کیا اب بھی ہمیں سمجھ نہیں آئے گی۔دنیا سفارت کی زبان سمجھتی ہے نہ اصول کی۔ اس دہربے مہر کو اگر کوئی زبان سمجھ آتی ہے تو وہ طاقت کی زبان ہے۔معلوم تاریخ اس پہ گواہ ہے۔نامعلوم بھی خاک بہ سر یہی پکارتی پھرتی ہے۔مائٹ از رائٹ کا محاورہ انہوں نے ہی ایجاد کیا جنہوں نے طاقت کے بل بوتے پہ ساری دنیا میں آگ لگائے رکھی۔جب قوت ماند پڑنے لگی اور زمام زمانہ پہ گرفت کمزور ہوئی تو بڑی چابکدستی سے زیر نگین مملکتوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور خود معیشت پہ قبضہ کرکے بیٹھ گئے۔سرد جنگ کا آغاز ہوا اور اپنی جنگیں محاذ جنگ سے اٹھا کر اپنے زیر تسلط چھوٹے ملکوں میں لڑی جاتی رہیں۔یہی وہ دور تھا جب چھوٹے ممالک نے سرد جنگ سے فائدہ اٹھایا ۔ ان کے پاس دو راستے تھے۔ایک دنیا میں برطانیہ کی جگہ لینے والی نئی سپرپاور کے سامنے مکمل سپردگی کا راستہ۔جہاں امریکہ اپنے عسکری مستقر بنائے اور اپنے روایتی حریف پہ نظر رکھ سکے۔ وفاداری کے اس مظہر نے معیشت کو مضبوط کیا لیکن خود مختاری ہمیشہ کے لئے گروی رکھ دی۔دوسری طرف سوویت روس کے زیر اثر نظریہ کی بنیاد پہ وابستہ ہونے والے ممالک نے بھی یہی کیا لیکن چونکہ عالمی مالیاتی ادارے امریکہ اور یورپ کے زیر اثر تھے اس لئے وہ اپنی معیشت کو یورپ کی طرز پہ پائیدار کرسکے نہ ہی سوویت یونین نے ایسا ہونے دیا۔ یہ چھوٹے ممالک ہر دو سپرپاور کے لئے ایک مسلسل جنگ میں بیس کیمپ سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے ۔ دونوں سپر پاور نے اپنی اپنی خفیہ ایجنسیوں کو ایک دوسرے کے حلیف ممالک میں سیاسی عدم استحکام کے لئے استعمال کیا۔جہاں اس سے کام نہ چلا وہاں طاقت سے کام نکالا ۔ ساری دنیا میں حرص و ہوس کی آگ بھڑکائے رکھی۔اس صورتحال سے کم سے کم چند چھوٹے ملکوں نے یہ فائدہ ضرور اٹھایا کہ جوہری ہتھیار حاصل کرلئے۔آج جن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں و ہ کمزور معیشت کے باوجود طاقتور ملکوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ہم ان میں سے ایک ہیں۔ہم نے جوہری طاقت بننے کا آغاز سوشلسٹ بھٹو کے دور میں کیا لیکن یہ پایہ تکمیل کو امریکہ نواز ضیا الحق کے دور میں پہنچا۔ اس حساب سے ہم بہت اچھا کھیلے ۔ بھٹو صاحب نے شاید اسی جرم کی سزا پائی۔جنرل ضیا اسی ڈبل گیم کے باعث انجام کو پہنچے بہر صورت ہم جوہری طاقت بننے میں کامیاب ہوئے۔یہ الگ بات ہے کہ ہماری معیشت دگرگوں ہوتی گئی۔اس کی سادہ اور قابل فہم وجوہات تھیں۔ امداد، قرضے،فوجی اور سول حکمرانوں کی نااہلی اور خود غرضی اور امریکی عسکری امداد نے ہمیں پیروں پہ کھڑا ہونے دیا نہ ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی۔ جہاں ساری دنیا اگلے بیس سالوں کی معاشی پالیسیاں بناتی تھی ہم پنج سالہ منصوبے بنایا کرتے اور وہ بھی سیاسی عدم استحکام کی نذر ہوجاتے۔ نائن الیون کے بعد معیشت کے اشاریوں نے جو مثبت پیغامات دیئے وہ بے تحاشہ در آنے والی امریکی امداد جس میں زیادہ تر عسکری تھی، کے مرہون منت تھے۔ہم بہرحال جوہری طاقت تھے اور امریکی اشارے پہ اپنی تزویراتی مجبوریوں اور ان کے نتائج وعواقب سے بے نیاز کسی نامعلوم سمت چلے جارہے تھے۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب جنرل مشرف سلگتا ہوا مسئلہ کشمیر حل کرسکتے تھے۔اس دوران کیا ہوا یہ تکلیف دہ کہانی ہے۔ہم بہرحال جوہری طاقت تھے لیکن تماشہ یہ تھا کہ ہم نے نصف کشمیر بزور قوت اس وقت حاصل کیا تھا جب ہم جوہری تو کیا کسی قسم کی قوت نہیں تھے۔ ہم تو ایک ایسی نوزائدہ مملکت تھے جو بمشکل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی ۔ ہم آج پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط قوم ہیں۔ ہم کئی ایٹمی تجربات کرچکے اور آئے روز عسکری محاذ پہ تکنیکی کامیابیاں حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا پلڑا اپنے روایتی حریف بھارت سے بھاری ہے۔ یہ درست ہے کہ ہماری معیشت کا حال پچھلے عشرے کی نحوست کے باعث ہنوز قابل تشویش ہے۔لیکن شمالی کوریا کی معیشت کا حال کیا تھا ؟ مکمل طور پہ چین کی درآمدات پہ منحصر ایک درماندہ ملک۔اندرونی طور پہ خاندانی آمریت کا شکار اور دنیا سے مکمل طور پہ کٹا ہوا۔ پچیس ملین نفوس پہ مشتمل اس کمیونسٹ ملک میں جہاں معیشت مکمل طور پہ مرکزی حکومت بلکہ یوں کہیے کہ ستر سالہ خاندانی آمریت کے کنٹرول میں ہے، چالیس فیصد سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔اوسط آمدنی 2 ہزار ڈالر سالانہ سے کم ہے۔نوے کی دہائی میں یہ ملک بدترین قحط کا شکار ہوچکا جس میں بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ملک میں انٹرنیٹ پہ پابندی ہے۔صرف اسٹیٹ کنٹرولڈ انٹرانیٹ کے استعمال کی اجازت ہے یعنی آزادی اظہاررائے جیسی کوئی شے یہاں نہیں پائی جاتی۔البتہ اس غریب ملک کے پیروں تلے تقریبا سولہ ٹریلین ڈالر کے قدرتی ذخائرموجود ہیں۔ملک میں غیر ملکی کمپنیوں کو ذخائر کشی کی اجازت نہ ملنے اور ٹیکنالوجی کے لئے وافر سرمایہ اور ریسرچ نہ ہونے کے باعث ہنوز ناقابل رسائی ہیں۔ ملک کے ضدی،سرپھرے اور بدگو سربراہ کم جون ان کوئی دیانت دار شخص بھی نہیں جو معاشی بدحالی کا شکار اپنی قوم کی پائی پائی دانت سے پکڑ کر خرچ کرتے ہوں۔ ان پہ الزام ہے کہ وہ سال بھر میں آٹھ لاکھ ڈالر کی شراب پی جاتے ہیں۔اور بھی کئی قباحتیںاس ضدی ملک کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔البتہ وہ جوہری طاقت ہے اور اپنی اس طاقت کا دھڑلے سے اظہار کرتا ہے ۔برسوں سے پابندیوں کے شکار اس ملک نے پچھلے دنوں امریکہ کو ناکوں چنے چبوائے ہیں اور دھمکیاں دیتا غراتا امریکہ کم جونگ ان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی پانچواں دور کررہا ہے۔اس دوران شمالی کوریا کئی جوہری تجربات کرچکا ہے۔ یہی حال ایران کا بھی ہے ۔ مشرق وسطی میں اس کی مداخلت اور اس پہ امریکہ کی چشم پوشی سے قطع نظر آج بے شمار امریکی دھمکیوں، پابندیوں اور تلخیوں کے بعد صدر ٹرمپ اور روحانی ملاقات کے چرچے ہیں۔معاشی اور تجارتی پابندیوں میں گھرے ان ملکوں کو نہ ایف اے ٹی ایف کی پروا ہے نہ آئی ایم ایف کی۔وہ دھڑلے سے وہ کئے جارہے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔دنیا ان کی طرف بے بسی سے دیکھنے کے سوا کچھ نہیںکرسکتی۔ وہ مبینہ جوہری طاقت ہیںاور ہم یقینی طور پہ۔ آج چھ ستمبر یوم دفاع ہے۔میں نے دہلی سے آئی اپنی ہمشیرہ کوتشویش اور اطمینان کے ملے جلے جذبات کے ساتھ وصول کیا ہے کیونکہ اسے ویزہ بہت مشکل سے ملا ہے۔وہ مجھے اپنے کشمیری دوستوں کی زبانی سنی بھارتی بربریت کی دلدوز داستانیں سناتی ہے۔ بھارتی فوجی گھروں میں گھس کر مردوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کے منہ میں غلاظت بھرتے ہیں۔جب وہ ادھ موئے ہوجاتے ہیں تو انہیں نازک اعضا پہ کرنٹ لگا کر ہوش میں لایا جاتا ہے۔عورتوں کی عصمت دری ان کے بچوں کے سامنے کی جارہی ہے۔ ادویات ناپیدہیںاور گھر بے گو رو کفن لاشوں کا قبرستان بن گئے ہیں۔چناروں کی وادی میںخونکی بو پھیلی ہوئی ہے۔ابھی ابھی ہمارے سروں سے پاک فضائیہ کئی جیٹ طیارے پوری گھن گرج کے ساتھ گزر گئے ہیں۔