امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب کا ایک بیٹا تلاش روزگار میں عراق گیا۔ ایک سال کے بعد مال سے لدے اونٹوں کے ساتھ واپس آیا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ بیٹا اتنا مال کہاں سے آگیا۔ بیٹے نے جواب دیا تجارت کی۔ باپؓ نے پوچھا تجارت کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ جواب ملا ’’چچا (کوفہ کے گورنر) نے اْدھار دیا ‘جو تجارت میں منافع کے بعد لوٹا دیا‘‘۔ حضرت عمرؓ نے گورنر کوفہ کو طلب کیا اور پوچھا: ’’کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت جمع ہو گئی ہے کہ ہر شہری کو قرض دے سکو‘‘۔ گورنر نے جواب دیا ‘ ایسا تو نہیں۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا پھر اسے قرض، میرا بیٹا سمجھ کر دیا ناں۔ میں تمہیں معزول کرتا ہوں ‘ تم اس منصب کے قابل نہیں۔ حضرت عمرؓ نے بیٹے کو حکم دیا کہ ’’سارا مال بیت المال میں جمع کروا دو‘ اس پر تمہارا کوئی حق نہیں‘‘۔ ……………… ایک دن سلطان محمود غزنوی حسب معمول دربار میں بیٹھا رعایا کی شکایات سن رہا تھا۔ ایک شخص نے آ کر کہا کہ اس کی شکایت سنگین اور ذاتی نوعیت کی ہے، میں اسے دربار میں سرعام عرض نہیں کر سکتا براہ کرم علیحدگی میں سنی جائے۔ سلطان یہ سن کر تخلیہ میں چلے گئے اور سائل سے خلوت میں پوچھا کہ اب بتائو کیا معاملہ ہے۔ سائل ہکلاتے ہوئے بولا کہ ایک خوبرو‘ صحت مند نوجوان ‘جو اپنے آپ کو بادشاہ سلامت کا بھانجا بتاتا ہے‘ مسلّح ہو کر میرے گھر پر آتا‘ مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا اور خود میرے گھر میں جبراً داد عیش دیتا ہے۔ غزنی کی کوئی عدالت ایسی نہیں جس میں‘ میں نے ظلم کی فریاد نہ کی ہو لیکن کسی کو انصاف دینے کی جرأت نہیں ہوئی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر جہاں پناہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں‘ آپ کی انصاف پسندی‘ فریاد رسی اور رعایا پروری پر بھروسہ کر کے اپنا حال عرض کر دیا ہے اور انصاف کا طلبگار ہوں۔ خالق حقیقی نے آپ کو اپنی مخلوق کا محافظ و نگہبان بنایا ہے، روز قیامت رعایا اور کمزوروں سے ناانصافی کے نتیجے میں آپ خدائے قہار کے روبرو جوابدہ ہوں گے۔ اگر آپ نے میرے حال پر رحم فرما کر انصاف کیا تو بہتر ورنہ میں اس معاملے کو منتقم حقیقی کے سپرد کر کے آخری فیصلے کا انتظار کروں گا۔ سلطان نے سائل سے کہا تم پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے، اب تک ناحق یہ ظلم کیوں برداشت کیا‘ سائل بولا،میں عرصہ دراز سے کوشاں تھا مگر آپ کے دربان اور چوبدار بارگاہ سلطانی میں گھسنے نہیں دیتے تھے‘ آج بھی بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں ورنہ ہمارے نصیب میں یہ کہاں کہ جب چاہیں بارگاہ سلطانی میں حاضر ہو جائیں اورمدعا بیان کر سکیں۔ سلطان نے سائل کو تلقین کی کہ وہ یہ بات کسی کو بتائے بغیر گھر جائے اور اطمینان رکھے کہ انصاف ہو گا۔ جس وقت بھی وہ نوجوان دوبارہ گھر آئے‘ اسی وقت مجھے خاموشی سے اطلاع کر دینا، میں اس کو ایسی عبرتناک سزا دوں گا کہ آئندہ کسی کو یہ ظلم ڈھانے کی جرأت نہیں ہو گی۔ سلطان نے دربانوں کو ہدایت کی کہ یہ شخص جب بھی آئے اسے میرے حضور پیش کیا جائے اور روک ٹوک ہرگز نہ کی جائے۔ دوسری رات سائل نے اطلاع دی کہ مذکورہ نوجوان اس کے گھر پر موجود ہے۔ اطلاع ملتے ہی بادشاہ خنجر بکف باہر نکلا اور سائل کے گھر پہنچ کر وہ سب آنکھوں سے دیکھ لیا جو بتلایا گیا تھا۔ بادشاہ نے آگے بڑھ کر خنجر سے نوجوان کا سر اْڑایا اور پھر شمع روشن کرائی۔ مقتول کا چہرہ دیکھ کر سلطان کے مْنہ سے بے ساختہ الحمدللہ نکلا‘ سلطان نے پانی منگوایا اورکئی گلاس غٹاغٹ پی گیا۔ سلطان واپس جانے لگا تو سائل نے شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ نوجوان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بعد الحمد للہ کہنے کی وجہ کیا تھی؟ اور آپ نے جلدی میں پانی کیوں منگوایا اور پیا۔ سلطان نے کہا کہ الحمدللہ تو میں نے اس لیے کہا کہ یہ بھانجا تو درکنارمیرے خاندان کا فرد بھی نہیں تھا اور مجھے اطمینان یہ ہوا کہ میں نے کسی رشتے ناطے کا لحاظ کئے بغیر انصاف کیا‘ تمہیں ظلم سے نجات دلائی اور پانی پینے کی وجہ یہ تھی کہ تمہاری شکایت سننے سے لے کر اب تک میں نے کچھ کھایا نہ پیا۔ پیاس بہت لگی تھی لہٰذا پانی پی کر پیاس بجھائی۔ ……………… کہتے ہیں ایک طوطے اور طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا۔ ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا ’’کس قدر ویران گائوں ہے؟‘‘ طوطے نے کہا ’’لگتا ہے یہاں کسی اْلّو کا گزر ہوا ‘جس کی نحوست سے بھرا ‘پْرا گائوں ویران ہو گیا‘‘۔ جس وقت طوطا اور طوطی یہ باتیں کر رہے تھے ایک اْلّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا جس نے یہ گفتگو سنی تو رْک گیا اور بولا تْم لوگ گائوں میں مسافر لگتے ہو‘ آج رات میرے پاس ٹھہرو‘ کھانا کھائو‘ کل چلے جانا۔ اْلّو کی محبت بھری دعوت کو دونوں نے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا اور رْک گئے۔ صبح جب اظہار تشکر کے بعد دونوں چلنے لگے تو اْلّو نے طوطی کو روک لیا کہ تْم کہاں جا رہی ہو۔ طوطی بولی ‘طوطے کے ساتھ جا رہی ہوں‘ مجھے اس کے ساتھ ہی جانا ہے۔ اْلّو نے کہا مگر تم تو طوطی نہیں میری بیوی ہو‘ یہاں رہو۔ طوطے کے ساتھ جانے کی ضد نہ کرو۔ طوطا بہت بگڑا اور کہنے لگا یہ تْم کیا کہہ رہے ہو‘اپنی ہیئت کذائی‘ رنگ دیکھو پھر طوطی کو اپنی بیوی کہو۔ ہم دونوں کو پریشان نہ کرو اور جانے دو۔ معاملہ بڑھا تو اْلّو نے تجویز پیش کی کہ آپس میں جھگڑنے کے بجائے ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں قاضی کا فیصلہ ہم دونوں کو قبول ہو گا۔ یہ معقول تجویز سن کر طوطا مان گیا۔ تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا مقدمہ پیش کیا۔ اْلّو اور طوطے کی ساری داستان سن کر قاضی نے فیصلہ سنایا کہ بادی النظر میں اْلّو کا موقف درست ہے۔ طوطا معقول شواہد پیش نہیں کر سکا۔ لہٰذا طوطی‘ طوطے کے ساتھ جانے کی ضد نہ کرے اور اْلّو کی بیوی بن کر رہے۔ بے انصافی پر طوطا بہت تلملایا‘ مگر قاضی کا فیصلہ تھا ماننا پڑا اور طوطی کو چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ طوطا ابھی زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ اْلّو نے اْسے روکا اور کہا بھائی‘ اپنی طوطی تو لیتے جائو‘ جو تمہاری بیوی ہے۔ طوطا حیران ہو کر بولا اب مزید مذاق کرو نہ میرے زخموں پر نمک چھڑکو ‘عدالت کے فیصلے کے مطابق یہ میری نہیں ‘تمہاری بیوی ہے۔ اْلّو نرمی سے بولا،نہیں دوست یہ میری نہیں‘ تمہاری بیوی اور طوطی ہے تم کو مبارک ہو۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں اور گائوں اْلّو ویران نہیں کرتے۔ ویرانی تب ڈیرے ڈالتی ہے جب ان بستیوں سے عدل اْٹھ جاتا ہے اور بے انصافی کا دور‘ دورہ ہوتا ہے ؎ گْرگ میر و سگ وزیر و مْوش دیواں مے شوند ایں چنْیں ارکانِ دولت‘ ملک ویراں می شوند