بلی تھیلے سے پوری طرح باہر آچکی ہے نہ صرف باہر آئی ہے بلکہ اپنے اصل مالک کی طرف دیکھ کر میاؤں میاؤں بھی کر رہی ہے ،اسکے جوتے پر سر رگڑ کر اپنی محبت اور وفا کا یقین دلا رہی ہے وہ اتاؤلی ہے کہ اسکے سامنے دودھ کی کٹوریاںاور بالائیاں رکھنے والا جھک کر اسے گود میں اٹھا لے ،اسکی یہ بے چینی بہت سوں کے لبوں پر مسکراہٹ کاشت کررہی ہے ،ان ہی میں ایک یہ راقم بھی ہے،میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز نوے کی دہائی میں کراچی سے ہی کیا تھا یہ وہ کراچی تھا جب یہاں نامعلوم افراد کی معلوم حکومت تھی اورلندن کے مہنگے ترین علاقے میں پرآسائش جلا وطنی کاٹنے والے اس حکومت کے اصل حکمران تھے یہ بدقسمت کراچی کے وہ بدترین دن تھے جب انسان کی سانسیں اسکی زبان سے گنی جاتی تھیں۔ کراچی لسانیت کے بخار پھنک رہا تھا تعصب فضا میںایسا گھل چکا تھا کہ سندھی ، پشتو اور پنجابی بولنے والوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ لالو کھیت سے زندہ سلامت گزرجائیں اسی طرح اورنگی کے علاقے بنارس اور خیبر چوک اردو بولنے والوں کے لئے خوف کی علامت تھے،ناظم آباد کاکھجی گراؤنڈ ،ملیر کا ٹنکی اسٹاپ،لیاقت آباد کی پیلی کوٹھی اور لالو کھیت کے اپسرا اپارٹمنٹس سے لپٹی خوف و دہشت کی کہانیاں ابھی بھی سنی جاسکتی ہیں،تب ہر سیکٹر آفس میں ٹیڑھے مخالفین کو سیدھا کرنے کا تسلی بخش انتظام رہتا تھا،ڈرل مشینیں ،لوہے کے راڈ،بجلی کی ننگی تاریں اور زندہ چونے کے ڈرم دستیاب ہوتے تھے کھجی گراؤنڈ ٹریننگ کیمپ تھا جسکے چاروںطرف حفاظتی اقدام کے طورپر خندقیں کھدی ہوئی تھیں یہاں بدقسمت ’’شکار‘‘لائے جاتے تھے ،تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے بنائی گئی سیڑھی نما نشستوں پر تماشا لگتا تھا سیکٹر کے ’’ساتھی بھائی‘‘ شکار کے ہاتھ پاؤں باندھ کر وہاں پھینک دیتے اور تحریک میں شامل ہونے والے نوآموز وں کے ہاتھوں میں پستولیں دے کر ہاتھ اور دل پکا کرنے کی مشق شروع کرادی جاتی۔ دھائیں دھائیں گولیاں چلتیںشکار تڑپ تڑپ کرمر جاتا توقریب ہی رہائش پذیر ایدھی ایمبولینس والے چاچا کا دروازہ بجا دیا جاتا وہ بدنصیب نوجوان کی لاش ایمبولینس میں ڈھو کر قریبی عباسی شہید اسپتال کے مردہ خانے پہنچا دیتا۔ ان دنوں بات بات پر لہو سے لتھری ہڑتالیں معمول ہوا کرتی تھیں ایم کیو ایم کسی بھی بات پر ناراض ہوتی تو اسکی رابطہ کمیٹی اپنے ہیڈآفس نائن زیرومیں سرجوڑ کر بیٹھ کر ہڑتال کاوہ فیصلہ کرتی جس کی قائد تحریک نے توثیق کرنی ہی کرنی تھی،وہ اسکی توثیق کرکے مہر ثبت کردیتے ان دنوں نیوز چینل تو تھے نہیں لے دے کر ایک سرکاری ٹی وی تھا جسے سرکار سے ہی فرصت نہ ہوتی تھی اسکی خبروں پر اسکے نیوز کاسٹر یقین نہ کرتے تھے عوام کہاںکرتے ؟ایسے میںابلاغ کا سارا وزن اخبارات کے کاندھوں پر تھاایک آدھ اخبار کو چھوڑ کر سب نائن زیرو سے کنٹرول ہوتے تھے ،ایم کیو ایم کی خبروں کے لئے صفحہ ء اول کا اوپری حصہ مختص ہوتامخالفت کا تو تصور ہی نہ تھاہڑتال کافیصلہ ہوتے ہی اخبارات کے نیوز روم میں رکھی فیکس مشینیں سفید حق پرست قائد کے بیانات ا گلنااور باہر نامعلوم افراد کی کلاشن کوفیں اور ٹی ٹی پسٹل تڑتڑخوف پھیلانا شروع کردیتے کچھ دیر میں گاڑیاں جلنا شروع ہوجاتیں،دھڑ دھڑ دکانوں کے شٹرگرنے لگتے،سڑکیں گاڑیوں کے بوجھ سے ہلکی ہوجاتیں اوربازار ویران ،قائد تحریک کی ایم کیو ایم اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کرکے مقتدر قوتوں کو پیغام پہنچا دیتی کہ دیکھو پاکستان کی جان ستر فیصد ریونیو دینے والے جس طوطے میں ہے وہ ہماری مٹھی میں ہے ۔ کراچی کے اس سیاہ دور میں ریاست نے فورسز کی مدد سے،آپریشن کلین اپ بھی کئے گئے لیکن کبھی مصلحت اور کبھی ناقص تدبیران کوششوںکی گود میںمطلوبہ نتائج نہ دے سکی ۔جیسے جیسے انہیں طاقت ملتی گئی وہ اس مقصد سے دور نکلتے گئے ۔ 1990ء میں قوم کو مشکل میں چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل گئے تھے بتایا یہ گیا کہ انہیں ایم کیو ایم کی قیادت نے ہاتھ پاؤں جوڑ کر لندن علاج کے لئے بھیجا ہے انکی طبیعت ٹھیک نہیںہے اسکے بعد سے آج تک قائد تحریک کی طبیعت نہیں سنبھلی اور نہ ہی زبان کنڑول میں رہ سکی ۔ خودپسندی کے فوبیا میں کئے جانے والے ٹیلی فونک خطابات پہلے ان کے پیروکاروں کو مشکل میں ڈالتے رہے جنکی تاویلات دے دے کر فاروق ستار کی بس زبان نہ گھستی تھی وہ کسی نہ کسی طرح بات بنااور گھما لیتے تھے لیکن پھر انہوں نے پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کو ’’ریاستی عناصر‘‘ کہہ کر شدید تنقید کا نشانہ بناناشروع کیا اور اب تو سیدھاسیدھا پاکستان کو نشانہ بنانے لگے ،سوشل میڈیا کے لئے کیمرے سامنے رکھوا کر پاکستان کو بددعائیں اور کوسنے دینے لگے ہیں ،وہ جو سینے پر ہاتھ مارمار کر بانیان پاکستان کی اولادہونے کا فخر سے ذکر سے کرتے تھے اب پاکستان کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے ہیں اور وہ ’’ہندواستھان‘‘ جہاں مسلمانو ں کو گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں سرعام مار دیا جاتا ہے جہاں مسجدوں دوران نماز خنزیروں کا کٹا سر پھینک دیا جاتا ہے ،جہاں بندے ماترم نہ کہنے پر مسلمان لڑکوں کو تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا جاتا ہے ،جہاں کے جرنیل ٹیلی وژن پر کشمیر کی مسلمان ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عصمت دری کامشورہ دیتے ہیں ۔۔۔وہ ہندواستھان اب قائد تحریک کی آنکھوں کا نور بن چکا ہے ،وہ نریندر مودی جسکے ہاتھ گجرات کے ڈھائی ہزار سے زائد مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں آج وہ ان کی آنکھوں کا تارہ اور مہاتما گاندھی بن چکے ہیں۔ قائد تحریک نے حالیہ دنوں میں ایک بھارتی نیوز چینل کو انٹرویومیں نریندرمودی کی کشمیر کی خصوصی اہمیت کے خاتمے کو سراہا ہے اور انتہاپسند ہندونیتاؤں سے آگے بڑھ کر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی جی نے کشمیر کی ماؤں بہنوں کو بچا لیا ہے انہوں نے بھارت سے سیاسی پناہ بھی مانگی ہے کچھ بعید نہیں کہ مودی سرکار انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کو سیاسی پناہ دے دے جس کے بعد یقیننا وہ صاحب اپنے اور اپنی اکلوتی صاحبزادی کے لئے بھارت کے خوبصورت اور محفوظ ترین مقام کا انتخاب کریں گے۔۔ایم کیو ایم کی عسکریت کے خلاف سرجری کے دنوں میں ان کے دفاتر سے ملنے والے جناح پور کے نقشوں پر بڑا شور مچا تھا،ایم کیو ایم کی قیادت حصے بخرے ہونے سے پہلے اس کی سختی سے تردید کرتی آئی ہے لیکن اب بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست ،بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بھارتی عدلیہ کے فیصلے کی تائید اور کشمیر پر حالیہ بیانات کے بعد اسکے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ’’ بلا‘‘ تھیلے سے باہر آگیاہے نہ صرف باہر آیا ہے بلکہ اپنے مالک کے قدموں میں پیار سے لوٹ پوٹ بھی ہورہا ہے ۔!