جس لاہور سے مجھے محبت تھی،وہ مر چکا ہے اور اس کی ہڈیوں پر شاندار پلازے تعمیر ہو چکے ہیں۔ جن ریستورانوں اور ہوٹلوں میں بیٹھ کر ہم پرورش لوح و قلم کیا کرتے تھے‘ وہاں کاروباری ادارے کھل چکے ہیں۔ میکلوڈ روڈ جسے ہم اپنی مشترکہ محبوبہ سمجھتے تھے۔ لاہور کی دوسری سڑکوں کی طرح ٹریفک‘ آلودگی‘ بے ہنگم بھیڑ اور شوروغل کی نذر ہو چکی ہے اور اب تو اورنج ٹرین کے منصوبے نے اسے کھنڈر میں تبدیل کر کے مقام عبرت بنا دیا ہے۔ وہاں سے مجبوراً کبھی گزر ہو تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ اس سڑک کے حوالے سے کتنے ہی پیارے اور خوبصورت لوگ یاد آتے ہیں۔ ان کے من اجلے تھے اور دلوں میں خلوص تھا۔ ادب اور شعر و شاعری کی مشترکہ بنیاد پر ہم نے ایک سادہ صاف ستھرا اور پرسکون گھر تعمیر کر لیا تھا۔ جس میں ہم سب بیٹھ کر ایک دوسرے کی باتیں سنتے تھے۔ شعر و سخن کا کاروبار تھا۔ چائے پی جاتی تھی۔ گانے سنے جاتے تھے اور سگریٹ پھونکے جاتے تھے۔ وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔اب وہ گھر پیوند خاک ہو چکا ہے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے دل دکھی اور سوگوار ہو جاتا ہے۔ اب تو میکلوڈ روڈ پر کوئی ایسی جگہ نہیں بچی جہاں بیٹھ کر ہم اپنی مشترکہ محبوبہ کی فاتحہ ہی پڑھ سکیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا ٹی ہائوس تھا جسے تسکین کدہ کہتے تھے۔اس کا مالک بابو خان ان پڑھ تھا۔ لیکن شعر اور موسیقی کا ذوق رکھتا تھا‘ وہ ہمیں لتا‘رفیع ‘نورجہاں وغیرہ کے گانے اور غزلیں سنواتا تھا۔ ہمیں دیکھ کر خوش آمدید کہتا تھا اور ہم چند پیالی چائے پی کر گھنٹوں وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ اس نے کبھی اشارۃ بھی یہ احساس نہ دلایا تھا کہ بڑی دیر ہو گئی۔ اب آپ اٹھیں اور دوسرے گاہکوں کے لئے جگہ خالی کریں۔ ہم فقیر لوگ تھے وہ بھی قلندر تھا۔ جب اس سے یہ ریستوران چھنا تو اس نے بہت ہاتھ پائوں مارے۔ کچھ نہ بنا۔ آخر باغ جناح کے ریستوران میں بیرہ بن گیا۔ ایک روز تسکین کدہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی حسرت دل میں لئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شاہد شیدائی سے میری پہلی ملاقات اسی تسکین کدہ میں ہوئی۔ ستمبر 1963ء کی کوئی تاریخ تھی۔ میرے کزن مبارک مشہدی نے کہا تمہاری ملاقات ایک دوست سے کروائوں۔ میں نے کہا چھوڑو یار تمہارے دوستوں میں کوئی ڈھنگ کا آدمی ہوتا نہیں۔ کہنے لگا تم اس دوست کو پسند کروں گے‘ شاعر ہے۔ شاعر کا لفظ سن کر میں نے کہا پھر تو ضرور ملوائو۔ اپنے قبیلے کے آدمی سے مل کر کسے خوشی نہیں ہوتی۔ شاہد شیدائی بیٹھا کسی دوست کو خط لکھ رہا تھا۔ ہاتھ میں سگریٹ سامنے چائے کی پیالی۔ مبارک نے علیک سلیک کے بعد میرا تعارف کروایا تو شاہد شیدائی نے اٹھ کر بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ شیروانی اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس رامپوری ٹوپی پہنے یہ شخص مجھے لکھنوی تہذیب کا نمائندہ لگا۔ اسے اہل زبان کے لہجے میں اردو بولتے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ شخص اگر لکھنؤ کا نہیں تو دہلی کا ضرور ہے۔ کئی ماہ بعد پتہ چلا کہ وہ امرتسری ہے۔ امرتسر نے بڑے باکمال لوگ پیدا کئے ہیں۔ شاہد سے یہ اتفاقیہ ملاقات ایک عہد شناسائی میں بدل گئی۔ اب شاہد ایک معروف اور پختہ کار شاعر ہے۔ صرف شاعر ہی نہیں دوستوں کا دوست ہے۔ خلوص کا پتلا ہے۔ غلط بات کرتا ہے نہ برداشت کرتا ہے۔میکلوڈ روڈ پر ہی تسکین کدہ کے سامنے ایک ریستوران تھا۔ سٹوڈنٹس اون چوائس‘تسکین کدہ کی طرح یہاں بھی فلمی گانے اور غزلیں لگی رہتیں۔ریستوران کے مالک خان صاحب موسیقی کا بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ رفیع ‘لتا ‘نورجہاں اور دوسرے معروف فنکاروں کے منتخب نغمے یہاں بیٹھنے والوں کے کانوں میں رس گھولتے رہتے۔ اب ہمارا حلقہ دوستاں کافی وسیع ہو چکا تھا۔ اکرام ملک‘ منیر سیفی‘محمد رفیق‘ سلمان بٹ‘ آغا شیدا کاشمیری‘ میاں اسلم‘ کنول فیروز‘ میاں مرغوب‘ رئوف شیخ‘ اختر گوبند پوری غرض کتنے ہی دوست تھے جو اکٹھے ہوتے تو مشاعرے کی شکل بن جاتی۔ افسوس ‘ یہ ریستوران بھی ختم ہوا۔ یہاں سپیئر پارٹس کی دکان کھل گئی۔ کچھ عرصے بعد خان صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہیں میکلوڈ روڈ پر کنگ سرکل ریستوران بھی تھا۔ یہاں کبھی کبھار بیٹھنا ہو جاتا تھا۔ یہاں میری ملاقات مرحوم کریکٹر ایکٹر اجمل سے ہوئی۔ وہ جتنا بڑا ایکٹر تھا اتنا ہی بڑا انسان بھی تھا۔ اس سے میری آخری ملاقات اتفاق ہسپتال میں ہوئی جہاں اس کی زندگی کی فلم تیزی سے دی اینڈ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اب نہ اجمل ہے نہ کنگ سرکل۔ میکلوڈ روڈ پر ہی لاہور ہوٹل تھا۔اس ہوٹل سے ہم دوستوں کی ہزاروں یادیں وابستہ ہیں۔ یہ ایک فراخ‘ صاف ستھری‘ پرسکون اور رومان پرور جگہ تھی‘ یہاں پہنچ کر ہم سارے دکھ بھول جایا کرتے تھے۔ یہاں میر و غالب کی باتیں ہوتیں‘ ساحر اور فیض کا تذکرہ ہوتا پھر ہم ایک دوسرے کو اپنا کلام سناتے۔ اس ہوٹل میں کئی نامور شخصیتوں سے تعارف ہوا۔آغا بیدار بخت‘شورش کاشمیری‘ تنویر نقوی‘ ظہیر کاشمیری‘ سیف الدین سیف‘ ان کے علاوہ فلمی شخصیات سے بھی گپ شپ رہتی۔ اداکار سکندر اور ریحان بھی اکثر یہاں نظر آتے۔یہاں ہم علامہ لطیف انور اور دوست جالندھری جیسے بزرگوں کی صحبت سے کسب فیض کرتے اور پھر ایک روز لاہور ہوٹل کی باری بھی آ گئی۔ادیبوں شاعروں اور جرنلسٹوں کی یہ پناہ گاہ بھی مسمار ہو گئی اور اس کی جگہ ایک آٹو مارکیٹ وجود میں آ گئی۔ اوپر کہیں چوتھے آسمان کے قریب لاہور ہوٹل بھی بنا دیا گیا۔ایک بار وہاں گیا وہاں کا ماحول اتنا اجنبی تھا کہ طبیعت گھبرا گئی۔ وہاں کے درو دیوار مجھ سے کہہ رہے تھے میں وہ لاہور ہوٹل نہیں ہوں،جس کی تلاش میں تم یہاں آئے ہو۔میں نے جلد جلد چائے پی اور بوجھل قدموں میں لاہور ہوٹل کی ایک تصویر لے لی تھی۔یادوں کا ہجوم گرانی کرتا ہے تو یہ تصویر دیکھنے لگتا ہوں اور آج سے 50سال پہلے کے لاہور میں جا پہنچتا ہوں۔ جو ظلم میکلوڈ روڈ پر ہوا وہی مال روڈ پر بھی ہوا۔ چائنیز لنچ ہوم اور کافی ہائوس بھی امتداد زمانہ کی نذر ہو گئے۔ اہل قلم پر زمین اور تنگ ہو گئی۔ اب لے دے کر ایک پاک ٹی ہائوس بچا ہے۔ ان دنوں پاک ٹی ہائوس کے باہر کا ماحول بھی پاک ٹی ہائوس کا حصہ تھا۔ دروازے کے سامنے کی پرسکون سڑک بہت کم ٹریفک‘فٹ پاتھ پر ادیبوں اور شاعروں کی چند سائیکلیں۔ایک رومان پرور ماحول ہوتا تھا،اب وہاں بے ہنگم شورو غل‘ ٹریفک کی زیادتی فضائی آلودگی اور کاروباری ماحول نے ذہنی سکون کو تباہ اور سانس لینا مشکل کر دیا ہے۔ پاک ٹی ہائوس کے اندر داخل ہو کر شدید گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ پرانا ٹی ہائوس مرحوم ہو چکا ہے۔ پاک ٹی ہائوس کے علاوہ لاہور میں صرف ایک جگہ اور تھی جس کا محبت بھرا دامن اہل قلم کے لئے پھیلا ہوتا تھا۔ اگرچہ بہت کم اہل قلم وہاں جاتے تھے۔ یہ جگہ تھی فلیٹیز ہوٹل۔لیکنا اب یہ ہوٹل جدید شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں پہلے دس پندرہ روپے میں دوست چائے پی سکتے تھے اب وہاں معمولی چائے کا بل بھی پانچ سو سے کم نہیں۔ گویا اب اہل قلم کے ہاتھ سے یہ جگہ بھی گئی۔ ایک اور حوالے سے یہ جگہ اب بھی بہت اہم ہے۔ یہ ہوٹل ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ قائد اعظم اور جسٹس کارنیلیس جیسی عظیم ہستیوں نے یہاں قیام فرمایا۔ لیکن اب اس پر کاروباری تقاضوں کے منحوس سائے پڑ چکے ہیں۔ اگر مال روڈ کی بات کریں تو وہ بھی اہل علم اور اہل قلم حضرات کے لئے نوگو ایریا بن چکی ہے۔ غرض کس کس چیز کا ماتم کیا جائے۔ جو باتیں رہ گئی ہیں آئندہ کسی کالم میں سہی۔