زندگی میں ہر شخص کامیابی چاہتا ہے ، ہمارے لاہور کے ایک صوفی درویش کہا کرتے تھے کہ: بعض اوقات لوگ اس دنیاوی کامیابی کے حصو ل اور تعاقب میں بہت دور نکل جاتے ہیں،اتنے دور…کہ اپنوں سے دور،اپنی حقیقت،اپنے افکار اور اپنی بساط سے بھی دور،اور اکثر یہ کامیابی ان کی عاقبت برباد کر دیتی ہے۔وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس دنیا میںہر محنت کرنے والا کامیاب وکامران ہونے کیلئے محنت کرتا ہے،کوئی بھی ناکامی کے لفظ کو اپنی نام،ذات یا ادارے سے جوڑنے کا متحمل نہیں ہوتا،دنیا میں چونکہ مختلف قسم کی محنتیں ہیں،اس لیے کامیابیاں بھی مختلف قسم کی ہیں، بُرے مقاصد کیلئے محنت اگر کامیاب بھی ہو جائے،تو بھی ناکام و نامراد، اور اس کے برعکس اچھے مقصد کی محنت،اگر ناکام بھی رہے،تو بھی کامیاب وکامران ۔کامیابی کا حصول اتنا اہم نہیں ،جتنا ’’مقصداور نظریئے‘‘کا انتخاب اہم ہے۔میں آج’’روز نامہ 92 نیوز‘‘ کی چوتھی سالگرہ پر ،جب اس ’’میڈیا گروپ‘‘کے تمام متعلقین کو مبارکباد پیش کررہا ہوں،تو اس مبارکباد کااصل سبب وہ نظریہ اور کمٹمنٹ ہے، جسکو نبھانے کیلئے اس دنیا میں کسی بھی انسان یا ادارے کو بڑے مسائل اور بحران دیکھنے پڑتے ہیں لیکن اس ادارے نے اپنے افکار،نظریات اور وابستگیوں کو جس مضبوط اور مستحکم انداز میں نبھایا اور پھر روایتی صحافتی روش سے اِعراض کرتے ہوئے،مثبت صحافتی اقدار کو اپنی اولین ترجیح میں جس طرح شامل رکھا ۔اس پر ان کیلئے یقینا مبارکباد۔صد مبارکباد۔بلکہ ڈھیروں مبارکیں ۔ ’’92‘‘میڈیا گروپ بالخصوص دین دار اورخوش عقیدہ طبقے کے لیے بہت بڑی نعمت ہے،کہ انہیں اس میں عشقِ رسالتمآب ﷺ کے ساتھ آپ کے اہل بیت اطہار اور صحابہ کرامؓسے محبت کی مہک میسر آتی ہے ۔ میاں صاحبان از خود دینی نسبتوں اور روحانی سلسلوں کے فیضان کے امین ہیں ۔دنیا اور اس کے مال واسباب کی فراوانی کے اثرات مسلمہ ---دنیا کا عیش وآرام اور آسودگی بڑے بڑے دینی گھرانوں کوبھی چوکڑی بھلا دیتا ہے، اور پھر میڈیا کی چکا چوند۔اس کا وار سہنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔مگر92نیوزمیڈیا گروپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مذہبی روایات،دینی ترجیحات اور اخلاقی اقدار کواوّلیت بنا کر بھی میڈیا انڈسٹری میں سرخروئی حاصل کی جاسکتی ہے۔ زندہ رہنے اورکامیابی سے زندگی گزارنے میں بڑا فرق ہے ۔دنیا میں کامیابی انہی اداروں او ر افراد کو ملتی ہے جن کو اپنے مقاصد کا ادراک ہوتا ہے،جو اپنی خامیوں کو دور کرنے اور خوبیوں اور صلاحیتوں کو بڑھانے کا ہنر اور خود کو منظم رکھنے کا فن جانتے ہوں۔حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے ۔’’حاسبوا قبل ان تحاسبوا‘‘اپنا احتساب کرو قبل اس کے کہ تمہارا احتساب کیا جائے۔کامیاب سربراہ وہ ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بھی پہنچانے اور اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کی استعداد سے بھی آگاہ ہو،اور پھر ان کی Capacityکے مطابق ان سے کام لے اور ان میں بڑے اہداف حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ان میں تواتر،توازن ترتیب اور تسلسل کو برقرار رکھنے کا جذبہ پیدا کرے ۔ میں نے پہلے بھی ایک مرتبہ کہا تھا کہ ادارے کے کار پرداز ان میاں صاحبان اور ان کی ٹیم کا یہ اعتماد اور یقین بڑا مضبوط اور مستحکم ہے کہ ان کی سکرین اور صفحات کی رونق افروزی اور آباد کاری تو اُس اسم مبارک کی برکت سے ہے ،جس کی’’نسبت‘‘ان کے ٹی وی چینل اور اخبار---بلکہ ان کے پورے میڈیا گروپ کو میسر ہے ،وگرنہ اتنی کم مّدت میں ، میڈیائی ادار ے ایسے ’’Grow‘‘ نہیں کرتے ۔ حضرت اقبال نے توبہت پہلے کہہ دیا تھا : آبروئے مازِ نام مصطفی یعنی: ہماری ساری عزتیں اور عظمتیں تو محمد مصطفی کریم ﷺ کے نام نامی اسم گرامی کی برکتوں اور عنایتوں کے سبب ہیں ۔ اقبال مزید عرض گذار ہوتے ہیں : گردِ تو گردد حریمِ کائنات از تو خواہم یک نگاہِ التفات ذکر و فکر و علم و عرفانم تُوئی کشتی و دریا و طوفانم توئی اے پناہِ من حریم کوئے تو من بامیدے رمیدم سوئے تو (یارسول اللہ ﷺ) ساری کائنات آپ کے حریم ناز کا طواف کرتی ہے اور میں آپ کی ایک نگاہِ کرم کا بھکاری ہوں۔ میرا ذکر وفکر علم وعرفان سب کچھ آپ ہیں ۔میری کشتی بھی آپ ہیں،دریار بھی اور طوفان بھی آپ ہیں۔(یارسو ل اللہ ﷺ)آپ کے کوچے کا حریمِ پاک ہی میری پناہ گاہ ہے،اور میں اسی پناہ کی امید میں آپ کی طرف دوڑتا چلا آرہا ہوں ۔ اداروں کے بننے اور سنورنے میں چار،پانچ سال کا عرصہ …کوئی ایسا نہیں،کہ جس میں چیزیں محترم اور معتبر ہوں ، لیکن ، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم اور نبی رحمتﷺ کی خصوصی توجہ کا فیضا ن ہے،کہ یہ ادارہ اس قدر اعزاز اور اکرم کا حامل ہوا ۔ علم الاعداد کی تاریخ بہت پرانی ہے ، یونانیوں کے بعد،عبرانیوں نے اپنے ابجد کے بائیس حروف کو اعداد میںمنتقل کرکے ، ان سے طرح طرح کی تاویلات اخذ کرنے کا طریقہ رائج کیا ۔ عربوں نے ،عبرانیوں کے حروف ابجد میں چھ حروف کا مزید اضافہ کیا،اس طرح عربی ابجد کے کل حروف اٹھائیس وضع ہوئے،ان اٹھائیس حروف ابجد کو چاند کی اٹھائیس منازل پر منطبق کرکے،ہر منزل کا ایک الگ حرف مقرر اور پھر ہر حرف کی ایک خاص تاثیر معین ہوئی،انہی تاثیرات کے زیر اثر ،علم جفر کی مشہور شاخ ’’علم الآثار‘‘ معرضِ وجود میں آئی ۔’’علم الآثار‘‘کے اصول وقواعد کے مطابق ہی مختلف اورادو نقش اور تعویزات وغیرہ مرتّب ہوتے ہیں،ان میں وہ اورادو وظائف بھی شامل ہیں،جو کلام پاک کی مختلف آیات سے لیکر،علم الآثار کے مطابق،مختلف تاثیرات پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔اسی طرح بعض آیات ِ قرآنی کے حروف کی ابجدی قدریں محمل کرکے،نقوش ترتیب اور ترکیب پاتے اور مختلف مطالب کے اخذ وحصول کے کام آتے ہیں۔اسی علم الاعداد کے مطابق م کے عدد 40،ح کے عدد8، م کے عدد40،اور د کے عدد 4ہیں،جس کے مطابق محمد (ﷺ) کے اسم مبارک کے کل عدد 40 + 8 + 40 + 4 = 92بنتے ہیں ۔ اقبال کا کہنا تو اپنی جگہ کہ ـ : دہر میں اسم ’’محمد‘‘ سے اُجالا کردے لیکن حیرت تو یہ ہے کہ بابا گورونانک نے اپنے ایک شعر کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہر لفظ کے حروفِ ابجد میں اسم ’’محمد‘‘تک رسائی اوراُن کے اخذِ فیض کا فارمولا موجود ہے۔ لونام چراچر کا چوگنا کردتا دو ملا کر پانچ گن کاٹو بیس بنا جو باقی رہے سو نو گن دو نو ہور ملا نانک اس بدہر کے نام محمدؑ بنا اس خطّہ پاک کی خوش بختی…کہ اس کو تو کنٹری کوڈ بھی ’’92‘‘ میسر آیا،کہ دنیا بھرمیں آپ کہیں بھی ہوں،اس وقت تک آپ کا پاکستان سے رابطہ ممکن ہی نہیں،جب تک آپ ’’92‘‘ڈائیل نہ کریں ۔ خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے بنضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے