مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کوئی کہے کہ احسان آپ نے پچیس برس کی صحافت میں جھک ماری تو میں سینے پر ہاتھ رکھ تسلیم کر لوں گا،مجھے شرمندگی ہے کہ میں اس بڑے انسان سے واقف کیوں نہیں ہوا مجھ پر ان کی قومی ملی خدمات کیوں نہ منکشف ہوئیں میں مانتا ہوں کہ میں ان دس دنوں سے پہلے صرف دو عبدالقادروں کو جانتا تھا ایک وہ لیگ اسپنر جادوگر جس نے 1987 ء میں لاہور کے قذافی اسٹیدیم میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا دھڑن تختہ کر دیا تھاگوروںکے نو کھلاڑی صرف 56رنز دے کرپویلین بھجوا دیئے تھے اگر توصیف احمد کی گیند پر آصف مجتبیٰ ڈیوڈ کیپل کا کیچ نہ پکڑتے تو عبدالقادر نے تن تنہا گوروں کی پوری ٹیم ہی پویلین بھیج دینی تھی ’’گگلی ماسٹر ‘‘ عبدالقادر کے بعد میں بلوچستا ن کے دراز قامت سابق گورنرلیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کو بھی جانتا ہوں مجھے افسوس ہے کہ ان دو کے سوا میں بلوچستان سے نومنتخب سینیٹر عبدالقادر صاحب کے بارے میں کچھ نہیںجان سکا ان سے غائبانہ تعارف پہلی بار اس وقت ہوا جب موصوف بنی گالہ سے سینیٹ کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوئے بدقسمتی سے میری طرح پی ٹی آئی میں ’’کم علم‘‘ کثیر تعداد میں ہیں انہوں نے شور شرابا کرنا شروع کر دیا وہ ناک بھوں چڑھایا تنقید کی کہ جس کے بعدکپتان کو ٹکٹ واپس لینا ہی پڑا، یہ حقیت میں اچھا مثبت اورحیران کن فیصلہ تھا تحریک انصاف کے کارکن اور کپتان کے خیر خواہ مخالفین کے سامنے آکر چوڑے ہوگئے کہ دیکھو ہماراکپتان ایسا ہے اور انہیں اس کا حق تھاکہ ان کے کپتان نے ان کے احتجاج کا نوٹس لیا تھایہ چھوٹی بات تو نہ تھی۔ ٹکٹ واپس لئے جانے کے فیصلے سے عبدالقادر صاحب بالکل رنجیدہ اور افسردہ نہ ہوئے انہیں بلوچستان کے ارکان اسمبلی کی’ ’مردم شناسی ‘‘ پر پورا بھروسہ تھاانہوں نے مہم کا آغاز کردیالیکن مسئلہ یہ آڑے آرہا تھا کہ ان سے کوئی واقف تھا نہ ان کی خدمات جانتا تھا،وہ دکھاوے کے قائل نہیں ،دائیں ہاتھ سے دیتے ہیںاور بائیں کو خبر نہ ہوتی دوسرے تیسرے کو کیا خاک پتہ چلے ۔۔۔! لیکن عبدالقادر صاحب کے سر پر ’’باپ‘‘ ( بلوچستان عوامی پارٹی )کا دست شفقت تھاانہوں نے بلوچستان کے اراکین اسمبلی سے شرماتے لجاتے ہوئے اپنا تعارف کرایا اورانہیں بتایا کہ عبدالقادر کون ہے جب بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو ان کی ملی قومی سیاسی خدمات سے آگاہی ہوئی تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں مجھے نہیں علم کہ اس تعارف کے بعد عبدالقادر صاحب کے دست قدرت کو کتنوں نے بوسہ دیا ہوگا یہ ملاقاتیں نتیجہ خیز ہی ہونی تھیں اورنتیجہ خیز ہی ثابت ہوئیں انہوں نے زبان دے دی ، یقینا عبدالقادر صاحب نے بھی سنا ہوگا انہوں نے اس بلوچستان میں اپنی کامیاب مہم چلائی جس کے بارے میں وزیر اعظم نے انکشاف کیا تھا کہ ایک ووٹ کی قیمت پچاس سے اسی کروڑ روپے لگائی جارہی ہے۔ عبدالقادر صاحب نے ایسے ماحول میں خوب محنت کی کامیا ب ہوئے اور جیت کے بعد اپنی نشست کپتان کے قدموں میں ڈال دی البتہ نومنتخب سینیٹر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں نرمی سے وزیر اعظم کی اس بات کی تردید کردی کہ بلوچستان اسمبلی بکاؤ مال ہے انہوں نے وزیر اعظم کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کوئی شخص پیسے دے کر سینیٹر نہیں بنا یہ سچ میں نے تو مان لیا لیکن پی ٹی آئی والوں کے لئے یہ مشکل ہے کہ وہ اپنے کپتان کو سچا مانیں یا کپتان کے کھلاڑی کو جھوٹا قرار دیںوہ ابھی تک یہی گتھی سلجھا رہے ہیں ۔ یہ قضیہ جانے دیں اور اپوزیشن کی طرف آجائیں ابھی ان بیانات کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی جس میں اپوزیشن نے چیختے چنگھاڑتے ہوئے خفیہ رائے شماری کے حق میں دلائل کے تھدے کے تھدے لگا ئے تھے یہ کل پرسوں ہی کی تو بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اس وقت کی عملًاسربراہ مریم نواز کا یہ بیان سامنے آگیا کہ قوم اب خفیہ بیلٹ کے خاتمے کی منتظر ہے ۔۔۔یہی وہ مریم بی بی صاحبہ ہیں جن کی نظر میں کھلی رائے شماری سے بڑی خرابی کوئی دوسری نہ تھی ،مریم بی بی اور ان کے ہمنوا اس وقت تک قومی میڈیا پر قوالی گاتے رہے اوران کے مہنگے ترین وکیل سپریم کورٹ میں دلائل دیتے رہے جب تک فیصلہ نہیں ہوگیا کہ ووٹ اور ووٹر کی شناخت مخفی رہے گی اور سب پہلے کی طرح چلے گا اس فیصلے کے بعد اپوزیشن نے اپنے ترپ کے پتے پھینکے کپتان کی صفوں میں گھسے کپتان کے کھلاڑیوں کے ضمیر ’’جگائے‘‘ اور پھر حیرت انگیز فیصلہ سامنے آیا ،گیلانی صاحب جیت گئے اور فاقی وزیر خزآنہ کو شکست ہوئی ،وزیر داخلہ کے مطابق اپوزیشن کی مہم سے کپتان کے بیس کھلاڑیوں کے ضمیر جاگے جن کے نام سے کپتان واقف ہیں ،میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور پی ٹی آئی کے رہنما الیکشن کمیشن کے سامنے دہائی دے رہے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کا انتخاب کالعدم قراردیا جائے،الیکشن میں پیسہ چلا ہے۔ ایک بار پھر میری عقل ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہے کہ جس ’’سرپرائز‘‘ پربلوچستان میں سب اوکے رہا اسی سرپرائز پر اسلام آباد میں دہائیاں کس لئے ؟انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کا کردار کتنا موثر رہا ہے اس پر کسی تحقیق کی ضرورت نہیں لیکن اس بار الیکشن کمیشن کا یہ سوال حکومت کے لئے معنی خیز ہے کہ ایک چھت تلے ان کی خاتون امیدوار میدان مار لیتی ہیں تو واہ واہ اور اسی چھت تلے عبدالحفیظ شیخ صاحب ہار جاتے ہیں تو آہ ،آہ ۔۔۔بات سیدھی سی یہ ہے کہ الیکشن میں پہلے بھی لکشمی جی کے ٹھمکتی تھی اب بھی یہاں تماش بین گاؤ تکیہ لگائے بیٹھے ملے تو کیسا تعجب ! ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اسی کے زلفوں کے سب اسیر ہوئے سو باتوں کی ایک بات کہ یہ جمہورئت یورپ شورپ میں کہیں صاف ستھری نتھری قیاد ت ایوانوں میں پہنچاتی ہو تو پہنچاتی ہو ہمیں تو بڑے بدمعاشوں میں نسبتاکم بدمعاش ہوتے ہیں بالفظ دیگر ہمیں برہنا میں زیرجامے والی ’’باحیاء ‘‘ قیادت تلاش کرنے کاہی موقع ملتا ہے اگر خوش قسمتی سے حمام میں ایسے پراگندہ طبع لوگ مل جائیں تو انہیں پہنچا ہوا بزرگ مان کر ہاتھوں کو بوسہ دینا بنتاہے حق بنتا ہے کہ میر تقی میر ان ہی کے لئے تو کہہ گئے ہیں کہ پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی