پانی میں ڈوبے لاڑکانہ میں رات جیسے تیسے گزری۔ صبح آٹھ بجے میرے ایک دوست شیراز پٹھان گھر سے ناشتہ بنوا کر لے آئے۔انڈے ، پراٹھے،چکن کڑاہی اور تھرموس میں چائے۔ناشتہ کرتے ہی میں نے اجازت چاہی اور بلوچستان کی راہ لی جہاںڈیرہ الہ یار میں کوئٹہ سے آنے والی ٹیم اور بیوروچیف کوئٹہ خلیل احمد میرے منتظر تھے۔ راستے میں جگہ جگہ احتجاج کے باعث ٹریفک جام تھی۔مظاہرین حکومتی امداد نہ ملنے کے باعث راستے بند کر کے احتجاج کر رہے تھے۔ ایک دو چھوٹے چھوٹے احتجاجوں سے تو جلد جان چھوٹ گئی لیکن شکار پور والے بات مان کے نہ دیتے تھے۔انہیں سمجھایا کہ راستہ بند کرنے سے جتنے لوگ سڑک پرپھنس گئے ہیں یہ سب سیلاب متاثرہ ہیں،انہیں جانے دو، یہ بھی پہنچ کر اپنا گھر بار دیکھنا چاہتے ہیں ۔مظاہرین پر کچھ اثر نہ ہوا،کہنے لگے جب تک ڈی سی آ کر وعدہ نہیں کرتا یا میڈیا ہماری کوریج نہیں کرتا ہم راستہ نہیں کھولیں گے۔میں نے اپنے موبائل سے مظاہرین کے شکوے ریکارڈ کیے، پھنسی ہوئی گاڑیوں اور احتجاج کرتے ہوئے لوگوں کی آواز ہیڈ آفس تک پہنچائی ، چند ہی لمحوں میں بریکنگ نیوز ٹی وی پر چلنے لگی۔ وہیں کھڑے مظاہرین کو موبائل سے چلتی بریکنگ نیوز دکھائی اور انہیں بتایا کہ ان کی آواز ارباب اختیار تک پہنچا دی گئی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے راستہ کھول دیا۔ ڈیرہ الہ یار اور صحبت پور پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مراد کالونی کے متاثرین سیلاب نے پانی کے کنستروں کو چارپائیوں کے نیچے باندھ کر اسے کشتی بنا لیا تھاجس پر وہ اپنا سامان رکھ کے خشکی پر لا رہے تھے۔ سڑک کنارے بے یارو مدد گار پڑے ہزاروں لوگ اپنا بچا کھچا سامان رکھے یوں منتظر تھے جیسے وہ لٹے پھٹے کسی دوسرے دیس سے ہجرت کر کے آئے ہوں اور انہیں مہاجر کیمپ میں لے جانے والی گاڑی بس آتی ہی ہو۔ دن ڈھل گیا، شام ہو گئی ، کوئی نہیں آیا۔ نہ کوئی کھانا لایا اور نہ سر ڈھانپنے کو ایک خیمہ۔ گذشتہ رات کی بارش ان بے گھروں پر بہت بھاری گزری تھی۔ اپنے بچوں کو انہوں نے پلاسٹک شیٹوں میں چھپا دیا تھا اور خود رات بھر بھیگتے رہے تھے۔ اگلی رات بھی بارش کی پیشگوئی تھی۔ آسمان پر گھرے بادلوں کو تکتے تو خوف کی لہر ان کے بدن میں دوڑ جاتی۔ امدادی تنظیمیں ابھی امداد کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں،بیشتر لوگوں نے اس رات کچھ نہ کھایا۔ کہیں کہیں چولہا جلا تو صرف بچوں کے لیے۔ کسی کو آلو ملے تو اس نے ابال کر بچوں کو کھلا دیے۔ کسی کو آدھا کلو چاول میسر آئے تو اس نے سادہ ابلے چاول بچوں کو کھلا دیے، تھوڑے بچ گئے تو خود کھانے کی بجائے بچوں ہی کے ناشتے کے لیے رکھ دیے۔ کچھ عورتوں کے پاس آلو تھے اور روٹی نہ تھی،انہوں نے ابلے آلو کھائے۔ کچھ گھرانے تھوڑا بہت آٹا تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے تو ان کے پاس سالن نہ تھا۔ بے شمار لوگوں نے سوکھی روٹی کھا کر جینے کا سامان پیدا کیا۔ ایک تباہ شدہ گائوں سے سامان نکالتے چند نوجوان سستانے کے لئے بیٹھے تو سب اپنی اپنی مٹھی میں بھری کچی گندم چبانے لگے۔ گندم کے یہ دانے سیلاب کے پانی میں بھیگ جانے کے باعث نرم پڑ گئے تھے۔ میں نے سوال کیا کہ گندے پانی میں بھیگی کچی گندم وہ کیسے کھا رہے ہیں۔ کہنے لگے دو دن پہلے جس روز ان کا گائوں ڈوبا تھا انہوں نے کچے آٹے میں سیلاب کا پانی ملا کر کھایا تھا۔ پھر کہنے لگا کہ بدذائقہ ہونے کے باعث کھایا نہ جاتا تھا تو ایک لڑکابچے ہوئے سامان میں کہیں سے چینی تلاش کر لایا۔پھر انہوں نے کچے آٹے میں چینی ملاکر اسے پانی میں کھول کر کھا لیا۔ نوجوان کہنے لگا دو دن سے ہم ایسے بھوکے تھے کہ اگر مینڈک مل جاتا تو اسے بھی کھا لیتے۔ صحبت پور میں ایک خاتون کو میں نے گلاس میں سیلاب کا پانی بھرتے دیکھا تو پوچھاآپ یہ پانی پیتی ہیں؟ اس نے پہلے گلاس بھر کے پانی پیا اور پھر بولی کیا کریں اس کے سوا پینے کا پانی دستیاب نہیں۔پھر اس نے ایک ایک گلاس اپنے بچوں کو بھر کے دیا۔ اس کی چار سالہ بیٹی دست کا شکار تھی اس کے باوجود یہی پانی پی رہی تھی۔ غرض ہر قدم پر ایک دکھی داستان دیکھنے کو ملتی۔صحبت پور اور ڈیرہ الہ یار میں دن گزارنے کے بعد ہمیں رات بیتانے کی جگہ چاہیے تھی جوان دونوں شہروں میں دستیاب نہ تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ رات گزارنے کی بہتر جگہ جیکب آباد میں ملے گی جو وہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ جیکب آباد پہنچے تو شہر اندھیرے اور پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ پہلے ایک ہوٹل گئے ، پھر دوسرے، پھر تیسرے اور پھر چوتھے۔کہیں بھی رہنے کو کمرہ دستیاب نہ تھا۔بڑی مشکل سے ایک ہوٹل میں ہم آٹھ لوگوں کے لیے دو کمرے میسر آئے ۔ ان میں سے بھی ایک کمرے کی حالت یہ تھی کہ چھت مختلف جگہوں سے ٹپک رہی تھی۔ کمرے کی دیواریں سیلن زدہ تھیں،ایسا لگتا تھا یہ کمرہ مسافروں کے رش کے باعث ضرورت کے تحت مجبوری کی حالت میں کافی عرصے بعد کھولا گیا ہے۔کمرے میں سانس لینا دشوار تھامگر کوئی چارہ نہ تھا۔ رات بھر کئی دفعہ پہلو بدلنا پڑا کہ جدھر کو لیٹتے ادھر ہی ٹپ ٹپ پانی ٹپکنے لگتا۔ 2005 کے زلزلے کی کوریج کے سلسلے میں خیموں میں گزاری گئی راتیں بھی اتنی تکلیف دہ نہ ہوں گی جتنی جیکب آباد میں گزاری گئی یہ رات تھی لیکن یہ تکلیف باہر سڑکوں پر پڑے سیلاب متاثرین کی تکلیف سے زیادہ نہ تھی۔یہی سوچ کر ہمت پکڑی کہ چلو چھت تو میسر ہے،اُس رات لاکھوں لوگ بغیر چھت کے سونے پر بھی تو مجبور تھے۔ ہم تو پھر بھی خوش قسمت تھے۔ اگلے روز ہم خود کو دوبارہ ایسی کربناک حالت میں رات گزارنے کے لیے تیار نہ کر سکے۔ لہذا کام ختم کرنے کے بعد سبی جانے کی ٹھانی کہ وہاں مناسب رہائش دستیاب تھی۔ دن بھر کے تھکے ہارے ہم تین گھنٹے کا سفر کرنے کے لیے تو تیار تھے لیکن یہ اندازہ نہ تھا ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنی زندگی دائو پہ لگانی پڑ جائے گی۔پھر ہمارے ساتھ جو ہوا اسے اب سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔(جاری ہے)