سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پہ بری کردیئے گئے۔ اس اندوہناک واقعہ میں نو عمر بچی سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے۔جس کار میں مقتولین سمیت سات افراد سوار تھے، شادی میں شرکت کے لئے لاہور سے بوریوالا جارہی تھی۔ یہ واقعہ ساہیوال کے نزدیک پیش آیا جب محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے کار پہ فائر کھول دیا۔ کار ڈرائیور ذیشان، سوار خلیل اس کی بیوی اور بیٹی جاں بحق ہوگئے جبکہ تین کم عمر بچوں میں سے دو زخمی ہوئے۔ محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے، جنہوں نے بدقسمت کار پہ فائرنگ کی ، کئی بار اپنا موقف بدلا۔پہلے ان کا بیان تھا کہ کار میں سوار اغوا کار بچوں کو اغوا کر کے کہیں لے جارہے تھے اور پیچھا کرنے پہ پولیس پہ فائر ملزمان نے ہی کھولا تھا۔ کار میں سوار اغوا کاروں کے علا وہ تین سہولت کار بھی موقع پہ موجود تھے جو فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ان کے نام شبیر ، عبدالرحمن اور نامعلوم تھے۔جب وہ فرار ہی ہوگئے تو ان کے نام کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔وہ تھے بھی یا نہیں اس کا ثبوت کون مانگ سکتا ہے۔بچ جانے والے معصوم بچوں کے بیان نے جب یہ پول کھولا کہ وہ ان کے اپنے ماںباپ ہی تھے تو محکمہ انسداد دہشت گردی نے بیان بدل لیا۔محکمہ کی پریس ریلیز کے مطابق یہ کاروائی اٹیلیجنس رپورٹوں کی بنیاد پہ کی گئی جس کے مطابق ڈرائیور ذیشان کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا اور مذکورہ آپریشن فیصل آباد میں کئے گئے ایک آپریشن کا تسلسل تھا۔ڈرائیور ذیشان ، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے حیدر گیلانی کے اغوا میں بھی ملوث تھا جو خود ایک مشکوک واقعہ تھا۔وزیر قانون رانا بشارت نے بھی آپریشن کو درست قرار دیا لیکن محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ کو معطل کرنے کا اعلان بھی کیا۔ مقتولین کے ورثا اس موقف کی تردید کرتے رہے کہ مقتولین کا دہشت گردوں سے کوئی تعلق تھا۔بعد ازاں بچ جانے والے بدقسمت بچوں کے بیانات اور ان کی حالت زار نے عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی جو پولیس اور اس سے متعلقہ محکموں کی کارکردگی سے پہلے ہی نالاں تھے۔یہ کیس انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں دس ماہ چلا اور عدم ثبوت اور گواہوں کے منحرف ہوجانے کے باعث ملوث اہلکاروں کو بری کردیا گیا۔ فیصلے کے منظر عام پہ آتے ہی مقتول خلیل کے بھائی کا مشکوک وڈیو بیان جس میں وہ فیصلے اور اداروں پہ مکمل اطمینان کا اظہار کررہا ہے، میڈیا پہ گردش کرتا رہا۔ اس کے بعد فیصلے پہ معترض ہونے والوں کی حیثیت سست مدعی کے مقابلے میں چست گواہ کی سی رہ گئی۔ ہوا لیکن کچھ یوں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس فیصلے پہ عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، مقتولین کے اہل خانہ کی جانب سے مدعیت نہ ہونے کے باوجود ریاست کو مدعی بنانے کا اعلان کیا ہے۔یہ ریاست مدینہ کے اولین اصولوں میں سے ایک ہے کہ مظلوم کی مدعی خود ریاست ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور کیا انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور ہو سکتی ہے۔اس صورت میں ری ٹرائل کا امکان تو غالبا نہیں ہوگا، البتہ موجود گواہوں اور ثبوتوں پہ نظر ثانی کی جائے گی۔ اگر یہاں میں ماڈل ٹاون سانحے کی مثال دوں یا بے نظیر قتل کیس کا حوالہ تو کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے گا۔ دونوں کیسوں میں جائے وقوعہ سے شہادتیں مٹا دی گئی تھیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں حکومت خود ملزم تھی ۔ جس وقت فرانزک ٹیم جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے گئی تو تمام شواہد مٹائے جاچکے تھے اور فرانزک ٹیم نے رپورٹ مرتب کرنے سے انکار کردیا تھا۔پولیس یوں بھی جب چاہے جائے وقوعہ کو اپنی مرضی کا رنگ دے سکتی ہے۔ یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے بالخصوص اس وقت جب اس کے سیاسی محرکات بھی ہوں۔ اس کے باوجو اس مخصوص کیس میں جب ثبوت مٹائے جاچکے ہوں اور گواہ منحرف ہوچکے ہوں، ریاست کا مظلوم کی طرف سے مدعی بننا خوش آئیند اقدام ہے اور اس ذہنیت سے ممیز ہے جب اندھا دھند پولیس مقابلوں میں سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگادیا جاتا تھا چاہے اس کا نتیجہ کچھ نکلے۔اس کے علاوہ ملزمان کو شک کا فائدہ کیوں دیا گیا ہے اس کی تفصیلات اہم ہونگی۔مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول ذیشان پہ دس ، خلیل پہ تیرہ،اس کی بیوی نبیلہ اور بیٹی پہ چار چار گولیاں برسائی گئیں۔ظاہر ہے یہ گولیاں آسمان سے نازل نہیں ہوئی تھیں۔اگر پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اب تک یہی درج ہے تو مقتول ، پولیس کی گولیوں سے ہی مارے گئے۔امکان ہے کہ شک کا فائدہ انہیں اس بنیاد پہ نہیں دیا گیا ہوگا بلکہ اس بنیاد پہ کہ کاروائی انٹیلیجنس رپورٹ کی بنیاد پہ کی گئی یہ اور بات ہے کہ رپورٹ درست نہیں تھی۔ایسے کئی ٹیکنیکل نکتے دوبارہ اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے ممکن ہے کیس کا رخ تبدیل ہوجائے۔ گزشتہ دنوں ایک کام کے سلسلے میں کئی بار علاقے کے تھانے جانے کا اتفاق ہوا۔ ماورائے عدالت قتل سے متعلق سوال کیا تو کئی باتیں سامنے آئیں۔بتایا گیا کہ ایسے ملزمان جس کے خلاف عدالت میں کچھ ثابت نہ کیا جاسکے ، اکثر اس کا نشانہ بنتے ہیں اور اسے پولیس مقابلے کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔کئی بار اس کے سیاسی محرکات بھی ہوتے ہیں۔پولیس کی اپنی تقرریاں سیاسی ہوتی ہیں اس لئے ان سے وہی کام لیا جاتا ہے جس کے لئے تقرری کی جاتی ہے۔خود میں نے کراچی میں کئی سیاسی اورفوجی آپریشن دیکھ رکھے ہیں۔ دہرے اور تہرے نہیں بیسیوں قتل کے مرتکب لنگڑوں، کانوں اور کن ٹٹوں کو پہلے دندناتے پھر جعلی پولیس یا رینجرزمقابلوں میں مارے جاتے دیکھا۔ ثبوت کسی کے پاس کیا ہونا تھا۔ سب کو پتا ہوتا تھا لیکن کوئی منہ نہیں کھولتا تھا۔بیسیوں گواہ موجود ہوتے تھے لیکن کس کی ہمت تھی کہ زبان کھولے۔پولیس کے پاس عدالت میں پیش کرنے اور ثابت کرنے کے لئے کچھ ہوتا ہی نہیں۔اگر ہوبھی تو طویل پیشیاں کون اور کیوں بھگتے جب انسداد دہشت گردی کے نام پہ لامحدود اختیارات آپ کے پاس ہوں۔ آسان حل یہی ہے کہ کھولو چیمبر مارو برسٹ کا نعرہ لگانے والوں کو اسی انجام سے دوچار کردیا جائے۔ جب ریاست سیاسی مصلحتوں کے تحت آنکھوں پہ پٹی باندھے چودہ سیٹو ں کے لئے شہر میں خون کی ہولی کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دے تو پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت اشرافیہ کے بچے قتل نہیں ہوتے ،گلی میں رلتے لنگڑے اور کانے ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔راو انوار کھلا پھرتا ہے اور کوئی اسے اپنا بہادر بچہ کہتا ہے۔ تین دہائیوں سے اس گلے سڑے عدالتی نظام میں اپنے گماشتے بٹھا کر حسب منشا فائدے اٹھانے والے جب ساہیوال کیس کے فیصلے پہ شور مچاتے ہیں تو سانحہ بارہ مئی ، بلدیہ فیکٹری اور ماڈل ٹاون گنبد کی باز گشت بن کر کہتے ہیں کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔بیماری کی رعایت کا فائدہ اٹھا کر اربوں کی کرپشن کے ملزم کو ضمانت مل جاتی ہے تو ریاست کی رٹ قائم کرنے والوں کو شک کا فائدہ کیوں نہیں مل سکتا؟