ملتان سے ڈیرہ اسماعیل خان جا رہے تھے ، بھکر میں سرائیکی رہنما ملک غلام نبی بھیڈوال نے ظہرانے کا اہتمام کیا ۔بھکر میں معروف دانشور ملک مظفر خان سے میں نے تبدیلی کے بارے پوچھا تو انہوں نے کہا کچھ نہیں بدلا ، ماسوا عام آدمی کی مشکلات کے ۔ انہوں نے بتایا کہ سیاسی لحاظ سے بھکر کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھکرکے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ خوبصورت اشعار سے بھکر کا تعارف کراتے رہتے ہیںاور پارٹی موقف سے ہٹ کر انہوں نے قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب کی بجائے الگ صوبے کا مطالبہ کیا ہے ۔ وہ بتا رہے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے والے پولیس افسر اصغر خان نوانی المعروف ہلاکو خان کا تعلق بھی بھکر سے تھا اور چوہدری ظہور الٰہی قتل کیس میں سزائے موت پانے والے رزاق جھرنا کا تعلق بھی بھکر سے تھا چوہدری شجاعت حسین وزیراعظم اور میاں شہباز شریف بھکر کی سیٹ سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ تھل ڈویژن ، تھل موٹر وے اور بھکر میڈیکل کالج کے قیام کے وعدے ہوئے ۔ مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ ملتان سے میرے ساتھی حاجی عید احمد دھریجہ ، زبیر دھریجہ کے علاوہ بھکر کے دوست محمد خان مچھرانی اور ڈاکٹر نواز بھٹی شریک سفر ہوئے ۔گاڑی دریائے سندھ پل پر پہنچی ایک طرف پنجاب کی پولیس چوکی پر ’’ خدا حافظ پنجاب ‘‘ اور دریا کی دوسری طرف ’’ خوش آمدید خیبرپختونخواہ ‘‘ لکھا ہوا تھا ۔ ضرورت سے زیادہ چیکنگ ، پوچھ گچھ پر میں نے کہا کہ ہم جہاں کھڑے ہیں نہ یہ پنجاب ہے نہ خیبرپختونخواہ۔ دریا کے دونوں طرف وسیب ہے اور دونوں طرف کی تہذیب، ثقافت ، زبان اور جغرافیہ ایک ہی ہے اور یہ رنجیت سنگھ و انگریز سامراج سے پہلے نہ تو اس وقت کے صوبہ لاہور کا حصہ تھا اور نہ صوبہ پشاور کا ، ڈی آئی خان ،ٹانک ، بنوں وغیرہ صوبہ ملتان سے ہی منسلک تھے۔ عجب ستم ہے کہ وسیب کے اصل باشندے تلاشیاں دے رہے ہیں ۔ جبکہ فاٹا ، افغانستان والوں نے جہاد افغانستان کے بعد مستقل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ، ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔ دیرہ اسماعیل خان میں گومل یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے حق نواز پارک میں تیسرا سالانہ گرینڈ سرائیکستان کنونشن منعقد کیا ہوا تھا ۔ وہاں ہزاروں لوگ جمع تھے جو الگ صوبے کیلئے قیام کیلئے نعرے بلند کر رہے تھے۔ لوگوں نے کثیر تعداد میں سرائیکی اجرکیں اور جھنڈے کے رنگ کی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں ۔ کنونشن کے آغاز سے پہلے دیرہ اسماعیل خان کے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں ، ان میں ملک اسلم اعوان ، وسیم کھوکھراور ملک خضر حیات ڈیال شامل تھے ۔بعد ازاں ڈاکٹر سعد اللہ ، باقی باللہ اور مظفر خان مروت نے کیفے بیٹھک میں چائے کا انتظام کیا ۔ سلیم شہزاد اورسعید اختر سیال تشریف لائے ۔ میں نے سوال کیا کہ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کے بارے میں کیا خیال ہے تو دوستوں نے کہا کہ بظاہر مولانا اور عمران خان آمنے سامنے ہیں در اصل امریکا اور اینٹی امریکا قوتوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے ۔ میں نے سوال کیا کہ کیا سی پیک منصوبے سے ڈی آئی خان انڈسٹریل زون ختم کر دیا گیا ہے؟ ادیبوں کی بیٹھک سے ہم حق نواز پارک آ گئے ، وہاں کنونشن سے بہت سے لوگوں نے خطاب کیا ۔ مگر تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی شیخ محمد یعقوب کا خطاب قابل ذکر ہے ۔شیخ صاحب نے خطاب کے آغاز میں اپنے قائد عمران خان کے ویژن کا ذکر کیا ۔ مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کو مسترد کیا اور کہا کہ تحریک انصاف کی دور رس پالیسیاں آنے والے وقتوں میں عام آدمی کی سہولت اور بہتری کا باعث بنیں گی ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے ایک صوبے کے لئے کام شروع کر دیا ہے اور بہاولپور کے ممبر قومی اسمبلی مخدوم سمیع الحسن گیلانی نے صوبے کی قرارداد اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ شیخ صاحب نے پہلے لفظ سرائیکستان بولا اور بعد میں کہا کہ جنوبی پنجاب صوبے پر کام ہو رہاہے۔ انتظامیہ کے کچھ لوگوں نے تالیاں بجائیں مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ سمیع الحسن گیلانی نے اسمبلی میں جو قرارداد جمع کرائی ہے اس میں ملتان ، بہاولپور اور ڈی جی خان ڈویژن شامل ہیں جبکہ ٹانک ،ڈی آئی خان ،جھنگ، میانوالی ، بھکر ، ساہیوال اور پاکپتن وغیرہ مجوزہ صوبے میں شامل نہیں ۔ شیخ یعقوب صاحب کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ عمران خان کی تعریف کے بعد انہوں نے کہا کہ میں کہنا نہیں چاہتا تھا ، حق تلفی کا تذکرہ کروں لیکن مجھے بھی سرائیکی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں مقامی لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کیلئے ایک صنعتی یونٹ قائم کر رہا ہوں ، پانچ ارب روپے کی لاگت آ چکی ہے مگر رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گومل یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقامی اسٹاف اور طالب علموں سے تعصب برتا ہے اور سرائیکی شعبے کے قیام میں رکاوٹ ہے ۔ میرا مطالبہ ہے کہ اسے فوری تبدیل کیا جائے ۔ شیخ صاحب نے یہ بھی کہا کہ ٹرائبل مل اور ٹرائبل ایریا سے وسیب کے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے اور یہ بھی شکایت آئی ہے کہ سرائیکی بولنے والوں کی تنخواہیں نصف کر دی گئی ہیں ، میرا مطالبہ ہے کہ عمران خان ان امور کی طرف فوری توجہ کریں ۔ اب تھوڑا تذکرہ دیرہ کے پس منظر کے حوالے سے کروں گا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ کم و بیش پانچ سو سال پرانی ہے۔ سردار سہراب خان جو ایران سے نقل مکانی کر کے آئے تھے نے اسے آباد کیا تھا اور اپنے مرحوم بیٹے کے نام سے اسے ’’ ڈیرہ اسماعیل خان ‘‘ کا نام دیا ۔ دریائے سندھ کے کنارے یہ خطے کا خوبصورت شہر ہے۔ اسے ’’ ڈیرہ پھلاں دا سہرہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مطابق 1823ء میں دریائے سندھ نے رخ بدلا تو پورا شہر دریا بُرد ہو گیا ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ’’ بھلے مانس‘‘ نواب احمد یار خان نے نئے شہر کی بنیاد رکھی اور بلا رنگ نسل و مذہب سب انسانوں کو دریا برد ہونے والی زمینوں کے بدلے زمینیں اور گھر بنا کر دیئے۔ دیرہ ایک بار پھر آباد ہو گیا ۔ شہر کو آئندہ سیلابوں سے بچانے کیلئے ایک طویل حفاظت بند جسے سرائیکی میں بچا بند کہتے ہیں1931ء میں انگریز کمپنی گیمن نے بنایا ۔حفاظتی بند کا پتھر پہنچانے کیلئے بنوں سے براستہ لکی ڈیرہ اسماعیل خان تک ریلوے لائن بچھائی گئی ، جو 1990 ء کی دہائی میں ختم کر دی گئی۔ سی پیک منصوبے میں ڈی آئی خان ریلوے منصوبہ شامل تھا ،جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔