خواب کم خواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سرتسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے فیض صاحب نے کہا تھا’’پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ قلم اور قرطاس کی بات بھی اس لئے ذہن میں آئی کہ مجھے بزم انمول کے زیر اہتمام ایک اردو پنجابی کانفرنس میں جانا پڑا۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک مشاعرہ بھی رکھا ہوا تھا۔ مقصد اس کا یقینا زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا تھا۔ اس اجتماع کا مقصد اردو اور پنجابی کی ترویج ہی ہو گا مگر اس میں اہم بات کچھ دوسرے ممالک سے دوستوں کی آمد تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نہایت صحت مند اور مثبت سرگرمی ہے کہ شعر و ادب اور تخلیق و تدوین کے حوالے سے صاحبان ذوق و شوق اکٹھے ہوں ۔ اس حوالے سے معروف شاعرہ انمول حرف تحسین کی مستحق ہے کہ وہ گاہے بگاہے شعرا اور ادبا کو یہ موقع فراہم کرتی رہتی ہے کہ وہ مل بیٹھیں۔ اس کانفرنس میں زیادہ بات تو اپنی قومی زبان اردو کے حوالے سے ہوئی کہ دوسرے دیسوں سے آئے ہوئے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اردو کو قومی زبان ہونے کے ناتے دفتروں میں یعنی سرکاری طور پر یہ رائج کیا جائے جس طرح کہ آزاد کشمیر میں یہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان سے باہر بھی اسی اردو کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں‘ یہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ انہوں نے حکومت سے زور دار استدعا کی کہ وہ اسے ذریعہ تعلیم بنائے۔ اس بات پر مجھے ہنسی بھی آئی اور رونا بھی۔ آپ پوچھیں گے کہ کیوں؟ اس کی وجہ حالیہ دلچسپ صورت حال ہے کہ ایک طرف عمران خاں نے اردو میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہماری تقریبات میں کارروائی اردو میں ہونا چاہیے۔ انگریزی میں اظہار کرنا غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ انہوں نے درست کہا کہ نظامت بھی انگریزی میں کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے حوالے سے انہوں نے درست فرمایا کہ انہیں معلوم ہے کہ کتنے لوگ انگریزی سمجھتے ہیں۔ کئی تو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ انہیں سمجھ آ رہی ہے کہ وہ پڑھے لکھے لگیں۔ ویسے خان صاحب نے تو کچھ رعایت کر دی وگرنہ جعلی ڈگریوں والے تو صحیح اردو بھی نہیں جانتے۔ اب دیکھیے کہ تضاد کہاں پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف خان صاحب نے ٹھیک نشاندہی کی کہ ہم انگریزی کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں اور ہمیں اردو کو ذریعہ اظہار بنانا چاہیے۔کہ ہم بھی ایک زندہ قوم کی شکل میں سامنے آئیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ کیا ہوا کہ انہوں نے ایک نالائق اور میٹرک پاس کو کے پی کے میں وزیر تعلیم بنا دیا اور اس پر مضحکہ خیز ردعمل یوسفزئی نے یہ کہہ کر دیا کہ موصوف وزیر تعلیم میٹرک پاس ضرور ہیں مگر وہ انگریزی بہت اچھی جانتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک انگریزی جاننا تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ پھر تو کسی بھی شخص کو وزیر تعلیم بنایا جا سکتا ہے۔ کیا المیہ ہے کہ پرویز مشرف نے بی اے کی ڈگری لازم کی تو اسمبلی جعلی ڈگری والوں سے بھر گئی اور پھر اسلم رئیسانی نے قول زریں پیش کیا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی کیسی کیسی چنگاریاں ہماری خاکستر میں ہیں۔ بات ہو رہی تھی انمول اردو پنجابی کانفرنس کی۔ اس کانفرنس کی صدارت نواز محمد کلیار نے کی جبکہ مشاعرہ کی صدارت منصور آفاق کے حصہ میں آئی۔ نواز محمدکلیار بہت ہی ادب نواز شخصیت ہیں اور وہ ناروے میں بھی ادبی تقاریب کرواتے ہیں۔ ان کے ساتھ مہمانان خاص میں سید ندیم حسین ناروے سے تھے‘ ناصر معروف مسقط سے‘ کلیان سنگھ ننکانہ صاحب سے مدثر جاوید ملک ملتان سے اور رائو وحید اسد ملتان سے تھے۔ نظامت ممتاز راشد لاہوری نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھائی۔ انمول گوہر مہمانوں کی آئو بھگت کرتی رہی۔ شاعروں کو پروٹوکول دینا بھی تو ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ لوگ فاطمہ قمر سیکرٹری اردو تحریک کو بھی بلواتے مگر شاید وہ ان دنوں کراچی میں تھیں۔ ڈاکٹر کلیان سنگھ جو کہ آج کل پنجاب یونیورسٹی پڑھا رہے ہیں نے بہت اچھی بات کی کہ وہ پنجابی کے حق میں ہیں مگر اردو کے خلاف نہیں‘ مگر کیا کریں کہ اردو والے اردو کے حق میں ہیں اور انگریزی کے خلاف ہیں۔ شاید اس لئے کہ انگریزی نے اردو کو نقصان پہنچایا ہے مگر اس میں قصور ہمارے کرتا دھرتائوں کا ہے جنہوں نے قومی زبان کا راستہ روکا اور یوں روزگار کے سارے مواقع انگریزی پڑھے لکھوں کے لئے رہ گئے اور کچھ نہیں تو پی آر او کے لئے بھی وہی مناسب رہتا ہے جو آئے گئے کو دو چار انگریزی فقروں سے مرعوب کر سکے۔ نظام دین کی پوتی غزالہ نظام دین نے کہا کہ میں اپنے پوتے پوتیوں سے جو کہ انگریزی میڈیم میں پڑھتے ہیں ان سے پنجابی بولتی ہوں۔ میں سوچنے لگا یہی تو مسئلہ ہے کہ ہم پنجابی کو صرف اس حد تک ہی چاہتے ہیں کہ منہ کا ذائقہ بدلا جائے۔ یہ ایک اندازبھی ہے۔ ہماری میڈم شائستہ سراج بھی یا پنجابی بولتی ہیں یا پھر انگریزی‘ ساتھ ہی مشاعرہ تھا سب کے شعر تو یاد نہیں۔ انمول گوہر نے بطور میزبان اچھی غزل سنائی: نوک نیزہ پہ آ گیا ہے دل لوگ کہتے ہیں بائولا ہے‘ ہے میرے دل کو یہ روز کھاتی ہے غم تو نہ تھا کہ اک بلا ہے‘ ہے مہمان شعرا میں رائو وحید اسد (ملتان) پروین سجل‘ روبیہ راجپوت‘ شہزاد تابش‘ ڈاکٹر محمد ابرار‘ پرویز وفا ہاشمی‘ آسیہ بتول (منڈی بہائوالدین) سید رضوان ہاشمی‘محمد جمیل‘ محمود عامر‘ شہزاد صدیقی پروفیسر کوثر جمال چیمہ اور دیگر۔ بہرحال اس اردو پنجابی کانفرنس کا مقصد یہی تھا کہ حکومت کو یادہانی کروائی جائے کہ آئین کا پاس کرتے ہوئے اردو کو سرکاری سطح پر رائج کیا جائے اور یکساں نظام تعلیم رائج کیاجائے۔ بلکہ وزیر تعلیم بھی کسی اچھے تعلیم یافتہ شخص کو لگایا جائے۔ خاں صاحب نے آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ سب سے زیادہ بجٹ تعلیم کے لئے رکھیں گے کہ یہ ان کی ن لیگ کے مقابلے کائونٹر پالیسی تھی کہ خان صاحب کے بقول میٹرو کوئی ترقی کی علامت نہیں‘ اس کے مقابلہ میں تعلیم یافتہ نسل تیار کرنا اصل بات ہے۔ بات تو ان کی درست تھی مگر عمل کچھ بھی نہیں۔ کے پی کے میں ان سے ایک میٹرو تک مکمل نہیں ہوتی بلکہ ہر بار اس کا بجٹ بڑھا کر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی۔ بات تو خاں صاحب نے یہ بھی درست کہی کہ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ جرمن اسمبلی میں کوئی فرانسیسی میں تقریر کرے یا چین میں کوئی فرانسیسی کو اظہار کا ذریعہ بنائے انہیں چاہیے کہ اس قوم کو بھی اپنی زبان دے دیں۔ عدلیہ تو پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے بات تو ان مقامی انگریزوں کو قابو کرنا ہے جو انگریزی کے سحر میں ہیں کہ اس نے ان کے تمام عیوب پر پردہ ڈال رکھا ہے اور انہیں اجارہ داری دے رکھی ہے۔ وہ قوم کو اندھیرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسا مذاق ہے کہ اداروں میں سب گفتگو اور بحث اردو میں ہوتی ہے۔ مگر اعلانیہ انگریزی میں لکھا جاتا ہے جس دن اردو کو سرکاری طور پر پذیرائی ملی اس دن اردو پڑھنے والے اردو ہی پڑھنا پسند کریں گے۔ خان صاحب !کم از کم یہ کام تو کر گزریں یہ قوم آپ کو دعائیں دے گی کہ ان کو اپنا مدعا بیان کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ پھر انگریزی مواد ہی اردو میں آتا جائے گا۔ یہ کام دھیرے دھیرے ہی سہی کریں تو سہی۔ دو اشعار کے ساتھ اجازت: خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم یاس کہاں رکھیں گے پیلے پھولوں سے لدے رہتے یں جو راہوں میں ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے