پوری قوم کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جس نے ہمارے ملک کو اس بدترین وبا ’’کورونا‘‘ سے محفوظ رکھا‘ جس نے دنیا کے بڑے بڑے ممالک کو اپنی جکڑ میں لیا ہوا ہے۔ یہ الفاظ 25مارچ 2020ء کو برونڈی(Burundi) کے قومی ٹیلی ویژن پر حکومت کے نمائندے پروسپر ناتھور وامیا(prosper Nathorwamiya)کے تھے۔ اس نے کہا کہ ہمیں حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند رہنا چاہیے اور اس مہربان مالک کائنات کا مسلسل شکر گزار ہونا چاہیے۔ برونڈی دنیا کے ان چھ ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب تک کورونا وائرس کا ایک بھی کیس نہیں نکلا۔ یہ شاید ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو جرمن قوم کی کالونی رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد اسے بلجیم کی کالونی بنا دیا گیا ہے۔ اسے 1962ء میں آزادی حاصل ہوئی۔ پورا ملک بڑی بڑی خوبصورت جھیلوں سے آباد ہے۔ ہمیشہ سے ہوتو(hutu) اور تتسی (tutsi) قبائل کا مسکن رہاہے جن کے درمیان مختلف وقفوں سے اس قدر خونریزی برپا ہوتی ہے کہ لاکھوں لوگ قتل ہو جاتے ہیں۔ پورا ملک زرعی ہے اور چائے اور کافی برآمد کر کے بہت سا زرمبادلہ کماتا ہے۔ شدید غربت کا شکار ہے یہاں تک کہ اس کے نوے (90) فیصد لوگ خط غربت سے نیچے رہتے ہیں۔ لیکن ان غربت کے مارے لوگوں کا کمال دیکھیں کہ اپنے حال میں مست ہیں۔ تبدیلی کی خواہش ہے نہ ترقی کا ہیجان۔ صرف 0.5فیصد لوگوں کے بنکوں میں اکائونٹ ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ کی آبادی والے اس ملک کو دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ جدید تہذیب کے سارے نخرے اور تام جھام سے یہ لوگ ناآشنا سے ہیں۔ منرل واٹر‘ کلورین زدہ صاف پانی اور وہ بھی پائپ کے ذریعے بیت الخلاء کی سہولت‘ صفائی ستھرائی کا مربوط نظام اور ایسی کئی چیزیں جنہیں عمومی صحت کا ضامن سمجھا جاتا ہے وہ اس ملک کے باسیوں کو میسر نہیں۔ لیکن چین کی حکومت نے انہیں کورونا وائرس ٹسٹ کرنے کی لاتعداد کٹس فراہم کیں اور انہوں نے بے شمار ٹسٹ کئے۔ عالمی ادارہ صحت کے نمائندوں نے ان کو باقاعدہ دیکھا اور پھر پوری قوم اور ان کی حکومت پکار اٹھی کہ یہ صرف اور صرف اللہ کا کرم ہی ہے کہ ہم اس وبا سے بچے ہوئے ہیں۔ برونڈی افریقہ کے 54ممالک میں سے ان چھ ممالک میں شامل ہے۔ جہاں چار ماہ گزرنے کے بعد بھی کوئی شخص کورونا کا شکار نہیں ہوا۔ ان ممالک میں جنوبی سوڈان ‘ملاوی‘ کوموروس‘ سائوٹومے اور پرنسپی بھی شامل ہیں۔ یہ تمام ممالک بھی انتہائی غریب ہیں اور ان کے حالات بھی برونڈی سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ کم از کم ایک درجن ایسے ممالک ہیں جہاں کورونا کا ایک بھی مریض نہیں مل سکا۔ ان میں شمالی کوریا‘ ترکمانستان‘ یسوتھو‘ جزائر سائمن‘ واتوآتو‘ کربائی‘ میکرونیشیا‘ ٹونگا‘ مارشل آئی لینڈز‘ پلائو‘ ٹوالو اور نارو شامل ہیں۔ یہ تمام ممالک بھی دنیا کے نقشے پر تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں نہ اقتصادی قوتیں ہیں اور نہ ہی قومی طاقتیں۔ اپنے رزق کے لئے یہ لوگ خوراک پیدا کرتے ہیں‘ بھیڑ بکریاں چراتے ہیں۔ چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں اور مزے کی نیند سوتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک کی فہرست میں لاتعداد ایسے غریب ممالک ہیں جنہیں کورونا صرف چھو کر گزرا ہے۔ یعنی ان کی کروڑوں کی آبادی ہے لیکن پورے ملک میں کورونا کا شکار ہونے والوں کی تعداد ایک درجن کے آس پاس ہے۔وہ لوگ جو اس بات پر ذرا مشکل سے یقین کرتے ہیں کہ یہ تمام غریب ممالک کیسے بچ گئے‘ کیا اس میں اللہ کی کوئی خاص حکمت شامل ہے۔ اکثر اوقات دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ وہاں لوگ تو مر رہے ہوں گے لیکن کون سا کوئی وہاں ٹسٹ کر رہا ہو گا پتہ چل سکے۔ ان کی خدمت عالیہ میں عرض ہے کہ جب 2014ء میں مغربی افریقہ کے ممالک میں خطرناک وائرس ایبولا(ebola)پھیلا تھا تو افریقہ کے تمام ممالک میں عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی اداروں نے دفاتر قائم کئے تھے۔ ٹیسٹنگ سروسز مہیا کی تھیں اور وہاں کے صحت کے شعبے کو کئی سال تک ٹریننگ دی گئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر سیاہ فام افریقی سے لوگ ایسے ڈرتے تھے جیسے ایک زمانے میں کسی پلیگ زدہ انسان یا خارش زدہ جانور سے ڈرتے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے خود کو اس مرض کورونا سے بچانے کے لئے کوشش بھی کی۔ نائجیریا پہلا ملک ہے جہاں 27فروری کو ایک اطالوی شہری میں کورونا پازیٹو نکل آیا۔اس انکشاف سے ایک ہفتے پہلے سے وہ پورے ملک میں آزادانہ گھومتا رہا تھا۔ نائجیریا میں ایک ایمرجنسی کی صورت حال بنا دی گئی۔ وہ اطالوی پورے ملک میں 121لوگوں سے ملا تھا۔ ان افراد کو ڈھونڈا گیا جن میں سے ایک شخص پازیٹو نکلا۔ جیسے ہی نائجیریا میں اس اطالوی شخص کی اطلاع ملی ‘ فوراً زمبابوے‘ گھانا اور سوڈان جیسے ممالک نے سکول بند کر دیے۔ بڑے اجتماعات پر پابندی لگا دی اور امریکہ‘ یورپ اور چین سے آنے والی پروازوں پر بھی پابندی لگا دی۔ صرف دو ہفتوں کے بعد جب پابندیاں اٹھائی گئیں تو ہر ملک میں صرف ایک درجن سے بھی کم لوگوں کو کورونا کا شکار پایا گیا۔ اس دوران دو مختلف رویے نظر آئے۔ کینیا نے اپنے ملک میں کرفیو لگایا جبکہ اس کے پڑوسی ملک تنزانیہ نے تھوڑی سی پابندی کے بعد معاملات میں ڈھیل دے دی۔ دونوں ملک کورونا سے آزاد رہے لیکن تنزانیہ کے صدر جاں میگفولی(John Magufuli)نے اپریل کے پہلے ہفتے میں اللہ سے معافی اور شکرانے کی ایک بہت بڑی ریلی منعقد کی اور لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں کہا کورونا کی وبا پر ہم نے صرف اللہ کی مدد سے قابو پایا ہے۔ پھر اس نے اللہ پر اپنے یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پہلے دن سے ہی پریشان نہیں تھا‘ کیونکہ جب آپ اللہ سے معاملات کی بہتری کی درخواست کر رہے ہوں تو پھر پریشانی کو آپ کے قریب بھی نہیں آنی چاہیے۔ آج پانچ ماہ ہو چکے۔ عالمی طاقتوں کا ترقی یافتہ ہونا ان کے کسی کام نہ آیا۔ صحت کی سہولیات پر ایمان انہیں کورونا کی موت سے نہ بچا ۔ وہ جو کہتے تھے کہ ہم نے اپنی اوسط عمر بڑھا لی ہے آج بے بسی سے سوچ رہے ہیں کہ ہمارے پاس تو ہسپتال میں بستر بھی پورے نہیں ہیں۔ یہ معاملہ صرف افریقہ کے 54ممالک تک ہی محدود نہیں۔ لاطینی امریکہ اور مشرق بعید کے نسبتاً غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک بھی اس خوفناک وبا سے آزاد ہیں۔ لیکن مغرب میں ایک خواہش دلوں میں چھپی ہوئی ہے جو عالمی اداروں کی زبانی ظاہر ہوتی ہے کہ افریقہ میں یہ موت کا رقص کیوں شروع نہیں ہوتا۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اگر کورونا افریقہ میں پھیلا تو ایک کروڑ متاثر ہوں گے اور 33لاکھ مر جائیں گے۔ کیونکہ افریقہ میں سنبھالنے کے لئے انتظام ہی موجود نہیں۔ میرے اللہ بھی کیسے دنوں کو بدلتا ہے کبھی ایمبولا وائرس کے دوران افریقہ سے آنے والی پروزاوں میں سے سیاہ فام افراد کو اتار کر قرنطینہ میں رکھنا جاتا تھا اور آج افریقہ جانے والی یورپ اور امریکہ کی پروازوں سے گوروں کو نکال کر قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے یہ میرا اللہ ہے جو انسانوں کے درمیان دنوں کو بدلتا ہے۔