جب ان افراد کا سراغ مل گیا تھا تو ہم نے اس کا کریڈٹ لینے کے لیے فوری اعلان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ کیوں ہم نے مجرم کو چوکنا کیا۔ ہم نے جائزہ لیا وہ مجرم کیوں اتنی آسانی سے اپنے ٹھکانے تک جا پہنچا تھا۔ اس کی خبر تو سوائے سرکاری اداروں کے کسی کو نہ تھی کہ ایک خاتون اس طرح حالات سے ہاتھوں پھنسی پڑی ہے۔ معلوم تو کریں کہیں کوئی اندر ہی خبر دینے والا موجود نہ ہوا۔ اب بھی ہم نے مجرم کو آسانی سے جانے دیا‘ ہماری نیت کیا ہے۔ لگتا ہے میں بھی اصل مسئلے سے نظریں چرا رہا ہوں۔ یہ ملک اتنا غیر محفوظ کبھی نہ تھا اور اس کا بندوبست اس قدر نالائقی سے پہلے کبھی نہیں چلایا گیا تھا۔ مجرم بھی پکڑا جائے گا‘ اسے ہو سکتا زینب کے مجرم کی طرح سزا بھی ہو جائے مگر پھر کیا ہوگا۔ میں ان لوگوں میں نہیں جو اپنے وطن عزیز پر یہ کہہ کر طعن کرتے ہیں کہ کسی مہذب ملک میں اس کا تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسا نہیں‘ ان نام نہاد مہذب ملکوں میں جو ہوتا ہے اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ میں ۔محقق قسم کا آدمی نہیں‘ وگرنہ ابھی کم ا ز کم گوگل کر کے آپ کو اعداد و شمار دے دیتا کہ وہاں کیا کیا کمینگیاں ہورہی ہیں۔ خود احتسابی اچھی بات ہے مگر اس طرح کی بے تکی ہانکنے کا کوئی جواز نہیں۔ مجھے ان نام نہاد مہذب ملکوں کے مقابلے میں کوئی احساس کمتری نہیں۔ ہاں اس بات کی شرم ضرور ہے کہ میں تو ریاست مدینہ کی بات کرتا ہوں۔ چلئے اس مقدس لفظ کو ایسے دیجئے‘ کہیں کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں سیاست کر رہا ہوں اور میں بات کو اس حکومت کے خلاف چارج شیٹ قرار دے۔ سو اسے رہنے دیجئے۔ اسلامی جمہوریہ تو ہم نے اسے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے سے بنا رکھا ہے۔ 1956ء میں بھی اس بات کے قائل تھے کہ ہم اسلامی جمہوریہ ہیں اور جب ایک آمر نے ہمارے نام سے اسلامی کا لفظ خارج کرنا چاہا تو ہم نے قیامت برپا کردی۔ سیاستدانوں کی بات تو الگ ہے اس ملک کے ادیب اور اہل دانش چیخ اٹھے کہ ہماری شناخت مسخ نہ کرو۔ مجھے دکھ ہے تو اس بات کا ہمارے ہاں یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا ہمارے ہاں جرائم کی سطح بڑھ گئی ہے۔ اسے لگتا ہے جیسے اس ملک کے شہریوں کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ ایک بار میں نے غور کیا‘ صبح فجر کے وقت آپ کسی ٹی وی چینل کا پانچ بجے یا چھ بجے کا بلیٹن سن لیں۔ سوائے اس خبر کے اور کوئی بات نہ ہوگی کہ کس جگہ عصمت دری ہوئی‘ کہاں عمارت گری‘ کہاں ایک لڑکی نے خودکشی کرلی‘ اب پتا نہیں چلتا کہ یہ خودکشی تھی یا قتل۔ سب دل دہلا دینے والی خبریں۔ عمارت بھی گری تو چائنا کٹنگ تھی‘ بنانے کی اجازت دینے والوں نے غفلت کی تھی۔ ایک دن میں نے صبح کے بلیٹن کا ایک ہفتہ تک جائزہ لیا لگتا تھا کوئی تو ہے جو اس قوم کے اعصاب صبح صبح شل کر دینا چاہتا ہے۔ آٹھ بجے کا بلین آتا ہے تو حالات بدلے ہوتے ہیں اور عالمی خبروں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ کوئی تو ہے جو یہ نظام چلا رہا ہے‘ کوئی تو ہے۔ میں نہیں کہتا کوئی ایجنڈہ ہے۔ نادانستگی ہی میں سہی، ہم قوم سے ہر قسم کا عزم وارادہ اور قوت عمل چھین لینا چاہتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں‘ ان بچوں پر کیا گزرے گی جن کی ماں کے ساتھ ان کی آنکھوں کے سامنے سے سب کچھ ہوا۔ اس ماں کی باقی ماندہ زندگی پر اس کا کیا اثرے پڑے گا۔ اس کا پورا خاندان کس طرح متاثر ہوگا۔ شاید ہم یہ بھی سوچتے ہوں کہ اسی نوع کے واقعات یا دوسرے درد ناک واقعات کا طومار دیکھ کر ہم کس کام کے رہیں گے بھی یا نہیں۔ میں عرض کررہا ہوں پوری قوم کے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ ہم بے حس ہو گئے ہیں۔ بحیثیت قوم ہمارے احساسات کچل دیئے گئے ہیں۔ جتنے آسمان ہم پر گرے ہیں‘ ان دنوں ہم پر جو بیت گیا ہے‘ اس میں کوئی غیرت مند ذمہ دار ہوتا تو چلو بھر پانی میں ڈوب جاتا۔ ہم کچھ نہیں کر رہے‘ بس خود کو مارے چلے جا رہے‘ خود کو کچلے چلے جا رہے ہیں۔ اس عورت سے ہمدردی جتا کر بڑا تیر مار رہے ہیں۔ مجھے تو اپنے آپ پر ترس آتا ہے۔ پوری قوم پر ترس آتا ہے۔ رحم کرو‘ رحم‘ بہت ہو گئی‘ رحم کرو۔